1. ہوم
  2. کالمز
  3. حیدر جاوید سید
  4. کیا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ساجھے داری کا سفر تمام ہوا؟

کیا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ساجھے داری کا سفر تمام ہوا؟

ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے مراحل تمام ہوئے۔ یوٹیوبرز کی دنیا میں بھونچال برپا ہے۔ تحریک انصاف نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل کھڑکی توڑ حکمت عملی اپنائی پھر رائے شماری سے قبل بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ جے یو آئی ف کے چند ارکان نے دونوں ایوانوں میں ترمیم کے خلاف ٹوکن ووٹ دیئے۔ اس آئینی ترمیم سے چند دن قبل ہونے والے چاروں صوبوں کی بار کونسلز کے انتخابات میں بحثیت مجموعی عاصمہ جہانگیر گروپ کا پلڑا بھاری رہا، حامد خان کے پروفیشنل گروپ (فقیر راحموں اسے ججز ٹکسال گروپ کہتا ہے) نے زندہ ہونے کا ثبوت تحریک انصاف کے حامی وکلاء کے تعاون سے فراہم کیا۔

بار کونسلز کے نتائج سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ حامد خان گروپ کوئی بڑی وکلاء تحریک نہیں چلا پائے گا۔ 2007 کی جس وکلاء تحریک کی مثالیں دی جاتی ہیں وہ خود ریاست کے طاقتور محکمے کی سپانسرڈ تھی۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے ہمدرد وکلاء آزاد عدلیہ کے نام پر استعمال ہوئے یہاں تک کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے بیرون ملک ہونے کے باوجود اس تحریک کو مالی مدد بھی فراہم کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس آزاد عدلیہ تحریک کی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے حمایت میثاق جمہوریت کی اس شق سے متصادم تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو دوبارہ عدلیہ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا لیکن پھر ہوا یہ کہ پی سی او ون کے تحت حلف اٹھانے والے واپس آگئے۔ ان میں سپریم کورٹ کے وہ جج بھی شامل تھے جنہوں نے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو نہ صرف آئین میں ترامیم کا حق پلیٹ میں رکھ کر عطا کیا۔

لیکن پی سی او 2 کے تحت حلف لینے والے گالی بنا دیئے گئے۔ یہ سودا راجہ ظفرالحق کی قیام گاہ پر طے ہوا تھا۔ تب ان سطور میں تفصیل کے ساتھ سودے کی بنیادی وجوہات عرض کی تھیں۔ اسی طرح اٹھارہویں ترمیم کے بعد اگر مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑی رہتی تو اس ترمیم پر 19 ویں ترمیم کی وہ تلوار نہ چل پاتی جو جوڈیشل ایکٹوازم کی جنون میں چل گئی اور ہاتھ مسلم لیگ ن کے استعمال ہوئے۔

بہر حال پندرہ برس بعد سہی مسلم لیگ ن کو یہ بات سمجھ میں آہی گئی کہ پارلیمان کا گریبان چوہدری کورٹ کے ہاتھ میں پکڑوا کر اس نے غلطی کی۔ ستائیسویں آئینی ترمیم اُسی غلطی کو سدھارنے کا عمل ہے تو یہ پارلیمان کا حق اور اصل کام بھی۔

آئین سازی اور بدلتے ہوئے حالات کی ضرورتوں کے مطابق قوانین میں ترمیم وغیرہ پارلیمان کا وہ حق ہے جو رائے عامہ اپنے ووٹوں سے اسے دیتی ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر پارلیمان کے ممبروں کو گلیاں نالیاں سڑکیں بنوانے بجلی اور سوئی گیس کے کنکشن دلوانے والا سمجھا جاتا ہے خیر اس کے ذمہ دار بھی اراکین پارلیمان خود ہیں۔

انہوں نے بنیادی سہولتوں اور ضرورتوں کی فراہمی کے بلدیاتی اداروں کو منظم و مئوثر بنانے میں کردار ادا کیا ہوتا تو آج کوئی راہ چلتا لونڈا یہ پھبتی نہ کس پاتا کہ ستائیسویں ترمیم کیسے منظور کر لی گئی؟

