1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. ملی خیانت

ملی خیانت

کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اللہ نہ کرے آپ کے پاؤں نہ ہوں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ ساری ساری رات جاگتے رہیں۔ اور آپ کو نیند نہ آئے۔ ماہر نفسیات کے پاس بے خوابی کے بے شمار کیسس آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح پانی کے بغیر زندگی ناممکن ہوتی ہے۔ تو کیا آپ اللہ نہ کرے ایسے حالات کا تصور کر سکتے ہیں کہ آپ پانی جیسی نعمت سے محروم ہوجائیں۔ آپ اپنی سماعت۔ بصارت اور گویائی کی قوتوں پر غور کریں۔ یہ نہ ہوں تو آپ گونگے، بہرے اور نابینا کہلایئں گے۔ آپ اپنی جِلد کو دیکھیں کہ اللہ نے آپ کو کیسی خوبصورتی عطاءکی ہے۔ اگر آپ کو جِلد کی کوئی بیماری لگ جائے۔ یا چہرے پر کوئی پھوڑا نکل آئے۔ تو کسی کو اپنی شکل نہیں دیکھا سکیں گے۔ اپنی قوت گویائی اور سماعت پر غور کریں اگر یہ نہ ہوں تو شاید معاشرے میں کوئی بھی اپ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ اگر آپ بالکل درست الادماغ نہ ہوں تو شاید آپ کو اپنے اھل خانہ بھی ایک بوجھ اور مصیبت خیال کریں گے۔
ان کی کوشش ہوگی کہ آپ کو گھر کے اندر بند رکھا جائے۔ اور اگر ضرورت پڑے تو وہ آپ کو باندھ کر رکھیں گے۔ تاکہ آپ خود اور اھل خانہ کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو امراض دماغی ہسپتال میں داخل کروا کر اپ کو بالاخر بھول ہی جائیں۔ اگر ان صلاحیتوں کو بحال کرنا ہو یعنی آنکھوں، کانوں، زبان، دل و دماغ کا علاج کرنا ہو تو آپ اس پر کتنا خرچ کریں گے۔ اور کیا خرچ کرکے انہیں واپس لاسکے گے یا نہیں؟
میں ایک ارب پتی شخص کے بارے میں جانتاہوں۔ اسے اللہ تعالی نے تین بیٹے عطاء کئے لیکن بدقسمتی سے تینوں گونگے اور بہرے تھے۔ اس نے اندرون ملک کئی ماہرین۔ ای این ٹی۔ سے علاج کرایا جوکئی سال تک جاری رہا بالاخر وہ فرانس کے ایک ماہر کان۔ گلا۔ ناک سے جاملا اس نے علاج کی ہامی بھرلی اور انیس کروڑ روپے مانگے یہ آج سے کئی سال پہلی کی بات ہے۔ اور یہ فیس اس وقت کے حساب سے طے ہوئی تھی۔ اور اس نے بچوں کی مکمل بحالی کی پھر بھی ضمانت نہ دی۔ چنانچہ علاج نہ ہوسکا۔ آپ ہسپتلاوں میں جائیں اور دیکھئےکہ ہمارے بھائی بند۔ ہماری مائیں اور بہنیں کیسے کیسے امراض میں مبتلا ہے۔ آپ ان سے اظہار ہمدردی کیجئے انکی صحت یابی کیلئے دعائیں مانگیں اور ساتھ ہی عبرت بھی حاصل کیجئے۔ کہ یہ لوگ کتنے اچھے صحت کے مالک ہوا کرتے تھے۔ اور آج صحت جب باقی نہ رہیں تو اس کیلئے کتنے فکرمند ہیں۔ یہ دن ہم پر بھی آسکتا ہے اور ایسا دن آنے سے پہلے ہمیں اپنی صحت مندی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چائیے۔ کبھی ناشکری نہیں کرنی چایئے۔ صحت ہے توآپ کے پاس سب ہیں اور صحت نہیں تو کھچ بھی نہیں۔
اسی طرح مصائب اور حادثات کے شکار افراد ہمارے پاکستان میں بہت ملتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں ملی خیانت کا راج قائم ہے ہر کوئی من مانی سے غریب کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر غصب کر سکتا ہے۔ ہر کوئی صحت کی اجتماعی اور عوامی سہولیات عوام کے بجائے اپنے ہی بچوں کی سنوار مستقبل کیلئے چپھاتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ غریب عوام کے بچے کھلے آسمان کے تلے فرش پر صحتیابی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مرجائیں۔ کوئی آسمان نہیں گرے گا کہ عوام اور نہتے اشخاص بم دھماکوں میں روز ہی شھید ہوجائیں۔ کونسی بری بات ہے کہ عوامی حلقوں کی سرکاری فنڈز سے ہم ایورپ کے شہروں میں موج مستیاں کرتے ہیں۔ کیا ہوا ہم شراب سے نہاتے ہیں اور عوام کو پینے تک پانی میسر نہیں ہیں۔ کون گلہ شکوہ کرے گا کہ عوامی بچے گداگری اور ویرانوں میں رزق تلاش کرتے ہیں اور ہمارے بچے انکے مزاق اڑاتے ہیں۔ کیا عجیب ہے کہ ملکی افراد ایک وقت کی روٹی حاصل کرنے کیلئے ٹھوکریں کھا کھا کر حاصل کرتے ہیں اور ہم حکمران معمولی فٹبال ٹورنمنٹ یا کتوں کے لڑائی پر لاکھوں روپے کے انعامات دیتے ہیں۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کہ ہمارے بچے بیرون ملک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور عوامی بچے چھوٹے چھوٹے چائے کیفے میں ہوٹلوں اور حماموں میں ماہانہ پچیس ہزار تنخواہ سے سارا دن لوگوں کی منتیں برداشت کرکے رات کو تھک تھک سو جاتے ہیں۔ کوئی پرواہ نہیں ہے کہ کسی ایم پی اے، ایم این اے یا سنیٹر کی بچے آرام دہ محلوں اور گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور غازی، مجاھد اور شھید کے بیٹے بھوک اور پیاس سے سسکیاں لیتے ہی رات بھر جاگ جاتے ہیں۔
کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ عوام کی حفاظتی سکیورٹی ہمارے محلوں اور بنگلوں کے ارد گرد گشت کرتے ہی عوام دن دھاڑے لوٹے جاتے ہیں۔ ٹارگٹ ہوجاتے ہیں اور اغواہوجاتے ہیں عوامی حادثات مصائب اور اموات ہمارے وزارتوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں کرسکیں گے کیونکہ ملی خیانت کے ایجنڈے کے تلے ہم سب ایک ہیں۔ اس ملی خیانت کے ناسور سے بہت سے اشخاص میرٹ۔ امن وامان۔ ملکی حقوق۔ زندگی کی سہولیات اور ایک اچھے مستقبل سے محروم ہوئے ہیں۔ جب تک ہمارے موجودہ دور کے یہ حاضر بُرے بڑے اپنے ملک کے تعلیمی اداروں سے فراغت حاصل نہ کریں اپنے ملک کی عوام کی طرح ثقافتی نہ بن جائیں اپنے ملکی قوانین و منشور سے آگاہ نہ ہوجائے عوام کی طرح مشکل زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوجائیں تب تک اس ملک میں ملی خیانت ملی شخصیتوں کی تاریخ رہے گی۔