وہ بڑی مشکل سے بیڈ سے وہیل چئیر پر منتقل ہوا۔ کھڑکی کے پاس آ کر پردہ ہٹایا اور مشرق کی طرف دیکھنے لگا۔ کھانسی مسلسل جاری تھی۔ ایک بجھی ہوئی نگاہ رات کی تیرگی پر ڈالی۔ دروازے سے باہر مہتاب ایسی تیز چاندنی بکھیر رہا تھا کہ آسمان ایک سیال مادہ لگتا تھا۔
طویل رات بیت گئی یا یہ صبح کاذب تھی؟
کافی دیر کھڑکی کے پار جھانکتا رہا۔ افقِ مشرق پر ایک سیلابِ رنگ نمودار ہو رہا تھا۔ ایک طویل سرمئی لکیر موجِ آب کی مانند افق کو گھیرے ہوئے تھی۔ اُس کے اوپر کا آسمان طرح طرح کی رنگینیوں کے ملاپ سے لاجوردی ہو رہا تھا۔ تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ یہی رنگ دار تہیں آہستہ آہستہ اوپر بڑھنے لگیں اور ان کی جگہ ایک سنہری لکیر پیدا ہوگئی۔ افق مسندِ زرتار میں ڈھل گیا اور آہستہ آہستہ اداس سحر کے بطن سے خون رنگ کرنوں سے آراستہ سورج کا کنارہ ہویدا ہوگیا۔
چڑھتے سورج کی شعاع ریزی میں درختوں کے کپکپاتے آہن رنگ سائے شبنمی سبزہ فرش پر سجدہ ریز تھے۔ عمارتوں کے ماتھے پر خوف کی سرخ لکیریں واضح ہو رہی تھیں۔
یہ صبح اس کی زندگی کی شام تھی۔
یہ صبح دیکھ کر ایک سوگوار مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔ موت کا خیال اس کے دل و دماغ پر چھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی دماغ کی سلگن اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک وہ خود ختم نہ ہو جائے۔
وہ زندگی کا جوا توڑ ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ بندھنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے آزاد ہو جانا چاہتا تھا۔
اسے آنکھوں کے سامنے اپنی لاش نظر آ رہی تھی۔ ہاتھ بے اختیار جسم کو سہلانے لگے۔ شاید اِس لمحہ وہ اُس سادہ لیکن دردناک خیال کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا جو دماغ میں بجلی کی طرح کوندا تھا کہ یہ ڈھانچہ جو انسان تمام عمر اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے، سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے، یہی انسان کے لیے کبھی ایک عفریت بن جاتا ہے۔ یہ ازلی حقیقت ہے کہ زندگی کی تمام عمارت قبر کی ایک جاندار علامت ہے۔
زندہ رہنے، دنیا کو ایک بار پھر دیکھ لینے اور ہر شے کو ازسر نو شروع کرنے کی چاہت نے دفعتاً اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ موت کے روبرو زندگی کی یہ سرکشی اس اعتراف کے مترادف تھی کہ جینے کی خواہش ابھی بھی موجود تھا۔ سوچ رہا تھا کاش بدھ مت کا آواگون کا نظریہ سچ ہوتا اور وہ پھر لوٹ کے آ جاتا۔
سکندر ایک بہترین استاد تھا۔ اس نے ساری زندگی سکول میں ہی گزاری۔ ماسوائے ان چند سالوں کے جب وہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ ہمیشہ سکول کھلنے سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ جاتا۔ وہ کمزور بچے جو باقی کلاس کے ساتھ چلنے میں دشواری محسوس کرتے، انہیں اضافی وقت دیتا۔ صبح پیدل چلتے ہوئے سکول پہنچنا اسے بھلا لگتا۔ خصوصی طور پر سردیوں کی ٹھنڈی صبح اسے بہت بھاتی۔ طلوع آفتاب کا نظارہ غروب کی نسبت زیادہ اچھا لگتا تھا۔ اسے زندگی سے بھرپور روشن دن اتنا پسند تھا کہ اس کا بس چلتا تو آسمان پر جا کر ڈھلتے سورج کو تھام لیتا۔