جاری تحریر میں پہلی معذرت قبول کیجے بات اصل موضوع سے کچھ دور نکل گئی مگر کیا کیجے اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد غیرت کی سونامی بارے جو دعوے کئے جارہے تھے ویسی سونامی تو نہیں آئی البتہ یہ سطور لکھے جانے تک سپریم کورٹ سے دو اور اسلام آباد و لاہور ہائیکورٹ سے ایک ایک استعفیٰ ضرور آیا ہے۔ ہائیکورٹس سے آئے دو استعفوں میں درشنی فیشنی طور پر ستائیسویں ترمیم کا ذکر ہے لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں کیونکہ مستعفی ہونے والے دونوں ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس آخری مراحل میں تھے۔

نیز یہ کہ ستائیسویں ترمیم کے بعد ججز کے ایک سے دوسری ہائیکورٹ میں تبادلے والی شق سے یہ دونوں جج صاحبان متاثر ہونے والے تھے یعنی جناب اسحٰق اور جناب مرزا کا تبادلہ ہونا تھا انہوں نے اس سے بچنے کیلئے ہیرو پنتھی کا کارڈ کھیل لیا اور یار لوگ واہ واہ کی صدائیں بلند کررہے ہیں۔

دوسری جانب جناب اطہر من اللہ کو محبتِ دستور نے مستعفی ہونے پر مجبور کیا لیکن فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اُس وقت کے صوبہ سرحد (آج خیبرپختونخوا) میں صوبائی وزیر بنتے وقت ان کی آئین پسندی شاید موسم سرما کی تعطیلات پر تھی۔

جناب منصور علی شاہ اگر چھبیسویں ترمیم کے بعد مستعفی ہوتے تو یقیناً ان کے اب دیئے گئے استعفے پر ہیرو پنتھی کی پھبتی نہ کسی جاسکتی لیکن اس کا کیا کیجے کہ وہ مستعفی ہونے سے اٹھتالیس گھنٹے قبل تک نامہ بروں کے ذریعے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش ہی نہیں کرتے رہے بلکہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس بننے کیلئے بھی تیار تھے۔

مگر مخصوص نشستوں والے کیس میں ان کی آئین نویسی کی وجہ سے بد اعتمادی کی خلیج بڑی گہری تھی جو نامہ بر پار کر پائے نہ خود آنجناب۔۔

خیر ان قصوں کو چھوڑ دیجئے یہ ہونا تھا ہائیکورٹس کے جج صاحبان کے تبادلے والی شق کی وجہ سے مزید استعفے آسکتے ہیں لیکن ہر استعفیٰ چودہویں کا چاند ہوگا یعنی ستائیسویں ترمیم سے بغاوت کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا نہ "ہیں کواکب کچھ دیکھائی دیتے ہیں کچھ" بس یہی معاملہ ہے ورنہ یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ جوڈیشل ایکٹوازم کی عمر پندرہ سے بیس برس ہوتی ہے۔

اور سیکورٹی اسٹیٹ کا جوڈیشل ایکٹوازم ساجھے داری کے اصول پر چلتا ہے ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشل ایکٹوازم کی ساجھے داری چل رہی تھی۔ ہمارے آئین سازی کے شوقین جج صاحبان یہ معمولی سی بات نہیں سمجھ پائے کہ پارلیمان کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کا ساجھے دار بننے کے وقتی فوائد تو ہیں لیکن یہ تا ظہور قیامت تک کی ساجھے داری نہیں ہوتی۔

اس کارروبار میں جو فریق طاقتور ہوگا وہ اپنی ناگزیریت سے دستبردار نہیں ہوگا۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ قانون سازی بہر طور پارلیمان کا حق ہے اعلیٰ عدالتیں قانون کی تشریح تو کرسکتی ہیں قانون سازی نہیں لیکن یہاں وہ سب کچھ ہوا جو آئین نویسی کے زمرے میں آتا ہے زیادہ دور نہ جائیں تین مثالیں عرض کیئے دیتا ہوں۔

