1. ہوم
  2. افسانہ
  3. سید محمد زاہد
  4. ماں کا دھرم

ماں کا دھرم

ماں نے مرتے وقت اسے مشکل میں ڈال دیا۔ وہ ایسے رسم و رواج سے واقف نہیں تھی۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی ماں کی آخری خواہش پورا کرنا تھی۔ انڈیا کا ویزہ لگوانا تقریباً ناممکن تھا۔ ایک ہی طریقہ تھا کہ کسی ایسی کانفرنس میں شرکت کی جائے جو راجستھان میں ہو رہی ہو۔ کئی سال کے انتظار کے بعد دعوت نامہ مل گیا۔ اگلا مرحلہ جیسلمیر کے اس دور دراز گاؤں شاہ گڑھ تک جانا تھا۔ ماں جانتی تھی کہ صرف وہ ہی وہاں جا سکتی تھی سو اس کی امید پر پوری اتری اور کانفرنس کے چیف آرگنائزر کی ذاتی کوشش سے گاؤں پہنچ گئی۔ اس نے ڈاکٹر وکرم کو نیہا کے ساتھ بھیج دیا۔

وکرم اسی گاؤں کا تھا۔ ڈاکٹر نیہا نے اپنا مدعا بیان کیا تو وکرم کہنے لگا۔

"کیا تم آدریشے چیزوں پر وشواس کرتی ہو؟"

"کوئی خاص نہیں"۔

"لیکن تم جہاں جا رہی ہو وہاں تمہارے وچار بدل سکتے ہیں"۔

"شاید!"

اگلی شام نیہا وہاں کھڑی تھی۔

"لوگ پیپل کے اِس پیڑ کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں۔ یہ بوڑھا پیڑ آتمائیں کھاتا ہے اور اس کی جڑیں پانی کے علاوہ اور بھی کچھ پیتی ہیں"۔

وکرم بتا رہا تھا اور گرچہ یقین نہیں تھا پھر بھی وہ پوری توجہ سے سن رہی تھی۔ کچھ تو ہوگا جو ماں نے اسے وہاں بھیجا تھا۔

"کبھی کبھی، دیر رات کو، اس کے تنے سے شہنائی کی دَھوَنی سنائی دیتی ہے، گمبھیر دکھ سے بھری جو شاید اس بھومی سے بھی پرانی ہیں جس پر پیپل کا یہ پیڑ اگا ہے"۔

وہ آگے آگے چلتا بولتا جا رہا تھا۔

"گاؤں والے اس پیڑ کو پوتر مانتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے یہ بیم و رجا کا پراتیک ہے۔ اس کے پاس مت جانا۔ رات کو اس کی ٹہنیوں پر آتمائیں بسیرا کرتی ہیں۔ بھوت پریت موت کے دیوتا یمراج کی پوجا کرتے ہیں"۔

ٹیلے پر موجود پیپل کا یہ پیڑ کسی دیوتا جیسا دکھتا تھا، بالکل بودھی ورکش، جس کے نیچے بدھا کو گیان ملا تھا۔ اس کی موٹی، بٹی ہوئی جڑیں ہوا میں لہرا رہی تھیں۔ تنا عجیب و غریب موٹی نالیوں سے بنا تھا جو اسکرپٹ کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ شاخیں بازوؤں کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ سرگوشیوں کی طرح کے نرم سبز و جامنی انجیر نیچے گر کے زمین کو رنگین کر گئے تھے۔ ٹیلے کے نیچے برساتی نالے کے ٹھہرے پانی میں بھی یہی انجیر بکھرے ہوئے تھے۔

نیہا ڈانواں ڈول تھی۔ وکرم کی باتیں سن کر دل کانپ اٹھا۔ گرمی کے باوجود اس نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک محسوس کی۔

