1. ہوم
  2. افسانہ
  3. سید محمد زاہد
  4. قدیم مصر کے حقائق پر ایک افسانہ

قدیم مصر کے حقائق پر ایک افسانہ

آمن حو تپ، فرعون بیمار پڑا تو خشک سالی اور قحط نے بھی تامرا، (سیلابوں کا ملک۔ مصر) پر ڈیرے جما لیے۔ اس سال بارش ہوئی اور نہ ہی نیل کی طغیانی نے صحراؤں کو سیراب کیا۔ سب عذاب اکٹھے نازل ہو رہے تھے۔

رات ڈھلی تو سارے لوگ معبد کے سامنے کھلے میدان میں جمع ہو گئے۔ سب کی نظر مشرق سے ابھرنے والے سورج دیوتا کا نظارہ کرنے کو ترس رہی تھیں۔ کیا راع، آج بھی چہرہ دکھائے گا یا نہیں؟ یہ سال کا سب سے لمبا دن تھا اور گرمی شدت کی۔ حبس پورے تامرا پر طاری تھا۔ ہواؤں کا خدا، راع کا بیٹا شو، بھی کہیں چھپ گیا۔ گرد و غبار اتنا چھایا ہوا تھا کہ مشرق سے ابھرنے والا نظروں سے اوجھل تھا۔ دور تمرس کی جھاڑیوں اور کھجوروں کے جھنڈ کے پیچھے ہلکی سی روشنی ابھر رہی تھی لیکن راع نظر نہیں آیا۔ طلوع آفتاب کے نیل کنارے کے دلآویز دھندلکے آج اندھیروں سے نکلنے کو تیار نہیں۔

آسمان کو تھامنے والا نہ رہا تو آسمان کسی وقت بھی زمین پر گر سکتا ہے۔

ہیری ہیب، میرا وفادار نوجوان ملازم، بڑا پروہت بننے کی تمام صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن جب میں نے تامرا کی قومی زبان مورتی لکھاوٹ میں اس کی دلچسپی دیکھی تو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سانپوں کے زہر میں رچی بسی اس معبد کی سیاست میں اس کی وفاداری میرے لیے نعمت غیر مترقبہ تھی۔

اپنے کمرے میں داخل ہوتے وقت اس کی آنکھوں کے نیچے کالے دائرے دیکھ کر احساس ہوا کہ پچھلی رات وہ بھی میری طرح سو نہیں سکا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا۔

"آقا! میرے لیے کیا حکم ہے؟"

میں نے کل رات اسے باہر لوگوں کے درمیان بھیجا تھا کہ خوف اور بھوک کے مارے لوگوں کے حالات کا کچھ پتا چل سکے۔

"میرے آقا! لوگ جاننا چاہتے ہیں، کیا تامرا پر دوبارہ دیوتاؤں کی رحمت ہوگی؟ سورج دیوتا کیوں ہمارے خلاف ہوگیا ہے؟ کیا آج دن کے بعد راع جب تحت الثریٰ میں چلا جائے گا تو بدانتظامی کا ناگ اپوپس، اسے مار تو نہیں دے گا؟"

وہ انتہائی خوفزدہ آواز میں آہستہ آہستہ بول رہا تھا کہ کوئی دوسرا سن نہ لے۔

"میرے آقا! اگر اپوپس جیت گیا تو کیا یہ دنیا ختم ہو جائے گی؟ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کیا راع اپنی جادوئی کشتی میں سوار ہو کر آسمان پر دوبارہ طلوع ہوگا اور اپنی سنہری چمک سے اس زمین کو گرمائے گا یا نہیں؟"

جوں جوں دن گزر رہے تھے معبد کے سامنے لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ بھوک کے مارے لوگ جن کے پیٹ کمر کے ساتھ چپٹے اور آنکھیں اپنے خدا کے دیدار کی پیاسی ہیں۔

