افطاری ہر روزے دار کا بنیادی حق ہے مگر ہر افطاری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے روزے دار دوسروں کا حق بھی کھا جانا چاہتا ہے۔
افطاری اور جہیز کے لوازمات کبھی ختم نہیں ہوتے، جتنا ڈالو کم نظر آتا ہے۔ ہر افطاری میں ایک روزے دار کے ساتھ تین سے چار بے روزے دار بندھے ہوتے ہیں جو فضائل رمضان پر ایسی جامع اور رقت آمیز تقریر کررہے ہوتے ہیں جیسے ہمارا ان پڑھ وزیرِ سائنس، ٹیکنالوجی سائنس پر کررہا ہوتا ہے۔
ہر روزے کی تان کھجور پر آکر ٹوٹتی ہے۔ کھجور اور پکوڑوں کے بغیر روزہ ہے نہ مسلمان۔ ہر اچھے روزے دار کو روزہ رکھنے کی دعا کم اور روزہ کھولنے کی دعا زیادہ یاد رہتی ہے۔ ماہرینِ روزہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے کی دعا سحری میں سب کچھ کھا لینے کے بعد پڑھنی پڑتی ہے اور پیٹ بھر جانے کے بعد خدا کب یاد رہتا ہے۔
افطاری کے وقت زبان تو زبان آنتیں بھی قل ھواللہ پڑھ رہی ہوتی ہیں۔ اچھا مردِ مومن وہی ہے جو نکاح میں قبول ہے، قبول ہے، اور افطاری کے وقت افطار کی دعا تیزی سے پڑھ سکے ورنہ ڈر رہتا ہے کہ کھجور اور دلہن دوسرے کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ رمضان میں کھجور اور عید الاضحٰی میں جانوروں کی بےدریغ قربانی مسلمان کی شان ہے۔
کھجور کے بعد دوسری للچائی نظر پکوڑوں پر ہوتی ہے۔ پکوڑے جتنے خستہ، چٹپٹے اور گرما گرم ہوں روزے دار کے روزے کو اتنی ہی زیادہ تسکین ملتی ہے۔ افطار وہ واحد وقت ہے جب لوگ ملکی سیاست اور موبائل فون کی گھنٹی تک بھول جاتے ہیں۔ ہاتھ، منہ، دانت اور زبان میں سے کس کی حرکت سب سے زیادہ تیز رہتی ہے اس کا حساب بعد میں میزبان کو نہ سہی اپنے اپنے پیٹ کو ضرور دینا پڑتا ہے۔
دنیائے نماز میں یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ مومن کا دل جس نماز میں سب سے کم لگتا ہے وہ ہے رمضان میں مغرب کی نماز۔ ایک مولوی کا کہنا ہے رمضان میں مغرب کی اذان جتنی بھلی لگتی ہے، افطاری درمیان میں چھوڑ کر نماز کیلئے اٹھنا، اتنا ہی برا، یہ ایسے ہی ہے جیسے نکاح کے بعد دولہے کو جاب پر جانا پڑجائے۔