1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. لانگ مارچ اور ناچ مارچ

لانگ مارچ اور ناچ مارچ

آج کل پوری دنیا میں جس پیمانے پہ جھوٹ نشر ہورہا ہے اسکا اولین مقصد و ہدف اسلام ملا اور طالب کو عالمی سطح پر دنیا کے ہر طرح حالات و واقعات سے ناعاقبت اندیش اور معاشرتی ترقی کی رکاوٹ بتلانا ہے۔ عالمی میڈیا کی ناقص اور یکطرفہ خبروں سے عصر حاضر کی نوجوان نسل بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ پشتو زبان کی ایک کہاوت ہے کہ نیم ملا خطرہ ایمان ہے اسی کہاوت کے مطابق آج کے اس حاضر وقت میں اکثر نیم ملا کو فرنٹ پر لاتے ہی عوام کو گمرا کر رہے ہیں۔ جیسے عالمی میڈیا حقائق کو جھوٹ کے پردوں میں چھپاتے ہے ہمارے حاضر وقت کا میڈیا بھی اس عمل میں برابر کا شریک ہے۔ اکثر اوقات ملکی سطح پر غیر یقینی افواہوں کو ہوا دیتے ہی نفرت پھلاتی ہے۔ دوسری وجہ سوشل میڈیا کے نازیبا الفاظ اور مجروحی تبصروں سے یہاں آج نہ علماء دیوبند، نہ اسلام گستاخی سے بچا۔ دن رات غیر یقینی اور غیر اخلاقی کارٹون اور خبریں امن کی فضا کو متاثر کر رہی ہے۔

2013 کی بات ہے کہ مولانا گل نصیب خان صاحب نے کہا کہ کچھ لوگ حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں مولانا فضل الرحمان صاحب کے بھائی ضیاء الرحمن بتا رہا تھا کہ ایک دن اسجد محمود جو کہ مولانا فضل الرحمان کا فرزند ہے آنکھوں کے چیک اپ کیلئے اسلام آباد میں ایک ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر ہمیشہ پوچھتے ہیں کیا کام کرتے ہو، تو اسجد محمود سے بھی پوچھا بیٹا کیا کرتے ہو تو اسجد نے کہا قران حفظ کیا ہے اب مدرسے میں داخلہ لونگا تو ڈاکٹر ہنسا اور کہنے لگا ایک ہماری عوام جو مدرسے میں پڑھتے ہیں اور ایک مولوی فضل الرحمٰن جن کےبچے امریکہ اور برطانیہ میں پڑھتے ہیں۔ تو اسجد کو تو غصہ بہت آیا مگر چچا نے ہاتھ دبا کر روکا اور ضیاء الرحمان نے ڈاکٹر سے پوچھا سر آپ نے کبھی مولانا فضل الرحمان کے بچے دیکھے ہیں۔ تو ڈاکٹر نے کہا نہیں تو ضیاء صاحب نے کہا یہ اسی فضل الرحمان کا بیٹا ہے جس کا اپ ذکر کررہے ہے اور کہا جی آپ لوگ میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے میں آجاتے ہو اصل حقائق کچھ اورہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بہت شرمندہ ہوا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں پلیز مجھے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرادیں ان سے بھی معافی مانگ لوں۔ مولانا کے خلاف زیادہ تر مخالف باتوں میں صداقت نہیں ہوتی ہے۔

اسی طرح آج کئی لوگ مولانا کے اس آزادی مارچ کو اپنے مفادات کی وجہ سمجھتے ہیں کوئی بیرونی اشارے کی طاقت بتلاتے ہیں۔ مولانا اور جے یو آئی کو تنقید کانشانہ بناتے ہیں لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی کے ناچ مارچ میں جتنی بے حیائی ہوئی ہے اسکی مثال کسی سیاسی پارٹی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم اسکے ناچ مارچ اور اسکے دور میں کی گئی عریانی اور فحاشی پر بات نہیں کرتے ہیں ہم صرف اپنے عقائد کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کو چائیے کہ تنقید سے پہلے تو ذرا تحقیق کر لیا کریں کہ مولانا اور پاکستان کے زیادہ تر علماء اور عوام کو کیوں اس آزادی کے نام سے لانگ مارچ کرنے پر مجبور کیا۔ بڑی دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مولانا صاحب کیساتھ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کا اتحاد بھی مولانا کی سیاسی بصیرت کی دلالت ہے۔ یہ ایک پیشن گوئی ہے کہ ہمارے آئندہ نصاب تعلیم میں ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے کہ جسے اسلامی قرآنی اور جہادی آیاتیں احادیث اور اسباق کو خارج کر دینے والی ہیں۔ باقاعدہ پاکستان کے تمام مدارس کو تحریری طور آگاہ کیا ہے کہ آپ مدارس میں وقت حکومت کے مطابق تدریس دینا ہے اور بیک وقت ایک ہی مدرسے میں عصری اور اسلامی علوم کو فروغ دینا ہے۔ تو برائے مہربانی یہ کوئی ایک یا دو سیٹ کی بات نہیں ہے بلکہ پورے امت مسلمہ کی عقائد کی بات اور مسئلہ ہے۔