ان کو حوصلہ تھا تو صرف اس بات کا کہ پروہت اعظم کی تپسیا اس کائنات کا نظم و ضبط دوبارہ بحال کر دے گی۔ میں بھی ساری ساری رات مقدس کتاب کے اشلوک پڑھ کر اپوپس کے موم کے پتلوں پر پھونکتا تھا پھر انہیں مقدس آگ میں پھینک کر جلا دیتا تاکہ بدانتظامی کے اس خدا کے ساتھ لڑائی میں راع دیوتا کی مدد کی جا سکے۔

ان الجھے خیالات کے ساتھ میں روزانہ کی پرستش کے لیے مقدس کمرے کی طرف چل پڑا۔ راستے میں معبد کا جو بھی کارکن مجھے دیکھتا وہ گردن جھکا کر خاموش کھڑا ہو جاتا۔ سب امید بھری نظروں سے مجھے پرنام کر رہے تھے۔ ماسوائے ابیت، جو میرے بعد تامرا کا سب سے بڑا پروہت تھا۔ ہم دونوں نے ایک جیسے مضامین پڑھے تھے۔ میرے برعکس اس نے ریاضی اور فلکیات کے باریک نکات کو سمجھنے کے لیے زیادہ جدوجہد نہیں کی۔ وہ امور مملکت میں زیادہ دلچسپی لیتا۔ وہ فرعون کا بھانجا تھا۔ بہن کی اولاد کا تامری قوانین اور رسم و رواج کے مطابق حق فائق ہے جس وجہ سے معبد کی درجہ بندی میں سب سے بڑے عہدے پر اس نے ہی فائز ہونا تھا، لیکن اس کے ماموں نے قابلیت جانچتے ہوئے اس عہدہ پر مجھے مقرر کرکے روایت کو توڑ دیا۔

اس کے انگ انگ سے نفرت اور غصے کا اظہار ہو رہا تھا۔

"مقدس پروہت، راع کب چہرہ دکھائے گا؟

تمہارا علم و منتر دکھی لوگوں کو صرف حوصلہ ہی دیں گے یا ان کی مدد کا کوئی چارہ کریں گے؟"

اس کے الفاظ زہر آلودہ تھے۔ تامرا پر پڑی اس آفت سے فائدہ اٹھا کروہ مجھے نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اعلیٰ پجاری کی خلعت پہننے کے لیے میں نے کتنی سخت جدوجہد کی ہے۔ باریک سفید کتان، کندھے پر ریشمی سیش، چمڑے کے سینڈل اور زمرد سے سجے فیروزی ہار پہننا آسان کام نہیں۔

میں معبد کے متبرک ہال میں داخل ہوا۔ وہ عظیم ہال جو سولہ قطاروں میں کھڑے ایک سو چونتیس ستونوں سے مزین دنیا کی سب سے بڑی متبرک جگہ ہے۔ جس کی کوبالٹ سے رنگی نیلی چھت پر ستارے دمکتے ہیں۔ وہ تمام نیک لوگ جن کا حساب کتاب صحیح ہو موت کے بعد انہیں ستاروں میں شامل ہو کر اس چھت کی زینت بنتے ہیں۔ یہ دنیا بڑھتی جائے گی لیکن رہتی دنیا تک اس سے بڑی عبادت گاہ وجود میں نہیں آ سکے گی۔

لیکٹر پروہت (سب سے بڑا پروہت) کے طور پر، میرا حتمی مقصد منتروں اور رسومات کے ذریعے کائنات میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے۔ صرف ایسا کرنے سے ہی افراتفری سے بچت ہو سکتی ہے۔

مجھے دیوتاؤں کی اولاد فوق البشر فرعون کے لیے بھی لامتناہی عقیدت پیش کرنی ہے۔ معبد کے اندر کی سیاست کی موجودگی میں یہ سارے کام سنبھالنا، پریشان حال عوام کو مطمئن کرنا اور ملک میں پھیلی بدامنی کی لہروں کا مقابلہ کرنا، اس وقت بہت مشکل ہے۔