دنیا کی سب زینتیں اور دل کی سب رونقیں ویران ہوگئیں جب پتا چلا کہ اسے پھیپھڑوں کا کینسر ہے۔ سب کام چھوڑ کر اپنے علاج پر توجہ دینا پڑی۔ کئی سالوں کی کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی کے باوجود کینسر پھیلتا جا رہا تھا۔ قوت مدافعت کی ناکامی کے بعد وہ نحیف و ناتواں ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر نا امید تھے۔ اب صرف مسکنِ آزار ادویات دی جا رہی تھیں۔
بات کرنا بہت مشکل تھا۔ بولنے کے دوران کھانسی شروع ہو جاتی۔ سانس یوں اکھڑتا جیسے یک دم کے ٹو کی چڑھائی چڑھ گیا ہو۔ چند الفاظ بولنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی۔
آخرت کی زندگی پر وہ ایمان نہیں رکھتا تھا۔ کیا عجیب منطق ہے، روح کو تکلیفیں برداشت کرنے دو۔ جسم سے الگ ہونے کا پورا وقت دو۔ اسے اپنا سفر مکمل کرنے کا موقع دو تاکہ گناہ جھڑ جائیں اور سفرِ عاقبت کا بوجھ کم ہو جائے۔ وہ روح کی موجودگی کا قائل ہی نہیں تھا۔ سائنس کو ان دونوں چیزوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ زندگی میں ایک قدم چلنا مشکل ہو اور ان دیکھی و مشکوک زندگی کے لیے بندہ اذیتیں برداشت کرتا رہے؟ یہ منطق اسے سمجھ نہیں آتی تھی اس لیے اس نے خود پر رحم کھاتے ہوئے مرگِ رحمت کا چناؤ کر لیا۔
اپنے ملک میں، انتہا پسندوں کے ملک میں، جہاں لوگ انسان کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، صحت مند لوگوں کو ایذا پہنچانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے، مسکراتے، کھیلتے کمسن بچوں کو قتل کرتے ہیں انہیں یہ کیسے گوارا ہوتا کہ ایک بیمار، تکلیفوں میں الجھا بندہ اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ خود کر لے۔ مرگ رحمت کا نام لینا ہی گناہ تھا۔ یہاں کے لوگ ناحق قتل تو کرتے تھے، حقِ مرگ دینے کو تیار نہیں۔ جہاں خوشیوں کے قاتل بستے ہوں وہاں پر ُ کیف موت کا موقع کیسے مل سکتا ہے۔ یہ سوچ کر وہ بہت پہلے یورپ پہنچ گیا تھا۔ علاج میں ناکامی کے بعد ڈاکٹرز کا گروپ بیٹھا۔ کئی مہینوں کی گفت و شنید اور بحث کے بعد اسے مرگ آزادیٔ اذیت کی اجازت دے دی گئی۔
آج کا دن زندگی کا آخری دن تھا۔ وہ درد، تکلیف، سانس کی خرابی اور شدید کھانسی سے نڈھال بڑی مشکل سے ویل چیئر پر منتقل ہو کر کھڑکی کے پاس پہنچا تھا اور آسمان پر ابھرتے ہوئے سورج کا آخری نظارہ کر رہا تھا۔
بچپن یاد آ رہا تھا۔ سکول کے دن، شادی کا دن، پہلے بچے کی پیدائش کا دن جو اب آسٹریلیا کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ابھی دو ہفتہ پہلے ہی واپس گیا تھا۔ اس کی بیٹی جو فرانس میں رہتی تھی اپنے خاوند کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی۔ وہ اپنی بیوی سارا کے ساتھ گزرے ہوئے دن یاد کر رہا تھا جو اسے بیماری کی حالت میں دھوکہ دے گئی تھی۔ اسے سنبھالتے ہوئے ایک دن چکر کھا کر یوں گری کہ پھر اٹھ نہ سکی۔ وہ اسے خوش قسمت سمجھتا تھا جو تکلیف کے بغیر یہ دنیا چھوڑ گئی۔ ماں کی یاد بھی آ رہی تھی جو سالہا سال پہلے اس کی باہوں میں دم توڑ گئی تھی۔ کبھی کبھی اس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ کاش مذاہب کی دوسری زندگی کی بات سچ ہو اور وہ اپنی بیوی اور ماں سے دوبارہ مل سکے لیکن اس زندگی میں مذہب نے جو تکلیفیں دیں اس کو سامنے رکھ کے وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ مذاہب کا کوئی بھی خیال سچ ہوگا۔
دروازہ کھلا اور نائٹ شفٹ کی نرس ٹینا کمرے داخل ہوئی۔
"آپ کیسے ہیں؟"
"سارے بوجھ اتر گئے۔ اب خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں"۔
آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ وہ بڑی مشکل سے کھانسی کے دورے کے دوران اپنی بات مکمل کر رہا تھا۔ "کیا آپ کو دوبارہ بستر پر منتقل کر دوں؟ صبح ہو چکی ہے۔ اب آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟" ٹینا نے پوچھا۔
"یہ میری زندگی کی آخری صبح ہے۔ میری زندگی کا چراغ بجھ رہا ہے لیکن آسمان چمک رہا ہے۔ میں ابھی کچھ دیر تک روشن آسمان کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں"۔
"ٹھیک ہے۔ آپ کی کمی بہت محسوس ہوگی"۔
اس کی آواز میں پنہاں درد صاف محسوس ہو رہا تھا۔
"افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ موت زندگی کا چکر مکمل کرتی ہے۔ میرا جسم اب زمین میں واپس جائے گا اس میں موجود عناصر بکھر جائیں گے۔ زمین کی کوکھ انہیں نئی شکل میں ڈھالے گی۔ ایک نیا چکر شروع ہوگا۔ اصل میں یہی تناسخ ہے، یہی اگلی زندگی ہے"۔
وہ بہت آہستہ سی آواز میں موت کی حقیقت کو قبول کرتے ہوئے بولتا جا رہا تھا۔
"میں آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی میں دوبارہ پیدا ہونے کے نظریے کا حامی ہوں۔ کچھ سال پہلے میں نیپال گیا تھا۔ میں نے بدھ مت کی تعلیمات کو پڑھا جس سے مجھے زندگی اور موت کو سمجھنے میں مدد ملی۔ اگر میں دنیا میں کسی مذہب کو مانتا یا اگر میں کسی مذہب کو چنتا تو وہ بدھ مت تھا"۔
ٹینا اس کی باتیں سن کر اپنے سینے پر صلیب کا نشان بناتے ہوئے بولی" گاڈ بلس یو۔
"اگر تمہیں ضرورت پڑے تو مجھے بلا سکتے ہو"۔
سکندر نے اس کی رحم دلی اور پیار کو محسوس کیا۔ افسردہ نگاہیں سینے میں چبھ رہی تھیں۔ اس نے منہ پھیر کر کھڑکی سے باہر جھانکنا شروع کر دیا۔
نرس چلی گئی تو تھوڑی دیر بعد سائیکالوجسٹ جیمز کمرے میں داخل ہوا۔
"گڈ مارننگ سکندر! آپ کیسے ہیں؟"
"بہترین۔ ذہنی طور پر بالکل ٹھیک: جسمانی صحت ویسی ہی ہے۔ تھوڑی دیر مزید دکھ سہنا ہے پھر وہ بھی ٹھیک ہو جائے گی"۔
"آج، بس آج کا دن ہی تو۔۔ "
جیمز نے فقرہ مکمل نہیں کیا۔ سائیکالوجسٹ میں موت کے سامنے کھڑے ہو کر بولنے کی ہمت نہیں تھی۔
"ہاں ہاں! آج خوش کن موت کا دن ہے، من پسند موت، من چاہی موت"۔ جیمز اس سے آنکھیں نہیں ملا رہا تھا۔
"کچھ دیر پہلے میں موت کے بارے میں سوچ رہا تھا"۔
"کیا مطلب؟"
"میں جانتا ہوں کہ زندگی کے آخری لمحات میں انسانی اعضا آہستہ آہستہ کام چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک ایک کرکے سب مر جاتے ہیں اور بالآخر انسان بھی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے"۔
"ہاں"۔
جیمز صرف ایک لفظ ہی بول سکا۔
"میرا خیال ہے جب عام انسان قدرتی موت مرتا ہے تو ایک ایک عضو سے جان نکلنا کافی مشکل ہوتا ہوگا۔ اس کا دماغ کیسے کیسے خواب دیکھتا ہوگا؟ اس کو پرانی باتیں یاد آتی ہوں گیں۔ مرنے والا کیا محسوس کرتا ہوگا؟
لیکن جب آپ ٹیکہ لگائیں گے تو میرے تمام اعضاء یک دم کام کرنا چھوڑ دیں گے جیسے کمپیوٹر کی پاور سپلائی بند کر دیں تو یک دم بند ہو جاتا ہے"۔
جیمز نے اس کی طرف دیکھا۔
"سکندر کیا تمہیں کوئی پچھتاوا تو نہیں؟"
"آج کے فیصلے پر؟ بالکل نہیں"۔ جیمز اس کی باتیں سن کر حیران ہو رہا تھا۔ مرنے والے کی ذہنی صلاحیت بالکل ٹھیک تھی۔
"کیا تم ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم ہو؟"
"بالکل قائم ہوں لیکن اگر تم مجھے کہہ دو کہ اس بیماری کا کوئی حل کچھ دنوں میں نکل سکتا ہے تو میں فیصلہ بدل سکتا ہوں"۔
