1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. ڈاکٹر عافیہ صدیقی

ڈاکٹر عافیہ صدیقی

ڈاکٹرعافیہ صدیقی دو مارچ 1972کوکراچی میں پیدا ہوئی۔ انکی والد کا نام محمدصدیقی تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے۔ جبکہ والدہ عصمت فاروقی ایک سادہ سی گھریلو خاتون ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ اور مزید تعلیم کیلئے امریکہ منتقل ہوگئیں۔ جہان انہوں نے سب سے بڑے ادارے MITسے ڈگری حاصل کی۔ اسکے بعد امریکہ کی ایک اور یونیورسٹی سے نیورو سائنس میں PHD ڈگری حاصل کی۔ جسکے بدلے عافیہ صدیقی کو 5000 ہزار امریکی ڈالرز انعام دئیے گئے۔ 1995 میں عافیہ صدیقی کی شادی ڈاکٹر محمدامجد خان سے ہوگئی۔ اس وقت سے عافیہ صدیقی CIA کی بہت بڑی چاہت بن گئی۔

ڈاکٹر صاحبہ کی تین بچے ہیں احمد صدیقی جو 1996 میں پیدا ہوا۔ انکی بیٹی مریم بنت محمد اور تیسرا بچہ 2002 میں پیدا ہوا۔ ڈاکٹر عافیہ ایک تیز اور قابل نیورو سائنٹسٹ تھی۔ جو بائیو کیمسٹری پر ریسرچ کر رہی تھیں۔ امریکہ کو اس بات کا پورہ یقین تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان سے گہرے تعلقات رکھتی ہے۔ اور انکی یہ ریسرچ بائیولوجیکل ویپنز بنانے کام آسکتی ہے۔ 11/9کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ نے کیوں دہشتگرد قراردیا۔ چونکہ یہ ایک اچھا موقع تھا لہذا امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو یہودی ایجنڈے پر کام کرنے کا حکم دیا۔ جس پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے مکمل انکار کردیا۔ امریکہ چاہتاتھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ریسرچ امریکہ کو مل جائے تاکہ ایک وقت پر انہی کی ریسرچ کے تیار کردہ ہتھیار سے مسلمانوں پر حملہ کر سکے۔ امریکہ کی اس خواہش پورہ نہ ہونے پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی2002 میں اپنے شوہرمحمدامجد خان سے طلاق ہوئی۔ جسکے بعد امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ کا خاوند جو پہلے ہی سے امریکی CIA کا ایجنٹ تھا اور ظاہری وعملی طور بھی بن چکا۔ امریکہ نے اسکو استعمال کیا اور بعد میں جھوٹا بیان دے کر کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ جب عافیہ صدیقی 2003میں امریکہ سے کراچی کو آگئی تو FBI نے شک کرکے کہ عافیہ صدیقی کاتعلق القاعدہ سے ہے۔ اس بے بنیاد الزام کی وجہ سے عافیہ صدیقی کئی عرصے تک کراچی میں رپوش ہوگئی۔

30 مارچ 2003 کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کیلئے ٹیکسی میں ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوئی۔ مگر اسی دن راستے ہی سے غائب ہوگئی۔ بعد میں خبریں آئی کہ انھیں امریکہ نے اغواء کر لیا ہے۔ اس وقت محترمہ کی عمر 30 سال تھی۔ اور بڑے بچے کی عمر چار سال تھے۔ اور سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف ایک ماہ تھی۔ مقامی اخباروں میں ڈاکٹر صاحبہ کی گرفتاری کی خبرشائع ہوئی۔ لیکن بعد میں وزراء نے لا علمی کی اظہار کیا۔ اور انکی والدہ کو دھمکیاں دی گئی۔ عالمی اداروں نے بعد میں خیال ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید بی بی صاحبہ ہی ہے۔ جو وہاں بہت بری حالت میں قیدی تھی۔ پاکستانی میڈیامیں شور مچنے کے بعد امریکہ نے اچانک اعلان کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو 27 جولائی 2008 کو افغانستان سے گرفتار کرکے نیویارک پہنچایا گیا ہے۔ تاکہ ان پر دہشتگردی کے حوالے سے مقدمات چلائے جا سکیں۔