میں ہال کے اندر موجود مقدس تالاب کی طرف بڑھ رہا تھا تو معبد کی پالتو بلی ندجِم نازک چال چلتی میرے پاس آ گئی۔ اس کے گلے میں معبد کا ہیرے جڑا متبرک مخملی کپڑے کا رومال لہرا رہا تھا۔ تالاب سے پانی لے کر میں نے سامنے استادہ اَسَت دیوی کے پاؤں دھوئے تو وہ اپنی زبان سے میرے ہاتھوں کو سہلانے لگی۔ دیوی کے سامنے پڑے سنہری تھال سے تبرکات لے کر منزہ و مبرا ندجِم کو کھلائے اور بازوؤں میں اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔

اَسَت دیوی بہت چالاک تھی۔ اس نے راع کا اصل نام جاننے کے لیے دھوکے سے سانپ سے ڈسوایا تھا۔

اس کا دل دس لاکھ انسانوں سے بھی زیادہ عیار تھا وہ دس لاکھ دیوتاؤں سے افضل تھی۔ مر جانے والے دس لاکھ معزز لوگوں سے زیادہ ذہین اور صاحب بصیرت تھی۔ لیکن اسے راع کے اصل نام کا (اسم اعظم کا) پتا نہیں تھا۔ اس کی ماں نے اصل نام چھپا کر اسے ہمیشہ راع کہہ کر پکارا تھا کہ کوئی اس پر جادو نہ کرسکے۔

صدیوں پہلے مقدس دیوتا راع انسان کی شکل میں تامرا پر حکمران تھا۔ وہ بہت بوڑھا ہوگیا تو اس کا منہ کانپنے لگا۔ بولتا تو اس کا تھوک منہ سے بہہ کر زمین پر گر جاتا۔ اَسَت نے اس تھوک کو مٹی سے ملا کر گوندھ لیا۔ اس مٹی سے ایک سانپ بنا کر راع کے راستے میں چھوڑ دیا جس نے راع کو ڈس لیا۔ اس زہر کا علاج کسی کے پاس نہیں تھا۔ کئی دن تک راع تکلیف سے بلبلاتا رہا۔ زہر آتشیں بھٹی کی طرح اس کی رگوں میں پھنک رہا تھا۔ وہ دن رات تحت الثریٰ میں بھٹکتا رہا۔ یہی دن تھے جب پورے مصر پر اندھیرا چھایا رہا۔ اَسَت کے پاس ہر زہر کا علاج تھا۔ اس کا منہ تنفس حیات سے معمور تھا۔ وہ درد دور کرنے کے منتر جانتی تھی۔ اَسَت نے منتر پڑھنے کے لیے راع کا اصل نام پوچھ لیا۔

"جب تک تم مجھے اسم اعظم نہیں بتاتے تو اس زہر کا علاج نہیں ہوگا"۔

راع نے اپنی تکلیف رفع کرنے کے لیے اسے اسم اعظم بتا دیا۔ راع تو ٹھیک ہوگیا لیکن اب وہ اَسَت کے جادو سے مات کھا جاتا ہے۔ وہ جب چاہے اس کے نام پر منتر پھونک کر اسے اپنے پاؤں میں گرا لیتی ہے۔

انہی دنوں میں پورے ملک تامرا میں اندھیرا چھایا رہتا ہے۔

کچھ سال پہلے کی بات ہے، مجھے یاد ہے، میرا وفادار ملازم ہیری ہیپ اسی رفیع الشان معبد کے باہر لوگوں کے سامنے کھڑا انہیں حوصلہ دے رہا تھا کہ کائنات پر جو اندھیرا چھایا ہے جلد ختم ہو جائے گا۔ شمال سے ابھرتے جس ناگ نے ایک عفریت بن کر سورج کو ڈس لیا ہے وہ مر جائے گا اور دیوتا جلد واپس لوٹ آئے گا۔

