1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. غیبی مدد، اسباب، تاریخ اور ہماری غفلت

غیبی مدد، اسباب، تاریخ اور ہماری غفلت

غیبی مدد کا تصور اسلام میں نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ تاریخِ اسلام کا وہ روشن باب ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ لیکن غیبی مدد محض دعاؤں، بددعاؤں یا محافلِ نعت و تسبیحات سے نہیں آتی، بلکہ یہ ایک اصول، ایک سنت اور ایک نظامِ ربانی کے تحت آتی ہے، جس کے پیچھے قربانی، جدوجہد، صبر، عمل، ایمان اور اجتماعی شعور کا مقام بنیادی ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غیبی مدد اس وقت آتی ہے جب ایک مومن کامل اخلاص سے میدانِ عمل میں اُترتا ہے۔ غیبی مدد بدر میں آئی، جب 313 نہتے، کمزور لیکن ایمانی قوت سے لبریز مسلمان صرف اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمن کی فوج کے سامنے ڈٹ گئے۔ غیبی مدد خندق میں آئی، جب بھوک سے نڈھال پیغمبر ﷺ خود خندق میں کدال مار رہے تھے اور صحابہ کرامؓ جسمانی مشقت اور خوف کے ماحول میں بھی اللہ کے وعدے پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن غور کیا جائے تو غیبی مدد اسپین کے سقوط کے وقت نہیں آئی، خلافتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ہونے پر نہیں آئی، اسرائیل کے قیام کو نہ روکا، بابری مسجد کے انہدام پر خاموش رہی، عراق، شام، کشمیر، میانمار اور گجرات میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں مگر آسمان سے کوئی غیبی فوج نہ اُتری۔ ایسا کیوں؟

اس کیوں کا جواب ہم میں سے ہر ایک کے ضمیر میں چھپا ہے۔ ہم نے غیبی مدد کو دعا کے چند الفاظ، مسجد میں چند آنسو اور میلاد کی محافل میں ڈھول کی تھاپ پر نعت کے اشعار تک محدود کر دیا ہے۔ ہم نے دینِ اسلام کو صرف انفرادی عبادات، رسمیات اور مجاورانہ رویوں میں قید کر لیا ہے۔ ہم نے اسلام کے آفاقی، انقلابی، اجتماعی اور عملی پہلوؤں سے نہ صرف آنکھیں پھیریں بلکہ ان سے ڈرنا، کترانا اور بھاگنا شروع کر دیا ہے۔ ہم نے جہاد کے مفہوم کو دہشت گردی سمجھ لیا، امر بالمعروف کو شدت پسندی کا نام دیا اور نظامِ طاغوت کو "حقیقت پسندانہ سیاست" کہہ کر قبول کر لیا۔

ایسے میں ہم غیبی مدد کے کیسے مستحق ہو سکتے ہیں؟ جب امتِ مسلمہ اجتماعی سطح پر ظالم نظاموں کو سہارا دے، ظالموں کی اطاعت کو "مصلحت" کہے، دین کے نفاذ کے مطالبے کو "انتہا پسندی" سمجھے، تو پھر ربّ کی نصرت کیوں کر آئے؟ جب مسلمان جھوٹ بولے، کم تولے، ملاوٹ کرے، ذخیرہ اندوزی کرے، سود کھائے، زنا کو عام کرے، بے حیائی کو فیشن سمجھے، تو اللہ کی رحمت کیسے نازل ہو؟ جب نعت کے اشعار پر آنکھیں نم ہوں، مگر ظلم کے خلاف کھڑے ہونے پر زبانیں گُنگ ہوں، تو غیبی مدد صرف خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ جب ہم نے مسجدوں کے در و دیوار کو تو روشن کر لیا، مگر دلوں کو اندھیروں میں چھوڑ دیا، جب ہم نے رمضان کو کاروباری سیزن بنا دیا، محرم کو جلوسوں کا تہوار، ربیع الاول کو برقی قمقموں کا دن اور دین کو ذاتی برانڈنگ کا ذریعہ بنا لیا، تو ربّ کی مدد رُک گئی۔

