یہ سرزمین اب مٹی سے زیادہ خون سے سیراب ہوتی ہے۔ یہ دیس اب خوشبوؤں کا نہیں، لاشوں کا دیس ہے۔ یہاں فجر کی اذان سے پہلے ماں کی کوکھ اجاڑی جاتی ہے اور شام ڈھلنے سے پہلے کسی باپ کے کندھے پر جوان بیٹے کا جنازہ رکھ دیا جاتا ہے۔ بلوچستان، وہ بدنصیب خطہ جہاں موت معمول ہے اور زندگی استثنا۔ جہاں آنکھ کھولتے ہی خوف، ہراس اور چیخوں کا راج ہوتا ہے۔ جہاں ہر دن کوئی نوجوان غائب ہوتا ہے اور ہر رات کوئی ماں سسکتی رہتی ہے کہ شاید کل اس کا لعل لوٹ آئے۔
یہ خطہ وہ ہے جہاں ہر پہاڑ کوئی راز چھپائے بیٹھا ہے، ہر وادی میں لاشیں دفن ہیں اور ہر راستے پر ماتم بچھا ہے۔ کبھی کسی استاد کی لاش، کبھی کسی طالبعلم کی اور کبھی کسی مزدور کی یہاں مرنے والوں کا کوئی جرم نہیں، صرف شناخت کافی ہے۔ یہاں اغواء کرنا ایسا ہے جیسے کسی کو بازار سے سامان اٹھانا۔ یہاں مسخ شدہ لاشیں ایسے پڑی ہوتی ہیں جیسے کسی قصائی نے بے دردی سے ذبح کرکے چھوڑ دیا ہو۔ نہ قانون ہے، نہ انصاف۔ نہ ریاست جواب دہ ہے، نہ کوئی ادارہ۔
ماں رات بھر دروازہ تکتی ہے، بہن دوپٹے سے آنکھیں پونچھتی ہے اور باپ کی آنکھوں کا نور بجھ چکا ہوتا ہے۔ صرف قبریں رہ گئیں ہیں، باقی سب سہمے ہوئے ہیں۔ یہ بلوچستان ہے جسے کچھ لوگ "ایریا" کہتے ہیں، کچھ "بیک ورڈ ریجن"۔ مگر یہ وہ دیس ہے جس کے بچے زمین کے سینے پر دفن ہوتے جا رہے ہیں اور دنیا خاموش ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ ہمیں مارا کیوں جا رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ہمیں جینے کیوں نہیں دیا جا رہا؟ کیا بلوچ کا جرم صرف بلوچ ہونا ہے؟ کیا ہمارے پاس انسان کہلانے کا حق بھی نہیں بچا؟
ہزاروں خاندانوں نے اپنے پیاروں کو صرف اس امید پر دفن کیا کہ شاید ان کے جانے کے بعد کچھ بدلے گا۔ مگر کچھ نہیں بدلا۔ نہ قاتل پکڑے گئے، نہ غائب شدگان واپس آئے۔ بس ایک اور جنازہ، ایک اور احتجاج، ایک اور خاموشی۔ کوئٹہ سے پنجگور، تربت سے آواران تک لاشیں گرتی گئیں، مائیں سسکتی گئیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہی۔ کیمروں کے سامنے ہمدردی، پیچھے بدترین بےحسی۔ نوجوانوں کے خواب چھین لیے گئے، قلم توڑ دیے گئے، زبانیں بند کر دی گئیں اور جو آواز بلند کرے وہ لاپتہ کر دیا گیا۔ یہاں سچ بولنا جرم ہے اور خاموش رہنا سزا۔ یہاں کی سڑکیں خون سے سرخ ہیں، دیواریں لاشوں کے نام سے مزین اور ہر گلی میں کوئی ماں منتظر۔ کوئی سالوں سے اپنے بیٹے کی واپسی کے خواب میں سو رہی ہے، کوئی قبر پر روز چراغ جلاتی ہے۔
یہ دیس اب زندوں کا نہیں، مردوں کا وطن ہے۔ یہاں زندگی سے زیادہ موت کی اہمیت ہے۔ ہر گھر میں سوگ، ہر دل میں داغ اور ہر آنکھ میں آنسو۔ کب تک لاشیں گرتی رہیں گی؟ کب تک مائیں اپنے بیٹے دفناتی رہیں گی؟ کب تک ہمیں خاموش کیا جاتا رہے گا؟ کب تک؟ یہ آواز اس زمین کے ہر ذرے سے اٹھ رہی ہے: ہمیں جینے دو! ہمیں سانس لینے دو! ہمیں ہمارے پیارے واپس دو!
یہ صرف ایک کالم نہیں، ایک چیخ ہے۔ یہ ہر اس ماں کی فریاد ہے جس کے بیٹے کو لاپتہ کر دیا گیا۔ یہ ہر اس نوجوان کی آہ ہے جس نے صرف تعلیم حاصل کی اور لاش بن گیا اور اگر تم یہ سب پڑھ کر بھی خاموش رہو، تو یاد رکھو، تمھاری خاموشی اگلی لاش کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ یہ دیس لاشوں سے بھر گیا ہے۔ کیا اب بھی تمہیں یقین نہیں آیا کہ ہم ایک زندہ قوم نہیں، مردہ انسانوں کا مجموعہ بن چکے ہیں؟