میں نے اس وقت معبد کے جوان پروہتوں کو کشتیوں میں بٹھا کر نیل خدا کی موجوں کے ساتھ شمال کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ پاپائرس کے سبزہ سے ہوتے ہوئے سمندری خدا وج ور، (بحیرہ روم) کے پاس پہنچ گئے۔ خدا نے انہیں اپنی آغوش میں لے کر پوری دنیا کی سیر کروائی۔ واپس آ کر انہوں نے بتایا کہ وج ور، دیوتا تامرا سے ناراض ہوگیا تھا اور اپنے دامن میں موجود ایک زمینی پہاڑ کو حکم دیا تھا کہ وہ آگ اگلنا شروع کر دے۔ اس جزیرے سے اڑتی راکھ پورے تامرا پر چھا گئی اور کئی دن تک ڈرتے ہوئے راع دیوتا تحت الثریٰ سے باہر نہ آیا۔

میری قسمت فرعون کے ساتھ جڑی ہے اور اس کی قسمت اس زمین کے لوگوں کے ساتھ۔ جب میں پروہت کے طور پر ٹریننگ حاصل کر رہا تھا۔ میں نے اختر شناسی، مملکت کا نظام اور حساب کتاب سیکھا۔ کئی سال تک ستاروں اور دیگر فلکیاتی اجسام کی پیشرفت کا چارٹ پڑھنے اور پیپرس پر قلم روشنائی سے رقم ہزاروں مذہبی تصنیفات کا جائزہ لینے کے بعد میں ایسے مظاہر کو اچھی طرح سمجھ چکا ہوں۔ میں اپنے علم کی بنیاد پر یہ اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اگلا سورج گرہن، اس وقت ہوگا جب سورج 21 سے 41 ڈگری کے درمیان ہوگا: کل دوپہر کے بعد۔ توہین مذہب کے الزام سے ڈرتے ہوئے میں خاموش تھا لیکن میں جانتا تھا کہ یہ دیوتاؤں کی لڑائی نہیں ستاروں کی چال ہے۔

اس سورج گرہن کے خیال سے خوفزدہ ہونے کے بجائے میں پرجوش تھا۔ اس غیر یقینی وقت میں، ایسی چیزوں کو عام طور پر برا شگون سمجھا جاتا ہے اور خوف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پچھلے سورج گرہن کے کچھ ہی دیر بعد، مکھیوں کی وبا نے پورے تامرا کو گھیر لیا۔ وہ مویشیوں کی کھال کھا گئیں۔ ہر طرف بیمار اور مردہ جانوروں کی بدبو پھیل گئی۔ پورے ملک میں خوراک کی قلت پیدا ہوگئی۔ متعدد پروہتوں کے منتروں کے باوجود، مکھیوں کا عذاب کم نہ ہوا۔ وہ مصیبت ابھی ٹلی نہیں تھی کہ پچھلے دو سالوں سے قحط نے ہماری فصلوں کا گلا گھونٹ دیا۔ اس دوران نیل کا سالانہ سیلاب بھی رکا رہا جس سے نہروں میں پانی بہہ کر کھیتوں میں پہنچ کر ہماری زمین کو زرخیز مٹی سے بھر دیتا تھا۔

راع کا بیٹا آمن حو تپ، فرعون بھی بیمار پڑا تھا۔ عوام اس کے دیدار سے کئی ماہ سے محروم تھے۔

متبرک ندجِم کو ساتھ لے کر میں معبد کے اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچ گیا۔ کمرے کے سامنے اپنی سینڈل اتار کر دروازے کی مہر کو توڑا۔ ہیری ہیب کے فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جانے سے پہلے اس پر مٹی کی مہر لگا دے۔ یہ کام وہ پوری لگن سے انجام دیتا ہے۔ اندر بخور کی مہک چھائی ہوئی تھی۔ اس کمرے کے مرکز میں کرسی پر بیٹھی اسَت دیوی کا ایک بڑا مجسمہ شمال کی طرف دیکھ رہا ہے۔ دیوی کی اس مورتی کا تہواروں اور دیگر خاص مواقع پر تا اوپی (تھیبس شہر) کی گلیوں بازاروں میں جلوس کیا جاتا ہے۔