اسے عبادت گزار ماں کی بات حوصلہ دے رہی تھی۔

***

وہ ماں کی پہلی اولاد تھی۔ اس نے کبھی ماں کو چارپائی پر لیٹے نہیں دیکھا۔ زندگی بھر ماں مصلے پر ہی سوئی تھی۔ عشاء کی نماز پڑھ کر ادھر ہی لیٹ جاتی۔ وہ رات کو ڈر جاتی تو کچھ دیر اس کے ساتھ لیٹ کر سہلاتی۔ ہمیشہ کہتی کہ عورت کو بہت بہادر ہونا چاہیے۔ اگر اس کا ایمان پکا ہو تو دنیا کی کوئی طاقت عورت کو نہیں جھکا سکتی۔ ان دیکھی بلائیں صرف اندر کا خوف ہے۔ جو ہے، سامنے ہی ہے۔ وہ سو جاتی تو پھر مصلے پر چلی جاتی۔ چھوٹے بہن بھائی تو اس کے پاس ہی پلے۔ ماں ان کو گود میں لیتی اور سلانے کے بعد اس کے بستر پر منتقل کر دیتی۔

***

شام کا سورج ڈھل رہا تھا۔ وہ دکھی تھی، کچھ خوف زدہ بھی۔ دشمن ملک کے اس دور دراز سرحدی گاؤں میں اکیلی۔ کبھی کبھی غم انسان کو بہادری اور سرکشی پر ابھار دیتا ہے۔

وہ درخت کے ساتھ شام گزارنا چاہتی تھی سو وکرم کو جانے کا کہہ دیا۔

آنکھیں بند کرکے خاموشی سے پیڑ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔

ہواؤں نے کب رخ بدلا، اسے کچھ پتا نہ چلا۔

چاروں طرف ناتراشیدہ داڑھی کی طرح لٹکتی پیڑ کی جڑیں ہلنے لگی تھیں یا اس کا وہم تھا؟

یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی؟

دھیمی دھیمی گنگناہٹ کیسی تھی؟ کیا کوئی ان دیکھی، ان سنی آواز اسے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ اس کے پاؤں زمین کے ساتھ چپک گئے۔

"مانی!"

وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹ گئی۔ "وہاں کون ہے جس نے اس کی ماں کا نام پکارا تھا؟"

درخت ساکت ہوگیا۔ ایک کچا ہرا پھل زمین پر گر کر دور تک لڑھکتا چلا گیا۔

پھر ایک خوشبو آئی، چینی میں بھنی ہوئی املی جیسی، ماں کے باورچی خانے کی خوشبو۔

وہ آنکھیں جھپکتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

ہوا میں لہر دوڑ گئی۔

سامنے ماں کھڑی تھی۔

پھر وہ غائب ہوگئی۔

ادھر ادھر ڈھونڈا تو دور ویرانے میں اس کی جھلک دکھائی دی۔

سورج ٹیلے سے نیچے جا چکا تھا۔ ہوا تیز تھی۔ لیکن یہ ہوا نہیں تھی جس نے شام میں رنگ بھر دیا۔

یہ کوئی گیت تھا۔

ایک عورت فاصلے پر کھڑی راجستھانی زبان میں گا رہی تھی۔ یہی ماں کی بولی تھی۔ سندھی زبان سے ملتی جلتی۔ اس کی آواز دھیمی لیکن اٹوٹ تھی: مسلسل جیسے پانی کے اندر ڈبکی لگائیں تو دریا کے دھارے کی آواز آتی ہے۔

اس کے اردگرد اور بھی عورتیں تھیں: ملجگی ساڑھیوں میں ملبوس عورتیں۔ سورج کی چمک جیسی بھنوؤں والی لڑکیاں، سب ننگے پاؤں ناچ رہی تھیں۔ آنکھیں چمکدار، ماتھے روشن، گردن جھکی اور پیٹھ سیدھی۔ تال سے تال ملا کر ہاتھ میں پکڑی چھڑیوں کو ٹکرا رہی تھیں۔

وہ ان کے پاس پہنچ گئی۔

یہ زمانہ حال ہے یا ماضی کی کوئی جھلک؟

اک خواب ہے یا کوئی بھولی بسری یاد؟

گیت سریلی آواز کے دوش پر لہراتے ہوئے فضا کو سحر زدہ کر رہا تھا۔ یہ گیت ماں بھی گنگنایا کرتی تھی۔

