پاکستان کی سیاست میں اچانک ابھرنے والی شخصیات ہمیشہ سے تجسس اور تنازع کا موضوع رہی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ایسے کردار بارہا منظرِ عام پر آئے جنہوں نے عوامی سطح پر بے پناہ مقبولیت حاصل کی، نعرے لگائے، تحریکیں چلائیں اور چند ہی ماہ یا سال میں غائب ہو گئے۔ طاہر القادری، صوفی محمد، منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ جیسے نام اس رجحان کی علامت ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ یہ سب سچے تھے یا جھوٹے، بلکہ یہ ہے کہ ان کے ظہور اور زوال کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے۔ ان سب میں ایک عجیب مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ اچانک ابھرنا، مخصوص نعروں کے ذریعے عوامی ہمدردی حاصل کرنا، چند مخصوص طبقات کو متاثر کرنا اور پھر بغیر کسی ٹھوس نتیجے کے منظر سے ہٹ جانا۔ کسی کی تحریک عدل کے نام پر چلی، کسی کی شریعت کے نام پر، کسی نے حقوق کی بات کی اور کسی نے انسانی ضمیر کوجھنجھوڑا، مگر انجام سب کا ایک سا نکلا خاموشی۔
طاہر القادری نے انقلاب کا نعرہ لگایا، لاکھوں افراد کو سڑکوں پر لایا، مگر آخرکار نہ انقلاب آیا، نہ انصاف ملا۔ صوفی محمد نے شریعت کے نفاذ کے نام پر ریاست کو للکارا، مگر انجام ایک خاموش گرفتاری اور تدریجی گمشدگی پر ہوا۔ منظور پشتین نے قبائلی عوام کے حقوق کی بات کی، دنیا نے سنا، مگر رفتہ رفتہ وہ بھی پس منظر میں چلے گئے۔ ماہ رنگ بلوچ ایک پرعزم خاتون کے طور پر سامنے آئیں، جنہوں نے گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھائی، مگر وہ بھی اچانک غائب ہوگئیں۔ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ ریاستی ریڈ لائنز کا لمس۔ جب کوئی کردار ان لائنوں کے قریب پہنچتا ہے یا انہیں عبور کرتا ہے، تو اس کا انجام یا تو خاموشی، یا بدنامی، یا زبردستی کی گمشدگی ہوتا ہے۔
پاکستان میں سیاست اور طاقت کا رشتہ کبھی مساوی نہیں رہا۔ یہاں طاقت کا مرکز ہر اُس آواز سے خائف رہا ہے جو بیانیے سے ہٹ کر بولے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بغاوت کو بھی منصوبے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور انقلاب کو بھی۔ جب کوئی تحریک اپنے مقررہ دائرے سے نکلنے لگتی ہے، تو اسے ختم کر دیا جاتا ہے کبھی کردار کشی کے ذریعے، کبھی غداری کے الزام سے اور کبھی اچانک منظر سے غائب کرکے۔ اس طرح عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ سچ بولنے والے یا تو پاگل ہوتے ہیں یا دشمن کے ایجنٹ۔ اصل مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے کی روایت ختم ہو جائے۔ مسئلہ ان شخصیات سے زیادہ عوامی رویے کا ہے۔
ہم ہر نئی شخصیت کو مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، مگر سوال نہیں کرتے کہ وہ کہاں سے آئی، کس نے اسے پروموٹ کیا اور وہ اچانک کیوں غائب ہوگئی۔ یہی بے خبری دراصل طاقت کے نظام کی بنیاد ہے۔ جب تک عوام شعور سے محروم رہیں گے، اس کھیل کے کردار بدلتے رہیں گے مگر کہانی وہی رہے گی۔ طاقت کے اس دائرے میں سچ کہنا سب سے بڑا جرم ہے۔ جو بولتا ہے وہ یا مٹا دیا جاتا ہے یا خاموش کر دیا جاتا ہے۔ جو جھک جاتا ہے وہ محفوظ رہتا ہے اور جو ڈٹ جاتا ہے وہ نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ یہی وہ کڑوی حقیقت ہے جو پاکستان کی سیاست کو ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں قید رکھتی ہے۔
سوال اب یہ نہیں کہ اگلا چہرہ کون ہوگا، بلکہ یہ ہے کہ عوام کب سمجھیں گے کہ اصل طاقت چہروں میں نہیں، شعور میں ہے۔ جب تک لوگ سوال نہیں کریں گے، ان کی آوازیں استعمال ہوتی رہیں گی۔ اس ملک میں تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور اپنے ذہن سے سوچنا سیکھے۔ یہی وہ لمحہ ہوگا جب سچ کی سزا خاموشی نہیں، تبدیلی بنے گی۔