گرچہ مقدس ندجِم معبد کی سیاست کو نہیں سمجھتی، لیکن جب بھی ابیت کو بولتے دیکھتی ہے یا صرف وہ سامنے ہی آ جائے تو غرانے لگتی ہے۔ فرعون کے علاوہ کم لوگ ہی اعلیٰ پروہت کے اعمال پر سوال اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں اور موجودہ فرعون اس وقت اس قابل نہیں۔ اس کے بعد مجھے شبہ تھا کہ اس کا پرجوش بھانجا اور بیٹا اپنے ماموں کے تمام فیصلوں کو الٹ دے گا۔

میری بیوی فوت ہوئی تو میرے بیٹوں نے مجھے تسلی دینے کی پوری کوشش کی، لیکن یہ مقدس ندجِم تھی جس نے مجھے مایوسی سے بچایا۔ ندجِم اور ہیری ہیب، اب اس معبد میں میرے دو ہی ساتھی تھے۔

"آہ، ندجِم میری پیاری، کاش تم مجھے ابھی مشورہ دے سکتیں"۔

مقدس ندجِم میری زبان سمجھتی ہے۔ وہ اپنی دم سے مجھے سہلانے لگتی ہے اور منہ میرے سینے میں دل کے مقام پر رکھ دیتی ہے۔

گرچہ بلیوں کو تامرا میں بہت متبرک سمجھا جا تا ہے، لیکن پروہت اعظم کا اس سے مشورہ کرنا ممکنہ طور پر اچھا فعل نہیں مانا جائے گا۔ وہ اپنے ہونٹوں کو بے دلی سے چاٹتی ہوئی میری گود سے اتر جاتی ہے اور است دیوی کے پاؤں میں بیٹھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

مقدس تالاب کے پانی سے بھرا کٹورا دیوی کی کرسی کی پاس پڑا تھا۔ دیوی کی پچھلے دن کی سجاوٹ اتار کر اسے صاف کرنا اور نیا لباس پہنا کر نیا میک آپ کرنے کی رسومات صرف لیکٹر پروہت ادا کر سکتا ہے۔ سارے کام کرنے کے بعد مجسمے کو کھانا پیش کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پتھر کا مجسمہ کبھی کچھ نہیں کھاتا۔ یہ محض علامتی اشارے ہیں اور یہی میرا مسئلہ ہے۔

میں تامرا کا وہ شخص ہوں جس کا دیوتاؤں پر ایمان بلا شک و شبہ پختہ ہونا چاہیے لیکن میں نے ہمیشہ دیو کھتا اور اسطور پر یقین کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ ماورائے عقل باتوں کو سمجھنے میں مجھے ہمیشہ مشکل پیش آئی ہے۔

دیوی کی رسم کے بعد، میں اپنے آپ کو مکمل طور پر ندجِم کے لیے وقف کر دیتا ہوں۔ اس کی ٹھوڑی کے نیچے گدگدی کی اور اس کا کان مروڑ کر اس کو کچھ راز کی باتیں سنائیں۔ شاید میں اس سے پیار کرتا ہوں کیونکہ وہ واحد ذی روح ہے جو مجھے دھوکہ نہیں دے سکتی۔ اپنے بیٹوں کے ساتھ بات چیت اور عظیم اساطیر و پیپرس کی پڑھائی میں مجھے محتاط رہنا پڑتا ہے۔ وہ بھی اس معبد میں واب (چھوٹے پجاری) ہیں۔ وہ اس وقت بھی مستقبل کو جاننے کے لیے معبد کے باہر آسمان کو دیکھ کر ان میں سے دیوتاؤں کی نشانیاں ڈھونڈ رہے ہیں۔

