1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. وطن یا کفن

وطن یا کفن

وطن یا کفن یہ ایک محاورہ ہے اسکی مٹھاس محب وطن لوگوں کے ذہنوں میں وجود رکھتی ہے۔ اسکے ذائقے سے وہ میدان جنگ میں اترتے ہی دشمنوں کے سامنے ڈٹ کرمقابلہ کرتے ہیں اور اپنی جان کی یہ بازی کبھی ہارتے اور کبھی جیت لیتے ہیں۔ ان لوگوں کا اگر سروے ہوجائے تو اس مقدس عشق میں اکثر وطن کے غریب طبقے کے لوگ نظرآئیں گے۔ یہ روشن حقیقت ہے کہ ملکی سطح پر اکثر ممالک کی بقاء کی جنگ میں وہ سکیورٹی فورس یا عوامی افراد مارے جاتے ہیں کہ جنکو اپنے آپ سے وطن ذیادہ عزیز ہو۔

ہمارے وطن پاکستان کے چاروں صوبوں اور شہروں میں ایسے گھرانے ہیں کہ جس میں وطن عزیز پر جان دینے والے شہدا کے یتیم بچے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جنکے والد راہ حق میں شہید ہو چکے ہوں۔ آج تک ایسے بچوں کی کوریج سوشل میڈیاء، پرنٹ میڈیا اور نہ الیکٹرونک میڈیا پر ہوئی۔ اسی طرح ملک کے مختلف شعبوں میں اکثر ملازمین ملکی دفاع یا خدمات دینے کے اوقات میں جان کی بازی دیتے ہیں۔ کسی کے غریب خاندان ہونے کیساتھ ساتھ نادار والدین، چھوٹے پھول جیسے بچے اور کسی کی جوان بیویاں بیوہ ہو کر پوری زندگی کی خوشیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آج تک ملکی سطح پر ایسے قابل تعریف خاندانوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی، نہ انکے بچوں کی مستقبل کیلئے کوئی راہ ہموار ہوئی ہے۔

نہ جانے پاکستان کے سیاستدانوں کی زبان میں وہ کونسا جادو ہے جو ایک ہی نعرے سے پاکستانی نوجوانوں کو ہر قسم میدان کو نکلنے کیلئے تیارکر سکتے ہیں۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر سیاسی لیڈر پر حملہ کے وقت کارکنوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ آج تک کوئی نہیں بتا سکتا کہ کسی حکمران کے بیٹے یا بیٹی نے سڑک پر احتجاج ریکارڈ کرکے اپنے حقوق کا مطالب کیا، نہ آج تک کسی سیاست دان کی بیٹی یا بیٹے نےکوئی جلسے یا مظاھرے میں شرکت کی۔ یہ ہم ہیں کہ صبح سویرے گھریلو اخراجات اور مسائل کیساتھ ساتھ دوسروں کیلئے قربانی کی بکریوں کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔

اگر واقعی نوجوان نسل وقت کی ذہنی غلامی سے نجات پانا چاہتے ہیں اور اپنے حقوق کے مطالبات پورے کرنا چاہتے ہیں تو آئیں حکمرانوں کی اولادوں کی طرح خود بھی اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں تاکہ آئندہ نسل کو اچھے اور برے کی تمیز کرنا آسان ہو۔ آج جولوگ سڑکوں پہ جلسے مظاھرے کرتے ہیں یہ سب کے سب مختلف سیاسی، مذھبی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جس قدر وہ موجودہ سیاست پر دھیان دیتے ہیں اس قدر اگر اپنے مستقبل پر تھوڑا سوچیں تو امید ہے کہ آئندہ نسل کامیاب و کامران ہوجائے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نوجوان آج سیاسی شکارہیں اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ناامید ہوجاتے ہیں۔