1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. سچ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں

سچ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں

سچ یہی ہے کہ مطالعہ کا ذوق و شوق ختم ہونے میں سماجی ماحول، معروضی حالات، سستی جگت بازی کے ساتھ ہمارے نظام تعلیم کا بھی عمل دخل ہے۔ مثلاً ہمیں نسل در نسل بتایا پڑھایا جاتا رہا ہے کہ انگریز برصغیر میں تجارت کے بہانے آئے اور پھر سازشوں کے ذریعہ "سونے کی چڑیا" برصغیر پر قابض ہوگئے۔ یہ محمد بن قاسم، محمود غزنوی، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور بابر ہند و سندھ میں کیوں تشریف لائے تھے؟

چنے پٹھورے، مرغ چنے، حلیم اور بریانی و کابلی پلاو فروخت کرنے؟ ظاہر ہے کہ یہ لوگ زیرہ، کپڑے، گھوڑوں اور دیگر اشیاء کی تجارت کے لئے تو نہیں آئے تھے۔

چلیں بابر کی اگلی نسلیں تو یہیں کی ہوکر رہ گئیں باقی تو سب لوٹ مار (ہم اسے مال غنیمت کا نام دیتے ہیں) کے لئے ہی آئے تھے۔ انگریزوں کی طرح مال اپنے آبائی علاقوں میں لے گئے صرف مال ہی نہیں مردوزن غلاموں کی بڑی تعداد بھی۔

حساب یہ ہوا کہ حملہ آور حملہ آور ہوتا ہے۔ ہم نے مسلمان حملہ آور کو مذہبی تقدس کی چادر پہناکر پہلے نجات دہندہ بنایا پھر محبوب اور 14 اگست 1947ء کے بعد ہیرو کا درجہ دے دیا۔ محققین و تاریخ نویسوں اور مطالعہ پاکستان مرتب کرنے والوں سے پوچھئے تو کیا ہیروز کے معاملے میں یہ دھرتی بنجر تھی؟

ایک وقت تھا تقریباً ہر محلے میں ایک آدھ لائبریری (انہیں آنہ لائبریری کہا جاتا تھا) ضرور ہوتی تھی ان لائبریریوں پر کرائے پر کتب، رسالے اور ڈائجسٹ ملتے تھے۔ لائبریریوں پر سب سے اہم جاسوسی ناول ہوتے تھے ابتدا میں ابن صفی کے جاسوسی ناول، آگے چل کر مظہر کلیم، صفدر شاہین، نغمہ صفی اور ایچ اقبال وغیرہ کے لکھے جاسوسی ناول۔ ابن صفی کے بعد اگر کسی جاسوسی ناول کی ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی تو وہ مظہر کلیم کے عمران سیریز والے جاسوسی ناول تھے۔

ڈائجسٹوں میں سب سے زیادہ مانگ ایک زمانے میں"سب رنگ" ڈائجسٹ کی ہوتی تھی۔ میں نے جب اپنی آپا اماں (سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ) کی لائبریری پر بیٹھنا شروع کیا تو اس وقت جاسوسی ناولوں کے بعد سب رنگ ڈائجسٹ کی سب سے زیادہ مانگ تھی پڑھنے والوں کی دلچسپی اور طلب کی وجہ سے ہر ماہ "سب رنگ ڈائجسٹ" کے دو شمارے خریدے جاتے تھے۔

رضیہ بٹ اور مینا ناز کے ناول خواتین کے لئے ہوتے لیکن خواتین سے زیادہ مرد حضرات پڑھتے ان کے رومانی ناولوں کی اپنی ہی دنیا تھی۔ جس طرح آپ پچھلی صدی کی تین دہائیوں 1980،1970،1960کی پنجابی فلموں والا پنجاب، چراغ الہ دین لے کربھی نہیں ڈھونڈ سکتے تھے اسی طرح رضیہ بٹ اور مینا ناز کے ناولوں کی خواتین اور گھر بھی تلاش کرنا مشکل تھا۔