میں مقدس ندجِم کو ساتھ لے کر لائبریری میں جا کر پیپرس اور کتاب الاموات کو کھنگالنا شروع کر دیا۔ راع، است اور بد انتظامی کے ناگ اپوپس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتا ہوا سوچنا شروع کر دیتا ہوں۔ بچپن سے لے کر اب تک کی میری تربیت، میرا علم، میرے کردار کی پختگی، میری تپسیا جس کی وجہ سے میں تامرا کے اس سب سے اعلیٰ مقام پر پہنچا کیا صرف اس لیے تھی کہ کچھ حاسد اس مشکل وقت میں میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لیں؟ دیو بھاشا سمجھنے کے بعد اب میں ان دیوتاؤں کے قریب پہنچا ہوں اور مجھے ان کے بارے میں مکمل جانکاری ملی ہے۔ اب حاسدین مجھ سے میرا سب کچھ چھیننا چاہتے ہیں۔

اگر آ من حو تپ، کی روح جسم سے نکل جائے اور اس کا بیٹا فرعون بن گیا تو مجھے یہ مسند چھوڑنا پڑ سکتی ہے۔

میں ایسی ذلت کی زندگی یا موت نہیں چاہتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ میں اپنے علم کو استعمال کرتے ہوئے حاسدوں کو شکست دوں۔

میں ندجم کو آہستہ سے اٹھا کر کمرے سے باہر آ گیا۔

سامنے ہی ہیری ہیب کھڑا تھا۔

"آقا آپ کو فوراً ابیت کو ملنا چاہیے۔ فرعون کا بیٹا اور وہ معبد کے مرکزی ہال میں موجود ہیں"۔

"رات کے اس پہر میں وہ معبد میں کیا کر رہے ہیں؟"

فرعون کا بیٹا درشن والے تخت پر براجمان تھا۔ دائیں طرف ابیت اور بائیں طرف معبد کی خادم، دیوتاؤں کے بادشاہ خالق دیوتا آمون دیوتا کی دو روحانی بیویاں کھڑی تھیں۔ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ یہ دونوں آمون دیوتا کی امانت کی خائن تھیں اور خطرناک حد تک ابیت سے منسلک تھیں۔ میں تخت کے پاس جا کر کورنش بجا لایا۔ وہ تناؤ کا شکار دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے سر جھکاتے دیکھ کر اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ انگوٹھی کو چومنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے، متکبرانہ لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔

"باہر کا ہجوم مخالف ہو رہا ہے۔ اس کے بارے میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اے لیکٹر پروہت؟"

"میرے آقا! مجھے لگتا ہے کہ لوگ یقین دہانی چاہتے ہیں"۔

"ہممم"۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دباتے ہوئے بولنے لگا۔ "فرعون نے آپ کو نوازا ہے۔ آپ کو فلکیات کا ماہر اور اعلیٰ کاہن بنایا ہے"۔

"یقیناً"۔ میں نے اپنا گلا صاف کیا۔

بیٹا خاموش ہوگیا۔ وہ جانتا تھا کہ لوگ بھوک اور گرمی کی شدت کی وجہ سے اہرام بنانے کا کام بند کر چکے ہیں۔ فرعون بیمار ہے اگر وہ مر گیا تو اس کی رسومات پوری ہونے تک اہرام تیار نہیں ہوگا اور یہ نئی حکومت کے لیے بد شگونی ہوگی۔

ابیت غصے سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

"میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ اہرام کی تیاریوں میں کتنے مصروف ہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ ایمان برقرار رکھنے کا وقت ہے"۔

میں اپنے حوصلے اور یقین کی طاقت سے حیران تھا۔

بیٹا تو کچھ مطمئن تھا، ابیت کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

"تم دیوتاؤں کی عبادت کی بجائے لائبریری میں اپنے زائچے اور چارٹ جانچنے میں زیادہ مصروف رہتے ہو"، زائچہ بولتے ہوئے اس کی آواز میں طنز زیادہ گہرا ہوگیا تھا۔

"ہاں، واقعی"۔

"مجھے تم سے بات کرنی ہے"۔

اس کا لہجہ متکبرانہ تھا۔ دانت صاف کرنے والے نیل کے نمک کی ناخوشگوار ہمک اس کے منہ سے نکل کر مجھ تک پہنچ رہی تھی۔

