1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. مرزا یاسین بیگ/
  4. گھٹنے نہ ہوتے تو قد آدھا رہ جاتا

گھٹنے نہ ہوتے تو قد آدھا رہ جاتا

گھٹنوں کا اصل کام پیروں کو چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور دیگر حرکاتِ ضروریہ و غیر ضروریہ میں مدد دینا ہے مگر یہ بعض بد فعلیاں، بھی انجام دیتا ہے۔ جیسے ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔

اس سلسلے میں ہم نے جب گھٹنے سے تبصرے کیلئے رابطہ کیا تو وہ سُوج کر بولے جب آنکھ دن میں، دس بار آنکھ مارتی ہے تو آپ اسے اس لئیے کچھ نہیں کہتے کیونکہ وہ مؤنث ہے۔

تاریخ اور زچگی خانے شاہد ہیں کہ ہر شخص دو گھٹنے لےکر پیدا ہوتا ہے جو عین اسی مقام پر ہوتے ہیں جہاں انھیں ہوناچاہیئے۔ اولاد کی پہلی کارکردگی جس پر والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے وہ ہے گھٹنوں کے بل چلنا۔ یہ خوشی مزید دیدنی ہوتی ہے جب اولاد بھی پہلی ہو۔

پیاز کا چِھلنا اور گھٹنے کا چِھلنا عین فطرتِ پیاز و انسان ہے جس پر آنسو آنا بھی مشترکہ ہے۔

عقل کا دوسرا وطن گھٹنا ہے۔ سنا ہے جب عقل استعمال میں نہ ہو تو وہ ترکِ وطن کرکے گھٹنے میں آجاتی ہے۔

جب کسی کو پروپوز کرنا ہو تو مرد گھٹنے پر ہی بیٹھ کر پوز بناتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ سوچ کہاں سے رہا ہے۔

مرد کی آہ یا واہ نکل جاتی ہے جب اس کی محبوبہ گھٹنوں میں منہ دے کر شرمائے یا پھر اس کے گھٹنوں سے لگ کر بیٹھے۔ یہی عمل دس سالہ پرانی بیوی کرے تو تن بدن یا جائے وقوعہ پر آگ لگ جاتی ہے۔

انسان کو عشق ہوجائے تو اس کے دل میں درد رہتا ہے اور بوڑھا ہوجائے تو گھٹنے میں۔ جب تک لڑکی آپ کے من کو چھوئے آپ جوان، جب وہ گھٹنا چھوئے تو آپ بوڑھے۔

بڑھاپے کی پہلی بیرونی اپیل گھٹنا ہی کرتا ہے۔ دردِ دل کے بعد سب سے زیادہ شکایت گھٹنے کے درد کی، کی جاتی ہے۔ اگر گھٹنے نہ ہوتے تو ڈاکٹروں اور دوائیں بنانے والوں کی کمائی آدھی رہ جاتی۔

گھٹنے نہ ہوتے تو ہمارا قد بھی آدھا رہ جاتا۔ گھٹنے کی جڑواں چھوٹی بہن کہنی ہے جس نے ہاتھوں کا انتظام سبنھالا ہوا ہے۔ گھٹنے کو ایک شہرہ آفاق بیماری لاحق ہے جسے گھٹنا ٹیکنا کہتے ہیں۔ آج کل ہر کوئی امریکہ و آئ ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیک رہا ہے۔