جیمز نے دکھی مسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔
"کچھ دیر کے بعد تمہارا ناشتہ آ رہا ہے اس کے بعد تم موت کے کمرے کی طرف جانے کے لیے تیار ہو جانا"۔ سکندر زور سے ہنسا۔ جس کے ساتھ ہی اس کو کھانسی کا دورہ پڑا اور سانس خراب ہوگیا۔
"سکندر کیا تم ٹھیک ہو؟ میں نرس کو بلاؤں؟" سکندر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
مسلسل کھانسی کے بعد سکندر کی طبیعت سنبھل رہی تھی۔
"نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں، اس کو بلانے کی ضرورت نہیں۔ ناشتے کے ذکر سے مجھے ہنسی آ گئی۔ بالکل ایسے ہی جیسے پھانسی پانے والے بندے سے آخری خواہش پوچھی جاتی ہے اور بہترین کھانا کھلایا جاتا ہے"۔
کھانسی سے آنکھوں کی رنگت ایسی سرخ ہوگئی جیسے ساری رات مے نوشی کی ہو۔ کمزوری اور گلے کی خشکی سے زبان پر جو لکنت پھر رہی تھی وہ بھی اسی حالت کی یاد دلاتی تھی۔
جیمز کے لیے سب کچھ بھاری ہو رہا تھا۔ اس نے بات کو بدلنے کی کوشش کی"کیا آج تمہیں کوئی ملنے آ رہا ہے؟"
"نہیں! میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ اپنے بچوں کو بھی نہیں"۔
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیوں؟"
"وہ پریشان ہوتے۔ اپنی جاب چھوڑ کر آتے۔ کیا ضرورت تھی؟ ہسپتال والے مجھے دفن کر دیں گے۔ وہ کسی خدا پہ یقین رکھتے ہوئے تو ان کا خدا ادھر سے بھی ان کی بات سن لے گا۔ میرے پاس آ کر انہوں نے کیوں دعا کرنی ہے؟ میرا تو کسی پر یقین نہیں۔ مجھے تو کسی دعا کی ضرورت نہیں"۔
"تم بہت سمجھدار باپ ہو۔ سب کچھ بہت اچھے طریقے سے پلان کیا ہے"۔
جیمز نے شکریہ ادا کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
نرس ناشتے کی ٹرالی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے دودھ بالائی کے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ سرخ کناری لگا سفید سکارف پن لگا کر سر کے بالوں کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ سر کے اوپر چھت پر صرف ایک بلب روشن تھا۔ اس کی روشنی سر کے گرد ایک ہالہ بنا رہی تھی۔ جس سے اس کے سارے جسم پر بدھا کا تقدس بکھرا ہوا تھا۔
وہ قریب آ کر ناشتہ کھلانے میں مدد کرنے لگی۔ کھانے کی ہمت نہیں تھی۔ کچھ بطلانِ ذوق بھی تھا لیکن پھر بھی شہد، بریڈ، انڈے، دودھ سب کچھ لیا۔ اس کی پسندیدہ آئس کریم بھی دی گئی۔ وہ حیران تھا۔ نرس نے بتایا کہ کچھ مہینے پہلے تم نے اس کے بارے میں بتایا تھا۔ نرس کا شکریہ ادا کیا، "گرچہ مجھے بھوک نہیں تھی لیکن تمہاری مہمان نوازی نے مجھے سب کچھ کھانے پہ مجبور کیا۔ بہت شکریہ، اب مجھے موت کے کمرے کی طرف لے چلو"۔
ڈاکٹر نے انجکشن دیا۔ وہ آہستہ آہستہ مست ہوتا جا رہا تھا۔ پاس کھڑی نرس نے اس کے پاؤں کو چھوا۔
"کچھ محسوس ہو رہا ہے"۔
"نہیں"۔ اس نے جواب دیا۔
نرس نے گھٹنے دبائے اور پوچھا، "اب کچھ محسوس ہو رہا ہے"۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
اس کے چہرے پر وہ لازوال کیفیتِ اظہار نمو ہو چکی تھی جو قریب المرگ انسان کے ہونٹوں پر، پپوٹوں پر موت پیدا کر دیتی ہے۔
اس کے بعد اس کا سر کچھ اس انداز میں ہلا جیسے موتِ کیف کے اس لمحے میں یک گونہ رنگینِ نشاط شامل کرنے کے لیے وہ اپنی شریک حیات کو ڈھونڈ رہا ہو۔
موت کی ہچکی لی، جسم بے حرکت اور آنکھوں کا نور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