"ایسی باتوں کے لیے یہ مناسب وقت نہیں"۔

"میں نے تمہاری بلی راہداری میں کچھ کھاتے ہوئے دیکھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم نے اسے دیوتاؤں کا کھانا نہیں کھلایا ہوگا۔ موجودہ حالات میں یہ بہت بڑی بے وقوفی ہوگی"۔

"تم غلط بات کر رہے ہو۔ است دیوی نے اسے ندجم کا نام دیا ہے: بہت پیاری، خوش بخت۔ اس کے ساتھ تمہارا رویہ نامناسب ہے۔ وہ اچھی قسمت لاتی ہے"۔

"یہ پرامن وقت میں درست ہو سکتا ہے، لیکن وہ کبھی دیوی است سے اوپر نہیں جا سکتی۔ وسائل کی کمی پر انہیں قربان کیا جا سکتا ہے۔ جذبات ہمیں صحیح کام کرنے سے نہیں روک سکتے"۔

دانت پیستے ہوا اپنا منہ فرعون کے بیٹے کی طرف کر لیا۔

اس کے خیالات سے خطرہ جھلکتا تھا۔ مجھے ندجم کی فکر تھی۔

میں نے اس کی بجائے فرعون کے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

"میرے آقا، لوگ مشکل میں ہیں۔ حکومتی ذخائر سے انہیں خوراک مہیا کرنی چاہیے۔ یہ مسئلہ جلد ختم ہو جائے گا"۔

لیکٹر پروہت! شاہی خزانہ اور ذخیرہ کب اور کیسے استعمال ہونا چاہیے؟ یہ تمہارا مسئلہ نہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ تم اپنا کام توجہ سے کرو گے"۔

میں آج رات کی تپسیا کے بعد مزید تحقیق کرکے آپ کو مطلع کروں گا کہ راع اور اپوپس کی اس لڑائی کا کیا انجام ہوگا؟ مجھے امید ہے راع کی فتح ہوگی"۔

اس کے چہرے پر رونق آ گئی۔

"لیکن!"

فرعون کا بیٹا پھر پریشان ہوگیا۔

"لیکن کیا؟"

"میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مزید تحقیق کرنا پڑے گی"۔ میں انہیں ابھی بتانا نہیں چاہتا تھا۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر ساتھ والی میز سے ایک کھدی ہوئی چھڑی ہاتھ میں پکڑی اور تخت سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ چھڑی اس کے والد کی تھی۔

"میں مرکزی ہال میں است دیوی کی عبادت کے لیے جا رہا ہوں۔ تمہیں آج صبح باہر عوام کو مطمئن کرنا ہے اگر تمہاری تقریر انہیں پرسکون کرنے میں ناکام رہی تو میں تم کو ذمہ دار ٹھہراؤں گا"۔

" کوشش کروں گا، میرے آقا"۔

"ہمیں تم سے یہی امید ہے لیکن یاد رہے۔ میرے والد کہتے تھے کہ زوال سے پہلے عروج آتا ہے۔ کچھ اور بھی ہیں جو خوشی سے تمہاری جگہ لے لیں گے"۔

مجھے ندجم کی فکر تھی۔ است دیوی کی عبادت اور رات کے اس وقت؟ کہیں اس کی بلَی نہ چڑھا دی جائے"۔

میں باقی رات کتاب الموت کی لمبی دستاویز میں کھویا اور سورج دیوتا، چاند اور دیگر ستاروں کے چارٹ پڑھتا رہا۔ صبح ہونے سے پہلے ہی میں عوام کے بیچ اونچے پتھریلے چبوترے پر کھڑا تھا۔

"لوگو سنو!

راع دیوتا آج صبح تخت الثریٰ سے باہر ضرور آئے گا۔ آج وہ یہ لڑائی جیت جائے گا اور کچھ دیر سستانے کے بعد دوپہر کے وقت درشن دے گا"۔

لوگ چلا اٹھے۔

"صبر اور یقین کے ساتھ میری بات سنو!