پہلی عدم اعتماد کے وقت پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کے بارے میں ایک ہی عدالت کے دو مختلف فیصلے ہیں، دوسری کسی ایک کیس کی سماعت کے دوران دوججز کا چیف جسٹس کو ضمنی انتخابات کیلئے ازخود نوٹس لینے کی سفارش کرنا جبکہ یہ معاملہ ان کے سامنے زیرسماعت ہی نہیں تھا، تیسری مثال مخصوص نشستوں پر آئین نویسی کا شوق پورا کرنے کی ہے ان تین کے علاوہ بھی مثالیں ہیں مثلاً گیلانی اور نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے یہ دائرہ اختیار سے تجاوز تھے لیکن تب اسٹیبلشمنٹ پشت پر کھڑی تھی اس لئے دستور پر چاند ماری کو انصاف کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا۔

ایک اور مثال بھی عرض کردوں رواں صدی کی دوسری دہائی میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف ایوان صدر کو پارٹی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کا کیس لاہور ہائیکورٹ میں دائر و سماعت ہوا لیکن اسی ایوان صدر میں جب ایک صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی تحریک انصاف کا مرکزی رابطہ دفتر کھول کر بیٹھ گئے تو عدلیہ کی "غیرت دڑ وٹ گئی" عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شکایات اور شکووں کے دفتر کھولنے سے قبل آپ بھی اپنی اداوں پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میری رائے میں ستائیسویں ترمیم ابھی ادھوری ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد سپریم کورٹ کا کردار اب اپیل کورٹ کا رہ گیا ہے اصولی طور پر اپیل کورٹس صوبائی سطح پر ہونی چاہئیں چاروں صوبوں میں سپریم کورٹ کی رجسٹریاں موجود ہیں ان میں اپیل کورٹس کا قیام عمل میں لاکر سپریم کورٹ میں موجود ججز کو ان کے آبائی صوبوں کی اپیل کورٹس میں بھیجنا چاہئے کیونکہ مستقبل میں اصل کردار وفاقی دستوری عدالت کا ہی ہوگا اور اصولی طور پر یہی سپریم کورٹ کی شناخت کی حقدار بھی دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے قانون سازوں کو یہ بات کتنے عرصے میں سمجھ آتی ہے۔

یہ بھی عرض کردوں کہ ستائیسویں یا اس سے قبل کی ترامیم الہامی ارشادات ہرگز نہیں۔ پارلیمان جب چاہے دوتہائی کی اکثریت سے ان میں ترامیم کرسکتی ہے یہی پارلیمان کا اصل کام ہے۔ جہاں تک سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ترامیم نئے عہدوں کی تخلیق و تقرری کی مدت پر جاری شور شرابے کا تعلق ہے تو زیادہ شور تحریک انصاف کی جانب سے ہے جس کے بانی نے 2022 میں وزارت عظمٰی سے محرومی سے پہلے اور بعد میں دو مرتبہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی، دوسری پیشکش ایوان صدر میں ہوئی ملاقات میں کی گئی جہاں طے پائے معاملے کی روشنی میں جنرل قمر جاوید باجوہ جوکہ اس وقت آرمی چیف تھے کے ماتحت محکموں نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں دامے درمے سخنے تحریک انصاف کی مدد کی۔

اس مدد کا بدلہ چکانے کیلئے نئے آرمی چیف کی تقرری رکوانے کیلئے ایک عدد لانگ مارچ بھی ہوا تھا خیر یہ الگ موضوع ہے فی الوقت یہ کہ تحریک انصاف و اتحادی اپنے پتے درست انداز میں نہیں کھیل پائے ان کی ساری توانائی صرف عمران خان کی رہائی اور مقدمات ختم کروانے پر صرف ہورہی ہے۔

مقابلتاً حکومتی اتحاد نے اپنے پتے پوری مہارت سے کھیلے اور ستائیسویں ترمیم کے نام پر وہ سب حاصل کرلیا جو کبھی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی پرجوش ساجھے داری کے ماحول میں محض ایک خواب تھا جاگتی آنکھوں کا خواب درست و غلط پر مکالمہ ہوسکتا ہے ہونا بھی چاہئے مگر حقیقت یہی ہے کہ پارلیمینٹ جیسی بھی ہے بالادست یہی ہے۔