ہم نے دینِ اسلام کے نفاذ کی بات کرنے والوں کو طنز کا نشانہ بنایا اور طاغوت کے حامیوں کو "دانشور" اور "قائد" مانا۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو جہاد، حیا، غیرت، قربانی، خلافت، امت اور آخرت جیسے الفاظ سے ناآشنا کر دیا۔ ان کی تربیت ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب سے ہونے لگی۔ وہ فیشن، شہرت اور نفس کی غلامی میں ڈوب گئے اور ہم سوچتے ہیں کہ شاید آسمان سے فرشتے اُتریں گے اور ہمیں نجات دلا دیں گے؟ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ غیبی مدد کے لیے شرط ہے کہ مومن پہلے خود اُٹھے، کھڑا ہو، ظالم کو للکارے، باطل کو للکارے، دین کے نظام کے لیے جدوجہد کرے۔

اللہ کا وعدہ قرآن میں واضح ہے: "اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا"۔ (سورہ محمد: 7)۔ لیکن ہم نے اس آیت کو صرف حفظ کر لیا، اس پر عمل نہ کیا۔ ہم نے قرآن کو الماریوں کی زینت بنایا، اسے تحریک نہیں، تبرک سمجھا۔ ہم نے سیرتِ رسول ﷺ کو کتابوں میں بند رکھا اور اپنی زندگیوں کو مغرب کی پیروی میں لگا دیا۔ ہم نے دنیا کو مقصد اور دین کو مشغلہ بنا دیا اور پھر سوال کرتے ہیں کہ غیبی مدد کیوں نہیں آتی؟ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بدر والے 313 کون تھے؟ کیا وہ محفلِ نعت میں بیٹھے تھے؟ نہیں! وہ تلوار تھامے، جان ہتھیلی پر رکھ کر، ایمان کی روشنی سے منور، عمل کے میدان میں اترے تھے۔ تب جا کر فرشتے آسمان سے نازل ہوئے۔

آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو صرف ایک شناخت بنا لیا ہے، ذمہ داری نہیں۔ ہم مسلمان کہلانا چاہتے ہیں، مگر اسلامی نظام نہیں چاہتے۔ ہم نمازیں پڑھتے ہیں، مگر سیاست میں بے دینی کے حامی ہیں۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں مگر نظامِ عدل کے بجائے سودی معیشت کے علمبردار ہیں۔ ہماری دعائیں منافقت سے بھری ہوئی ہیں اور ہمارا عمل کفار کے نظام کا پرچار بن چکا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو مغربی تعلیم دے کر فخر محسوس کرتے ہیں، مگر جب وہ دین سے دور ہو جائیں تو صرف دعا کرتے ہیں۔ یہ رویہ، یہ غفلت، یہ دوغلا پن، ہمیں غیبی مدد نہیں بلکہ اجتماعی عذاب کی طرف لے جا رہا ہے، جس کی شکل کبھی زلزلہ ہے، کبھی سیلاب، کبھی کرپٹ حکمران، کبھی معاشی بدحالی اور کبھی امت کی تذلیل۔

حقیقت یہ ہے کہ اب ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوگا: ہم محض مجاور رہنا چاہتے ہیں یا مجاہد؟ ہم صرف نعت گو بننا چاہتے ہیں یا نظام مصطفی ﷺ کے داعی؟ ہم محفلِ میلاد پر خوش ہونا چاہتے ہیں یا قرآن و سنت کے مکمل نفاذ کے لیے کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ غیبی مدد آئے، تو ہمیں میدانِ عمل میں اُترنا ہوگا۔ علم، عمل، اتحاد، قربانی، اخلاص، ایمان اور سب سے بڑھ کر، ایک عملی جدوجہد کی ضرورت ہے جو مکمل دینِ اسلام کے نفاذ کی طرف لے جائے۔ جب ہم دین کو مکمل قبول کریں گے، تبھی غیبی مدد بھی مکمل آئے گی۔

جب ہم انفرادی اسلام سے نکل کر اجتماعی اسلام کو اپنائیں گے، جب ہم دین کے ہر شعبے، سیاست، معیشت، تعلیم، عدل، ثقافت، کو قرآن و سنت کے تابع کریں گے، تب جا کر بدر کے میدان کے فرشتے ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، مگر شرط ہے کہ ہم بھی سچے ہو جائیں۔ اگر ہم دین کے ساتھ مخلص ہو جائیں، تو یقین کیجیے، غیبی مدد آسمان سے آئے گی اور زمین پر اسلام پھر غالب ہوگا، ان شاء اللہ۔