ستاروں کی صف بندی کے مطابق، زمین مکمل تاریکی سے نکل آئے گی"۔

لوگوں کے چہرے روشن ہو گئے۔

"لوگو! تاریکی کی یہ لمبی رات ختم ہونے والی ہے۔

کل جب راع چہرہ دکھائے تو تم پر فرض ہے کہ اس کے سامنے جھک جاؤ۔

اور اپنا یقین قائم رکھو۔ اپوپس دیوتا آخری حملہ کرے گا اور سورج کو گرہن لگ جائے گا"۔

لوگ یہ سنتے ہی رونے لگے۔ ان کے سامنے عذابوں کی ایک داستان تھی جو انہیں ڈرا رہی تھی۔ مجھے اپنے علم پر بھروسا تھا۔

"سورج گرہن لمبا ہوگا۔ لیکن تم اپنا ایمان مضبوط رکھنا بالآخر بدانتظامی کا ناگ ہی شکست کھائے گا اور کل شام تک تامرا کی زمین پر سورج چمک اٹھے گا"۔

لوگ سنبھل رہے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب خوش بختی کا ستارہ کلب مشرق سے طلوع ہوا۔

ستاروں کے بارے میں میرا علم میرا ساتھ دے رہا تھا۔

اس کی چمک دیکھ کر لوگ اچھلنے کودنے لگے۔

"لوگو! دیکھو! خوش بختی کا وہ نشان نظر آ گیا۔ اب دریائے نیل کی طغیانی ہماری زمین کو سیراب کرے گی۔

میں جا رہا ہوں، اس وقت دیوی است کی پوجا ضروری ہے"۔

معبد میں داخل ہوا تو ہیری ہیب دوڑتا ہوا میرے پاس آیا۔

"آقا! ندجم"۔

"کہاں ہے؟"

"ابیت اسے قربان گاہ کی طرف لے گیا ہے"۔

قربان گاہ میں ابیت ندجم کو دونوں ہاتھوں میں اٹھائے اشلوک پڑھ رہا تھا۔

"ابیت ندجم کوئی عام بلی نہیں، یہ دیوی است کا ہی روپ ہے۔ تم اسے قربان نہیں کر سکو گے"۔

یہ سن کر وہ پریشان ہوگیا۔ ندجم غرانے لگی۔ اس کے ہاتھوں کے گرفت کمزور پڑ گئی۔ مقدس بلی نے پنجے مار کر خود کو آزاد کروایا اور میرے پاس پہنچ گئی۔

ابیت غصے سے چلانے لگا۔

"امن حو تپ دیوتا بن کر آسمانوں میں چلا گیا ہے۔ اہرام کے تیار ہونے تک لوگوں کو نہیں بتایا جائے گا۔ نئے فرعون نے مجھے لیکٹر پروہت نامزد کیا ہے۔

میں تمہیں فرار کا موقع دیتا ہوں۔ تم معبد سے جا سکتے ہو۔ ورنہ تم جانتے ہو فرعون کے ساتھ زندہ دفن کر دیے جاؤ گے"۔

ندجِم دم ہلاتی میری گود میں سوار ہوگئی جیسے ناں، کہہ رہی ہو۔

"میں کہیں نہیں جا رہا"۔

یہ کہہ کر میں لائبریری کی طرف چل پڑا۔

"مجھے اپنے آقا کا ساتھ دینا ہے، اگلی دنیا میں بھی"۔

لائبریری پہنچ کر قلم روشنائی لے کر پائپرس پر لکھنا شروع کیا۔ میں اس کہانی کو مکمل کرنا چاہتا تھا۔

کتاب الموت کا نیا باب:

"لوگو! جان لو! دیوتاؤں کی کتھائیں، خداؤں کے یہ اسطورے ستاروں کی چال ہیں اور کچھ نہیں۔ ستارے جو اپنے مدار پر چلنے کو مجبور ہیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھو"۔