انہی دہائیوں میں نسیم حجازی بھی مقبول تھے لیکن ان کے رومانوی کم "تاریخی رومانوی" ناولوں کا ہماری لائبریری میں داخلہ بند تھا۔ آپا اماں کا خیال تھا کہ نسیم حجازی رومانوی تاریخی ناولوں کے نام پر فکری و فہمی مغالطوں کا کاروبار کرتے ہیں۔

بہرحال قمر اجنالوی ستر اور اسی کی دہائیوں کے معروف ناول نگار رہے ان کی تحریر آج بھی عشروں بعد زندگی کی حرارت لئے ہوئے ہے۔ اسی طرح "بچوں کی دنیا"، "چاند"، "زیب النساء" تعلیم نسواں اور چند دیگر رسالے بچوں اور خواتین میں مقبول تھے۔

میں نے لائبریری پر اپنے بیٹھنے کے عرصے میں روسی ناول "ماں" اور آغا شورش کاشمیری کا سفر نامہ حج "شب جانے کہ من بودم" سب سے زیادہ کرائے پر دیا۔

جن تین دہائیوں (پچھلی صدی کی) کا میں نے بالائی سطور میں ذکر کیا ان دہائیوں میں اساتذہ اپنے طلباء کو مطالعہ کی طرف نہ صرف راغب کرتے تھے بلکہ پڑھنے کے لئے کتاب بھی تجویز کرتے۔ بعض اساتذہ تو شاگردوں کو اپنے پاس سے کتابیں پڑھنے کو دیتے یا پھر کتابیں خریدنے کے لئے مالی مدد کرتے تھے۔

مجھے دونوں طرح کے خوشگوار تجربے ہوئے۔ اساتذہ نے پڑھنے کے لئے کتب عنایت کیں یا کتاب خریدنے کے لئے پیسے دیئے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سماجی ماحول میں جو نفسانفسی بدعہدی اور خودپرستی کا دوردورہ ہے یہ یقیناً پہلے بھی ہوں گے لیکن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء والے برسوں میں تو یہ وبا کی طرح پھیلے اس کے نقصانات ہم سب کے سامنے ہیں۔

ایک ستم یہ ہوا کہ مدارس و سکولوں کی روایتی تعلیم کو علم کانام دیا گیا حالانکہ یہ محض روایتی تعلیم ہے کلرک اور پیش نماز پیدا کرنے والی روایتی تعلیم کا اختتام طالب علم کو علم کے دروازے پر لے جا کھڑا کرتا ہے تب طالب علم تحصیل علم کی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ اپنے لئے ایک موضوع منتخب کرتاہے۔

یہاں صورتحال ہی نرالی ہے۔ یونیسیف کے مطابق اخبار کی سرخی پڑھ کر رائے دینے والا تعلیم یافتہ ہے ہم کہتے ہیں ناظرے قرآن پڑھا اور دستخط کرلینے والا خواندہ ہے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارے پاس یعنی پورے برصغیر کے مسلمانوں کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ ہم اپنی اولاد کے مقامی نام نہیں رکھ سکتے اس معاملے میں اخلاقی جرات سے محروم ہے۔ طرفہ تماشا اسلامی نام۔ اسلامی شہد کی طرح یا مدنی عطر وغیرہ۔ اپنی زمین، تہذیب اور تاریخ سے کٹے ہجوم کی ترجیحات کیا ہوسکتی ہیں یہی جو ہماری آپ کی ہیں۔

ذرا چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھئے۔ آپ کسی محفل میں لوگوں کے مزاج کے برعکس بات کرکے دیکھ لیجئے۔ ایک پھبتی منہ توڑدے گی۔ "زیادہ پڑھ لیا ہے دماغ ساتویں آسمان پر ہے"۔

کہیں پڑھا تھا "زیادہ تر لوگوں کے گھروں میں اولاً تو کتابیں نہیں ہوتیں۔ کتابوں سے محبت اِکادُکا لوگ کرتے ہیں زیادہ تر لوگوں کے گھر میں صرف انکی مذہبی کتاب ہوتی ہے وہ بھی برکت کی نیت سے پڑھنے کے لئے نہیں"۔