او مھانے رمتا نے کجل ٹکی لادیا، یہ ماں او

گھومڑ رموا میں جاسیان

(میں نے کھیل کھیل میں آنکھوں میں کاجل لگا لیا ہے او ماں۔ میں نے گھومر ڈانس میں جانا ہے)

او راجڑی! گھومڑ رموا میں جاسیان او۔ (راجڑی: راج ماتا، ملکہ)

مھانے راٹھوڑا کی بولی پیاری لگے یہ ماں او۔ (راٹھوڑا، راجپوتوں کی ذات)

مھانے راٹھوڑا کی بولی پیاری لگے یہ ماں

گھومڑ رمبا میں جاسیان او۔

مھانے راٹھوڑا کی بولی ہیرا تولی یہ ماں او۔ (ہیرا تولی: ہیرے جیسی)

گھومڑ رمبا میں جاسیان او۔

مھانے راٹھوڑا کے پیچ پیارا لگے یہ ماں او۔ (پیچ: جوڑ، خاوند، شادی)

مھانے پردیشیاں مت دیجو اے ماں (پردیشیاں: پردیس)

گھومڑ رموا میں جاسیان او راجری

مھانے راٹھوڑا کے گھر بھل دیجو یہ ماں او۔ (بھل دیجیو: بھیج دینا، بیاہ دینا)

مھانے راٹھوڑا کے گھر بھل دیجو یہ ماں

گھومڑ رمبا میں جاسیان۔

پورا گانا ماں نہیں گاتی تھی۔ شروع کے چند بول گا کر گنگنانے لگتی۔ آج اس گنگناہٹ کو الفاظ ملے تو پتا چلا کہ ماں کی آواز میں اتنا دکھ کیوں تھا۔

اسے دیکھ کر گلوکارہ خاموش ہوگئی۔

وہ ماں جیسی لگ رہی تھی۔ گال کی اونچی ہڈیاں۔ آدھے منہ پر نقاب، ماں کی طرح دوپٹے کا کونا دانتوں میں دبائے۔ کیا یہ ماں کے دیش کا رواج تھا؟ اس نے گھر میں ماں کو ہمیشہ آدھے گھونگھٹ میں دیکھا تھا۔ کیا یہاں کی عورتیں عورتوں سے بھی منہ چھپاتی ہیں؟

اور خاوند سے بھی!

یہ بھید اس دن بجھارت میں بدل گیا۔

ست پتر تے ستاراں دھیاں

میں خاوند نہ ویکھیا اکھیں

نی میں لج پیکیاں دی رکھی

اس رات وہ سو نہیں سکی۔ درخت ساری رات کانوں میں سرگوشیاں کرتا رہا۔ ماں نے ساری رات اسے جگائے رکھا۔ آنکھ لگتی تو برساتی نالے میں کھڑے دیکھتی۔ وہ ماں ہی تھی لیکن سات آٹھ سال کی، ننگے پاؤں، اندھیرے میں جلتا دیا ہاتھ میں اٹھائے کھڑی پراتھنا کر رہی تھی۔ پھر ماں نے وہ دیا پانی میں بہا دیا۔ چڑھتے سورج کی روشنی نے ماں کے ماتھے کو روشن کیا تو وہ گانے لگی۔

گھومڑ رمبا میں جاسیان۔۔

ساتھ ہی بودھی ورکش جھومنے لگتا۔

صبح مندر کی گھنٹیوں کی گونج نے اسے حوصلہ دیا۔ وہ ابھی واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ ویزہ ایک ہفتہ کا تھا۔ سارا وقت ادھر ہی گزارنا تھا۔ لوگ بہت پیارے تھے۔ معصوم سی اپنائیت تھی ان سب میں۔ روزانہ صبح اسے مندر لے جاتے۔ ان کے ساتھ مل کر دیوتاؤں کو سجاتی، ان کا میک آپ کرتی۔ مندر کی سیڑھیاں بھی دھوئیں۔ بزرگوں سے پرانی کہانیاں سنیں۔ قربت بڑھتی گئی۔ مندر کا بوڑھا پجاری اسے بہت پیار کرتا تھا۔