آئیں مولانا فضل الرحمن کا ملین مارچ / احتجاجی جلسہ اور پس پردہ حقائق کو غور سے پڑھیں۔ ویسے "قومی دھارہ" تو ایک بہانہ تھا، اصل میں مدارس کا مکمل کنٹرول (مالی، انتظامی اور نصابی) حاصل کرنا مقصود تھا۔ مدارس کو "قومی دھارے" یعنی مکمل کنٹرول میں لانے کا خیال کسی "نیک مقصد" کیلئے نہیں بلکہ امریکی استعمار کی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں پےدرپے شکستوں اور مستقبل کی "امارت اسلامیہ" کے خوف کو دور کرنے کیلئے تھا۔ اسی طرح کا خوف پاکستان کے مقتدر اداروں /طاقتوں کو بھی لاحق "کروایا" گیا کہ افغانستان میں امریکی شکست کے نتیجے میں "امارت اسلامیہ" کے اثرات بلواسطہ مدارس پاکستانی عوام پر بھی پڑینگے گے اور نتیجتاً پاکستان میں بھی "شرعی حکومت" کی عوامی ڈیمانڈ زور پکڑےگی اور ہوسکتاہے کہ جمہوری طریقہ کار سے پاکستان میں مذہبی جماعت/جماعتوں کی حکومت آجائے اور اگر ایسا ہوگیا تو باقی اسلامی ممالک میں "شرعی نظام/حکومتوں" کو برپا کرنے سے کوئی نہی روک سکے گا اور یوں مغربی استعمار اور ان کے پروردہ حکمرانوں /قوتوں کے ذریعے برپا "New World Order" کا شیرازہ بکھر جائے گا جبکہ "خلافت و امت" کا تصور حقیقت کا روپ دھار لیگا۔

موجودہ حکومت کو اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ مدارس کا مالی کنٹرول ان کے بس کی بات نہی ہے اسلئے مالی انتظام سے تو کچھ پیچھے ہٹ گئے ہیں لیکن انتظامی اور نصابی کنٹرول حاصل کرنے پر بضد ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق حکومت نے یکطرفہ کمیٹی بناکر مدارس کے نصاب میں تبدیلیاں فائنل کردی ہیں اور اگلے سال اسے زبردستی نافذ کرنے کا ارادہ ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ مدارس پہلے ہی کم ازکم بنیادی دنیاوی تعلیم کو نصاب کا حصہ بناچکی ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ مدارس اور ان کے انتظامیہ کو دھونس، دھمکی اور لالچ سے حکومت نے "سرنگوں" کردیا ہے جبکہ دیگر مدارس پر بھی "طبع آزمائی" ہورہی ہے۔ مدارس پر حکومتی کنٹرول کا مقصد ان کو "غیر موثر" کرنا ہے۔ اس ضمن میں بہاولپور کے جامعہ اسلامیہ کی مثال موجود ہے کہ جسے حکومت نے اپنے کنٹرول میں لیا اور چن چن کر جید علماء کو وہاں پر لگایا لیکن آج جامعہ اسلامیہ بہاولپور "مدرسہ" کی بجائے محض عام سی "یونیورسٹی" بن چکی ہے۔

موجودہ حکومت نے 14 مہینوں میں جتنا نقصان مدارس، علماء، اسلامی شعائر و عقائد خصوصاً عقیدہ ختم نبوت اور اس سے متعلقہ قوانین کو پہنچایا ہے اتنا مجموعی طور پر پچھلے 72 سالوں میں کوئی نہیں پہنچا سکا۔ ان سب میں سب سے خطرناک اور گہرا نقصان مدارس والا ہی ہے کیونکہ مدارس ہی ہماری علمی اساس ہے اگر مسلمانوں کی علمی اساس کو ہی "غیر موثر" کردیا جائے تو پھر "مغربی استعمار" اور ان کے ذہنی غلام نام نہاد حکمران طبقہ ہمارے ملک کا سپین سے بھی برا حال کردیں گے۔ ان تمام سنگینیوں کا مولانا کو اسوقت ہی ادراک ہوگیا تھا جب ملک کے بڑے مذہبی رہنماؤں کو 2018 کے الیکشن میں ایک ساتھ ہروایا گیا۔ مولانا نے پہلے مفاہمت اور افہام و تفہیم سے حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن حکومت سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھی اور نہ ہے۔ حکومت بشمول اس زعم میں ہے کہ اب تو میدان خالی ہے اور روکنے والا کوئی خاص نہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر مولانا نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور حکومت کو 15 ملین مارچز سے باور کرانے کی کوشش کی کہ میدان خالی نہیں لیکن دوسری طرف حکومت مغربی استعمار کے ایجنڈے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس لحاظ سے آزادی مارچ اور دھرنے کا پہلا پلان/ مقصد موجودہ حکومت کا گرانا ہے تاکہ مغربی استعماری ایجنڈے کا پورا راستہ روکا جاسکے، دوسرا پلان/مقصد، عمران نیازی کو ہٹانا ہے، تیسرا پلان/مقصد (کم ترین درجہ) "مقتدر اداروں" سے مدارس اور شعائر اسلام و عقائد خصوصاً عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی گارنٹی لینی ہے۔ موجودہ صورتحال اس امر کا متقاضی ہے کہ اسلام پسند اور مدارس کیلئے نرم گوشہ رکھنے والا ہر مسلمان، مولانا فضل الرحمن کی آواز پر لبیک کہے اور آزادی مارچ و دھرنے میں بھرپور شرکت کرکے حکومت کو اسلامیان پاکستان کی آواز سنائیں کہ یہ ملک اسلام کیلئے بنا ہے اور اسلام و مدارس اور اسلامی شعائر و عقائد اور قوانین کی ہر صورت حفاظت کی جائے گی۔