1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. مرزا یاسین بیگ/
  4. چار دن کی زندگی اور شکاگو کے چار دن

چار دن کی زندگی اور شکاگو کے چار دن

شکاگو کو "مسلمانی" نظروں سے دیکھیں تو اتنا ہی بےحیا شہر ہے جتنا کہ دیگر امریکی شہر۔ جگہ جگہ ایسے ریستوران موجود جہاں بوتلیں اور گوشت کھلا پڑا ہے۔

شہر بیک وقت دریا اور جھیل سے پینگیں بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ دریا مسسی سپی اور جھیل مشی گن کھلے عام گلے مل رہے ہیں۔ پانیوں میں شپ، بوٹ اور مرد و خواتین اپنے اپنے جذبات لئیے اچھل کود رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں مگر ایک دوسرے کو بوسہ لینے والے بہت۔

شکاگو کی آبادی 30 لاکھ جس میں سے ڈیڑھ لاکھ تو ڈاؤن ٹاؤن ہی میں گھومتی پھرتی نظر آئی۔ ڈیلیوری کیلئے نرسز کم اور اوبر ایٹز کے کارکن زیادہ متحرک ہیں۔ شکاگو ڈاؤن ٹاؤن میں جگہ جگہ اتنی زیادہ تعداد میں خواتین نظر آئیں کہ شہر کو "شی کارگو" کہنا زیادہ مناسب لگا۔

امریکہ کا تیسرا بڑا شہر، کثیر تعداد میں آسمان کو چھوتی جدید تعمیر کی شاہکار عمارتیں جن میں سے تین بلند ترین عمارتیں سیئرز ٹاور، آؤن سینٹر اور جون ہینکوک سینٹر دنیا بھر میں مںشہور۔ شکر ہے ٹوپی نہیں پہنی تھی ورنہ انھیں اوپر تک دیکھتے ہوئے ضرور نیچے گرجاتی۔ شکاگو نے اتنی بڑی تعداد میں بلند عمارتیں تعمیر کر رکھی ہیں کہ پرندے بھی شاکی ہیں کہ ان کی اڑان دم توڑ دیتی ہے۔

میوزک اور میوزیم کی بہتات مگر کوئی میوزیم ہم سے ملنے نہیں آیا سو ہم بھی اسے دیکھنے نہ گئے کیونکہ میوزیم میں داخل ہونے کے بعد ہمیں پکڑ کر ہی باہر نکالا جاتا ہے اور اس بار اتنا وقت ہی نہیں تھا۔ بس ہر چیز دیکھ کر یا چھوکر گزرنے کی اجازت تھی اور اس میں بھی انگریزی والا her شامل نہیں تھا چنانچہ تفریح آدھی رہی۔

اپنے جن کھانوں کیلئے شکاگو مشہور اسے ہم جیسے "کچے مسلمان" بھی کھا نہیں سکتے۔ اس لئیے حلال ریستوران ڈھونڈنا بھی شاملِ تفریح رہا۔ بیگم اور بیٹی ساتھ تھیں۔ بیٹی جگہوں کا تعارف کراتی رہی اور بیگم یہ دیکھتی رہیں کہ ہماری نظریں کن کن جگہوں پر ہیں۔

پانچ سال پہلے بھی ایک بار شکاگو میں چند گھنٹوں کیلئے ماجدہ سمیت جھانکی لگائی تھی اور موسلادھار بارش کے ساتھ چھوٹے شپ میں بیٹھ کر جھیل کی دو گھنٹہ سیر کی تھی اور Devon Ave پر صابری کی نہاری کھاکر واپس لوٹ گئے تھے۔ یہ سڑک انڈیا و پاکستان والوں کی سڑک ہے۔ جابجا اور بےجا پاکستانیوں و انڈیا والوں کی ہر قسم کی دکانیں۔ پان کھانا ہو، چائے پینی ہو، لباس سے لےکر پاکستانی یا انڈین گروسری کرنی ہو، ڈی وان روڈ آپ کیلئے حاضر۔ ٹورنٹو کے جیراڈ اسٹریٹ کی کاربن کاپی پیش کرتی ہے سوائے اس کے کہ جیراڈ پر پنجابی زیادہ نظر آتے ہیں اور ڈی وان روڈ پر انڈین حیدرآبادی۔

اس بار ہم اپنے ایک بہت ہی دیرینہ فیملی فرینڈ سے ملنے صرف آدھے گھنٹے کیلئے اس اسٹریٹ پر گئے جس کا تذکرہ علیحدہ سے۔ اس بار ڈائون ٹاؤن کی سیر رکشے پر کی (جسے مقامی tuk tuk کہتے ہیں) اور آدھ گھنٹے تک ڈاؤن ٹاؤن کے نظاروں سے لطف اندوز ہوئے ظاہر ہے اس میں عمارتوں کا سحر بھی تھا اور ساحرائوں کا بھی۔

شکاگو کا موسم بھی تقریباً مسسی ساگا جیسا تھا۔ فرق صرف میری بلّی شیڈو اور نواسی عنایہ کا تھا۔ دونوں اس چار روزہ جدائی میں بھی بہت یاد آئیں۔

شکاگو کے ایک گاؤں فرینکفرٹ جاکر بھی رہنے کا اتفاق ہوا جو ایک مختلف تجربہ تھا۔ طارق معین صاحب کے صاحبزادے کے علاقے اوک بروک بھی گئے۔ اس کی تفصیل بھی علیحدہ سے۔

چار دن کی زندگی کے چار دن ہی شکاگو میں گزارے جس میں مسرت آمیز احساس یہ رہا کہ بیاہی بیٹی و داماد سے ان کے کینیڈا والے والدین نے ملاقات کرلی۔

ٹورنٹو سے شکاگو کا ہوائی سفر صرف ایک گھنٹے کا ہے مگر یہ ہوائی بات ہی لگتی ہے کیونکہ جہاز کے آنے جانے کے نخروں میں نو گھنٹے خرچ ہوگئے۔ یہی اس سفر کے جمع خرچ کی روداد ہے جسے شارٹ ویڈیوز کے ساتھ آپ کےلئے پیش کردیا ہے۔ گھر بیٹھے انجوائے کرلیں۔