جب امریکہ کو کئی سال گزرنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ تو بربریت اور وحشت کی شکار ہے تو امریکہ نے اس مسلم ذہین اور سائنٹسٹ حافظ القرآن باپردہ عورت کو دہشتگر قرار پانے کے بعد انسانیت کی نام نہاد تنظیموں نے امریکن کہانی کو ناقابل یقین قرار دیا۔ لیکن عمل درآمد آج تک نہیں ہوا ہے۔ اور امریکہ کی اس وحشت کو دیکھیں کہ ڈاکٹر صاحبہ کو گرفتاری کے دوران گولیوں کا نشانہ بھی بناکے شدید زخمی کیا۔ تو باقاعدہ امریکی ایک ڈاکٹر نے اسکی حالت کو موت القریب بھی پایاتو امریکی فوجیوں نے پرپیکنڈہ مچا کر الزام عائد کیا کہ عافیہ نے فوجی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر اسے گولیاں چلانا پڑی۔ اسلام آباد عدالت میں ایک درخواست میں دعوی کیا گیا تھا کہ مشرف نے ڈالرز کی عوض امریکہ کی ہاتھوں پر فروخت کیا گیا۔ اگست 2009 میں وزیراعظم یوسف رضاء گیلانی نے بتایا کہ حکومت دو ملین ڈالرز تین امریکن وکیلوں کو دینگے۔ جو عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت میں پیش کریں۔ لیکن اس بات کو ظاہر ہونے پر لاہور عدالت اعلی نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کیا کیونکہ رقم خردبرد ہونے کا خدشہ پیدا ہوا عدالت میں درخواست گزار نے کہا کہ امریکی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں ہے یہ پیسے عالمی عدالت میں یہ مقدمہ درج کرکے خرچ کیا جائے۔

دسمبر2009 میں بالاخر کراچی پولیس نے عافیہ صدیقی اور انکی تین بچوں کے 2003 میں اغوا کا مقدمہ اتنے سال گزرنے اور شواہد ملنے کے باوجود نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا۔ ستمبر 2010 میں پاکستانی حکومت نے دعوی کیا کہ امریکی حکام سے درخواست ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو باعزت اور واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ 23 ستمبر 2010 میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ کو غیرقانونی اور انسانیت کی چوکھٹ سے باہر اپنے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مظلوم امت کی بیٹی کو 86سال سزا سنائی۔ اسکے باوجود جون 2013 میں امریکی فوجی نے ڈاکٹر صاحبہ پر حملہ کیا جسے وہ دو دن بے ہوش رہی۔ بالآخر وکیل کی مداخلت پر ڈاکٹر عافیہ کو طبی امداد دی گئی پھر امریکی اعلیٰ ٹیم افیسروں نے عافیہ بی بی کو رہائی کی پیشکش کردی کہ آپ ہمیں اپنی تعلیمی محنت و کوششوں سے تیار کی گئی ریسرچ بتائیں اسکے بدلے میں ہم آپکو چھوڑ دیں گے۔ لیکن عافیہ کو پتہ تھی کہ یہ درندے ہمارے اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی اپنے ہی وسائل سے مسلمانوں کو تباہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بالکل انکار کردیا۔ جب امریکی اعلیٰ اشخاص اس شیطانی پلان میں ناکام ہوئے تو اسی کی حکم سے عافیہ پر اتنی تشدد کیا کہ بگرام سے ایک رہا ہوا قیدی سے ملنے کے بعد بتاتے ہوئے کہا کہ راتوں رات ایک وارڈ سے عورت کی چیخوں کی آوازیں آتی تھی اسی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اسکے دو بچوے بھی مارے گئے لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنے دلی راز نہ کھولی۔

آخر اتنا ظالمانہ سلوک کیوں ایک عورت کیساتھ ہورہا ہے۔ ایک تو عافیہ صدیقی دنیا کے حالیہ اور تاریخی اشخاص کی لسٹ میں سب سے ذہین خاتون تھی۔ وہ FBI کی لسٹ میں بھی ٹاپ تھی۔ مسلم اور مظلوم امہ کی اس عظیم خاتون پر ظلم۔ جبر۔ وحشت اور حیوانوں جیسا سلوک بیان کرنے کیلئے مضمون نہیں بلکہ کتاب لکھنا بھی کم ہے۔ کئی بار یہ مسلم خاتون بدسلوکی کی شکار ہوئی۔ اگر آپ امریکی ظلم وستم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح 200 سے زائد مسلمان ڈاکٹرز۔ سائنسدانوں۔ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو جھوٹے پلان کے تحت شہید کیا گیا۔