1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. جنت کی مٹی، جہنمی زندگی

جنت کی مٹی، جہنمی زندگی

یہ زمین جنت کی مٹی سے بنی تھی، یہاں آسمانوں سے برکتیں اترتی تھیں، یہاں پہاڑوں میں سونا دفن تھا، میدانوں میں اناج اگتا تھا، ندیوں سے دودھ جیسا پانی بہتا تھا اور اس مٹی کی خوشبو ایمان والوں کے دلوں میں گھر کر لیتی تھی۔ مگر آج اسی جنت کی مٹی میں ایسے انسان سانس لیتے ہیں جو دوزخ جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مسلمان ہو، یا پشتون ہو، بلوچ ہو یا کشمیری، فلسطینی ہو یا برمی، ہر جگہ ایک ہی کہانی ہے اپنے ہی گھروں میں قیدی، اپنے ہی وطن میں بے وطن، اپنی ہی زمین پر پردیسی اور اپنی ہی پہچان سے محروم۔

یہ خطے جہاں اللہ نے زمین کے خزانوں کی بھرمار کی، وہاں کے لوگ آج نانِ شبینہ کے محتاج ہیں۔ جن کے نیچے تیل کے سمندر، ان کے گھروں میں چراغ بھی بجھ چکے ہیں۔ جن کے آس پاس سونے کی کانیں، ان کی بیٹیاں آج زیور کے بجائے زخموں کا بوجھ اٹھائے پھر رہی ہیں۔ پشتون خوا، بلوچستان، کشمیر، فلسطین، برما، شام، یمن، سوڈان یہ سب مٹی کے وہ ٹکڑے ہیں جنہیں اللہ نے قدرتی حسن، وسائل، غیرت، غیرمعمولی انسانوں اور عقیدے کی روشنی سے نوازا تھا۔ مگر آج انہی علاقوں میں آگ لگی ہے، گولیاں برس رہی ہیں، بارود برس رہا ہے، آسمانوں پر ڈرون منڈلا رہے ہیں اور زمینوں پر بچے خون میں لت پت تڑپ رہے ہیں۔ یہ آزادی کے دعویدار علاقے، آج محکومی کا سب سے واضح عکس بن چکے ہیں۔

پشتون جس نے روس کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونا سیکھا، آج اپنی ہی زمین پر شناخت کی بھیک مانگ رہا ہے۔ کشمیری جس نے ہندو کے ظلم کو چیلنج کیا، آج قابض کی گولی کا سامنا کر رہا ہے۔ فلسطینی جس نے مسجدِ اقصیٰ کی اذان کے لیے جانیں قربان کیں، آج مسجد کے مینار کے سائے میں دفن ہو رہا ہے۔ یہ سب مسلم خطے، جنہیں خلافت کی وراثت ملی، جنہوں نے قرآن کو سینے سے لگایا، جنہوں نے محمد ﷺ کا کلمہ پڑھا، آج بے بس ہیں، بکھرے ہوئے ہیں، ایک دوسرے سے کاٹے گئے ہیں اور عالمی سازشوں کے پنجے میں جکڑے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں تعلیم کو سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا، تاکہ آنے والی نسل سوچنا چھوڑ دے۔

نصاب میں نفرت بھر دی گئی، یا جہالت۔ استاد یا تو مارا گیا، یا خریدا گیا۔ مدرسے، اسکول، یونیورسٹیاں بند ہوئیں، یا غلامی کی نرسریاں بن گئیں۔ ان خطوں میں اتحاد کو توڑنے کے لیے زبان، نسل، قبیلہ، رنگ اور لہجہ سب ہتھیار بنائے گئے۔ پشتو بولنے والا افغان کہلایا، پاکستانی نہیں، بلوچ کو غدار بنایا گیا، کشمیری کو دہشتگرد، فلسطینی کو مجرم، برمی مسلمان کو درندہ کہا گیا۔ ان کی آوازوں کو دبایا گیا، تحریکوں کو کچلا گیا، نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا، بوڑھوں کو تذلیل ملی، عورتوں کو عزت سے محروم کیا گیا، بچوں کو بچپن تک نہیں ملا۔

غریب اتنا ستایا گیا کہ اس نے احتجاج کا سوچنا چھوڑ دیا۔ مہنگائی نے اس کے ہاتھ سے روٹی چھین لی، بیماری نے اس کے جسم سے جان اور ریاستی جبر نے اس کی روح کو قید کر لیا۔ ہر طرف بارود کا راج ہے اور میڈیا پہ جھوٹ کی حکمرانی۔ جنہیں مظلوم کی آواز بننا تھا، وہ طاقتوروں کے ترجمان بن گئے۔ صحافت ایک کاروبار بن گئی اور عوام ایک بےجان ہجوم۔ اس جنتی مٹی پر آج وہ حکمران قابض ہیں جنہیں اپنے لوگوں سے زیادہ اپنے محلات کی حفاظت عزیز ہے۔ جن کے لیے عوام یوں ہیں جیسے ریوڑ کے جانور، جنہیں جب چاہا ہانکا، جب چاہا قربان کیا، جب چاہا خاموش کرا دیا۔ مالا مال ذخائر سے یہ قومیں محروم کی گئیں، ان پر قرضوں کے پہاڑ لاد دیے گئے، ان کے سمندر بیچے گئے، ان کے پہاڑوں کو لیز پر دے دیا گیا، ان کی زمینوں کو بارودی سرنگیں بنا دیا گیا۔

آج ایک پشتون مزدور دبئی کی عمارتیں اٹھا رہا ہے، مگر اپنے سوات میں ویرانی ہے۔ ایک کشمیری بچہ اسکول سے زیادہ جنازے دیکھ چکا ہے۔ ایک فلسطینی بچی کے ہاتھ میں کتاب کے بجائے پتھر ہے اور ایک برمی عورت کی گود میں بچہ نہیں، اس کے خاوند کی قبر کا نشان ہے۔ یہ المیہ صرف جغرافیے کا نہیں، یہ امت کی مردنی کا ہے۔ یہ بےحسی کا طوفان ہے، جہاں ہر طرف اپنے اپنے مفاد کا طوق گلے میں ڈالا گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے ہم پاکستانی ہیں، کوئی افغان، کوئی عرب، کوئی ترک، مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم مظلوم مسلمان ہیں، ایک امت، ایک زخم، ایک درد۔

ہم نے خود اپنے درمیان دیواریں کھڑی کیں اور پھر دشمن نے ان دیواروں پر توپیں رکھ دیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو روٹی کے لیے بیچا اور پھر ان کی عزت بھی نیلام کر دی۔ ہم نے جہالت پر فخر کیا، تعلیم کو کمتر جانا، قلم کو کچلا، کتاب کو بند کیا اور بندوق کو اپنا فخر بنایا۔ آج بھی وقت ہے کہ ہم اپنی جنتی مٹی کو دوبارہ جنت بنائیں۔ مگر یہ ممکن نہیں جب تک ہم اپنے بھائی کو پہچان نہ لیں، اپنی زبان، نسل، قبیلہ کے بجائے دین پر اکٹھے نہ ہوں اور اپنی غلامانہ سوچ کو دفن نہ کریں۔ ہمیں اپنے وسائل، اپنی زمین، اپنی ثقافت، اپنی زبان، اپنی تاریخ کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے قربانیاں دینی ہیں۔