ہمارا نصاب تعلیم صاف سیدھے لفظوں میں علم و مطالعہ کا دشمن ہے صرف سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا نصاب نہیں دینی مدارس کا بھی دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں لکیر کے فقیر پیدا کئے جاتے ہیں۔ اپنے گھریلو ماحول، حلقہ احباب، کسی ایک آدھ استاد یا شفیق مربی کی بدولت کوئی روایت شکن ہوجائے تو الگ بات ہے ورنہ پورے سماج کا چلن یہی ہے۔

ان معروضات کا مقصد کسی کی تضحیک ہرگز نہیں میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں جرات کے ساتھ ہر اس چیز اور عمل و فہم پر تنقید کرنا ہوگی جو علم و آگہی کے راستے میں رکاوٹ ہو۔

میں کبھی کبھی بعض سابق بیوروکریٹس کی سوانح عمریاں پڑھتے ہوئے حیران ہوتا ہوں جب وہ اپنی "طہارت" کے ڈنکے بجاتے ہوئے سیاستدانوں اور لوگوں کو کوس رہے ہوتے ہیں ان سے سوال یہ ہونا چاہیے کہ 25،30 برس کی نوکری میں آپ نے انسان سازی اور علم دوستی کے ساتھ سماجی شعور کے بڑھاوے کے لئے کیا کیا؟

یہاں عمر بھر رشوت لینے والا ریٹائرمنٹ کے بعد مذہبی عبادت گاہوں کی انتظامی کمیٹیوں میں شامل ہوکر ثواب کا کاروبار کرتاہے۔

ہم اپنے موضوع کی جانب واپس پلٹتے ہیں۔ معاشرے کی شعوری سطح بہتر بنانے کے لئے نصاب تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ہماری تاریخ کیا ہے اس سرزمین کی جہاں ہم نسلوں سے آباد ہیں اس کی تاریخ، تہذیب و تمدن کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ علم علم ہے یہ ا سلامی اور غیراسلامی نہیں ہوتا۔ تحقیق و جستجو سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ سوال کرنا مثبت عمل ہے نہ کہ بدتمیزی۔

اصل میں سکیورٹی اسٹیٹ کے دھندے اسی طرح چلتے ہیں کہ لوگ نفسانفسی کا شکار رہیں تعصبات کا دوردورہ ہو۔ آخرت کی ایسی منظرکشی کی جائے کہ کچھ لوگ خوف سے دنیا بیزار ہوں اور کچھ ترغیب سے۔

سوال یہ ہے کہ جو لوگ دنیا کی تعلیم اور جدیدیت کے ارتقا میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے وہ کسی آخرت کی صورت میں ہوئے حساب کے وقت کس منہ سے یہ کہیں گے کہ "یہ تو ہمیں علم ہی نہیں تھا"۔

پچھلی نصب صدی سے ان سطور میں تواتر کے ساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ سکیورٹی سٹیٹ سیاسی شعور، سماجی جڑت، علم، مکالمے اور ایثار کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے۔ اس کے کرتا دھرتا یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی شعور، سماجی جڑت کا جذبہ، علم اور مکالمہ اور ایثار رعایا کو عوام بناتے ہیں۔

عوام اپنا حق مانگتے ہیں۔ وسائل میں اقتدار میں منصبوں میں اور بلاامتیاز انصاف چاہتے ہیں رعایا صرف سرنیواڑے اطاعت کرتی ہے۔ سکیورٹی سٹیٹ ہر اس کام اور عمل کی حوصلہ افزائی کرتی جس سے تقسیم در تقسیم آگے بڑھے وحدت اسے اپنے وجود کے لئے خطرہ لگتی ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ ہمیں اپنا اصل اور جڑت تلاش کرنا ہوں گے یہ اسی صورت ممکن ہے جب بدیسی تاریخ ہیروز وغیرہ سے نجات حاصل کرلی جائے۔