آخری دن پیپل کی چھاؤں میں گزارا۔ شام کو پجاری اس کے پاس چلا آیا۔ نیہا نے ماں کی کانسی کی گڑوی اپنے بیگ سے نکالی۔ مٹھی بھر چاول، ایک دیا اور کافور بھی ساتھ لائی تھی وہ سب پیڑ کے پاس رکھ دیا۔

دور عورتیں گا رہی تھیں۔

گھومڑ رمبا میں جاسیان، یہ ماں او

مھانے راٹھوڑا کے پیچ پیارا لگے یہ ماں او۔

مھانے پردیشیاں مت دیجو اے ماں

گھومڑ رموا میں جاسیان او راجڑی

آنکھیں بند کرکے درخت کے سامنے بیٹھ گئی۔ ہوائیں چل پڑی تھیں۔ بوڑھے پیپل کی داڑھی، پتے اور ٹہنیاں آپس میں ٹکرا کر گیت میں موسیقیت گھول رہی تھیں۔ آتمائیں پیڑ کے ساتھ جھوم اٹھیں۔ موت کا دیوتا یمراج انہیں دیکھ رہا تھا۔ پجاری زیر لب اشلوک پڑھنے لگا۔

"مانی!"

درخت سے کسی نے ماں کا نام پکارا۔

کون تھا؟

اس نے آنکھیں بند ہی رکھیں۔ وہ سب جان چکی تھی۔

یہ نام پکارنے والی آواز اس دھرتی جیسی نرم تھی اور ماں کے غم کی طرح سلگتی ہوئی۔

ہاتھ سینے پر رکھ کر زمیں پر جھک گئی۔ اشلوک فضا میں گونج اٹھے۔ درخت کے پاس گھٹنوں کے بل گرتے ہوئے وہ ہانپ اٹھی۔ جسم پسینے میں بھیگ کر لرزنے لگا۔

کافور کی خوشبو ہر طرف پھیل چکی تھی۔

پجاری خاموش ہوا۔ تو آنکھیں کھولیں۔ وہ حیران و پریشان اسے دیکھ رہا تھا۔ پیپل کے جامنی پھل گر کر گڑوی سے ٹکرائے اور لڑھکتے ہوئے ٹیلے سے نیچے ٹھہرے پانی پر تیرنے لگے۔

کانسی کی گڑوی اٹھا کر پجاری کے پاس لائی۔

آنسو اس کی پلکوں سے گرنے کو تیار تھے۔

"ماں ہمیں معاف کر دینا۔

ماں میرے بزرگوں کی غلطیاں بھی معاف کر دینا"۔

پجاری حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا، "اس کلش میں کیا ہے؟"

اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ درخت کے پاس پڑا دیا جلا کر پیپل کے سوکھے پتے اکٹھے کرنے لگی۔ پجاری پریشان ہوگیا۔ کلش سے دوپٹے کے ٹکڑے میں لپٹے ماں کے بال اور ناخن کے کٹے ہوئے کنارے نکالے: سوکھے پتوں کے ڈھیر پر رکھ کر دیے سے آگ لگا دی۔

"پنڈت جی! میری ماں کا کریا کرم کریں"۔

پجاری خاموش کھڑا رہا۔ اس کی طرف مڑی، ملتجانہ نظر پجاری پر ڈال کر اس کے پاؤں چھوئے اور دکھ بھرے لہجے میں بولی۔

"ماں اس گاؤں کی تھی۔ آٹھ سال کی عمر میں باپو کے ساتھ لال شہباز قلندر حاضری دینے گئی تو ملک تقسیم ہوگیا۔ باپو قتل ہوگیا اور وہ وہیں رہ گئی۔ زندگی بھر خاوند کی پوجا کی اور اپنے دھرم کا پالن بھی"۔

خاموش بیٹھے پجاری کی زبان یوں چلنا شروع ہوئی جیسے پیپل کے تنے پر لکھا اسکرپٹ پڑھ رہا ہو۔