1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. منہ خرگوش کا اور نوالہ اونٹ کا

منہ خرگوش کا اور نوالہ اونٹ کا

عالم اسلام کی موجودہ حالت کو اگر ایک جملے میں سمیٹنا ہو تو وہ یہی ہوگا: منہ خرگوش کا، نوالہ اونٹ کا۔ ارادے ایسے جیسے زمین و آسمان فتح کرنے ہیں اور تیاری ایسی جیسے مدرسے کی پہلی جماعت کا بچہ جنگی پالیسی بنانے نکلا ہو۔ ہمیں خلافت راشدہ جیسی حکمت، صلاح الدین ایوبی جیسی شجاعت، ابن تیمیہ جیسی جرأت اور نورالدین زنگی جیسا ویژن درکار ہے، مگر ہم بحث کرتے ہیں کہ کپڑے ٹخنوں سے اوپر ہوں یا نیچے، مدرسہ یا اسکول، دیوبند یا بریلوی، سنی یا شیعہ، عرب یا عجم۔

ہمارے پاس تاریخ کے عظیم ترین فتوحات کے باب ہیں، مگر ہم نے انہیں فیس بک پوسٹ بنا کر محفوظ سمجھ لیا ہے۔ ایک ارب سے زائد مسلمان دنیا میں موجود ہیں، مگر اقوام متحدہ میں ہماری حیثیت اتنی ہے جیسے خرگوش جنگل کے شیر سے پوچھے کہ کیا آج کا شکار میں طے کروں؟ ہمارے پاس وسائل بے شمار، زمینیں بے انتہا، تیل کے سمندر، قدرتی گیس کے ذخائر، نوجوانوں کی بھرمار، مگر ان سب پر قبضہ یا تو سرمایہ دار کا ہے یا کرپٹ لیڈر کا۔ ہم ایک ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پر دشمن کے بنائے گئے گیم کھیلتے ہیں اور پھر دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں اسرائیل پر فتح دے دے۔

آج عالم اسلام کی معیشت عالمی منڈی کے رحم و کرم پر ہے، ہماری زبانیں کلامِ الٰہی کی وارث ہیں، مگر ہم اس زبان کو خود نہیں سمجھتے، قرآن ہم نے حفظ کیا مگر نظام حیات کے طور پر قبول نہیں کیا۔ ہم امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف دے اور ساتھ میں اس کی چاکلیٹ، فیشن، میوزک اور ٹیکنالوجی کو عبادت سمجھ کر اپناتے ہیں۔ ہم اقوام عالم سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب ختم کرو اور خود اپنے ملک میں مسلک کے نام پر مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ ہم بیت المقدس کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں اور بیت المال کو خود لوٹتے ہیں۔

ہم کہتے ہیں کہ امت مسلمہ ایک جسم ہے، مگر ہمیں دوسرے مسلمان کی تکلیف کا احساس تب ہوتا ہے جب واٹس ایپ پر تصویر وائرل ہو جائے۔ ہم دشمن کے میڈیا سے متاثر ہو کر خود اپنی تہذیب کو پسماندہ کہتے ہیں اور اپنی ماں بہن بیٹی کو "ماڈرن" بنانے کے لیے ان پر بھی مغربی اقدار تھوپتے ہیں۔ ہم چین، روس، امریکہ، یورپ کی خارجہ پالیسیوں کو سمجھنے میں اتنے ماہر ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی خود ان ہی کے تھنک ٹینک سے بنواتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین آزاد ہو مگر ہم یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بھی دوسرا موبائل ماڈل دیکھتے ہیں کہ کہیں اسرائیلی چِپ تو نہیں۔ ہم کشمیر کی آزادی کا دن مناتے ہیں اور پھر اسی دن فیس بک پر فلمی گانے لگاتے ہیں۔

ہم روایتی دشمنوں کو بددعائیں دیتے ہیں اور نظریاتی دشمنوں کو اپنی نصاب میں جگہ دیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ امت متحد ہو مگر ہر نماز کے بعد فرقہ وارانہ ٹرینڈ چلاتے ہیں۔ ہم یوٹیوب پر امت کے مسائل پر ویڈیو دیکھ کر "لاحول ولا قوۃ" لکھتے ہیں اور ساتھ ہی فحش مواد پر بھی نظریں رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران عادل ہوں، مگر ووٹ دیتے وقت ذات، برادری، مفاد اور وڈیرے کی بات مانتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ بند ہو، مگر ہم ہی اپنے بہن بھائیوں کی کردار کشی میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ عالمی طاقتیں ہمیں مذہب سے دور کرنا چاہتی ہیں اور ہم خود دین کو صرف جمعہ، شادی اور جنازے تک محدود رکھتے ہیں۔ ہم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور اس کا مطلب صرف سستے ٹماٹر اور مفت آٹا سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خلافت صرف ایک ویڈیو سیریز ہے اور جہاد صرف ایک متنازعہ لفظ۔ ہم سنت کو لباس تک محدود رکھتے ہیں اور اخلاق کو مزاحیہ موضوع بناتے ہیں۔ ہم تلوار کی بات کرتے ہیں مگر دل میں بزدلی چھپی ہوتی ہے، ہم دعوت کی بات کرتے ہیں مگر اخلاق سے محروم ہوتے ہیں۔ ہم نعرہ مارتے ہیں کہ اسلام امن کا دین ہے اور اگلے لمحے فرقہ وارانہ پوسٹ شیئر کرتے ہیں۔ ہم خلافت عثمانیہ کے زوال پر افسوس کرتے ہیں، مگر خود اپنی ماں کو "اوئے" کہہ کر بلاتے ہیں۔

عالم اسلام کی حالت ایسی ہے جیسے اونٹ کا نوالہ ایک خرگوش کے منہ میں زبردستی گھسا دیا جائے، نہ نگلا جائے نہ چھوڑا جائے۔ طاقت، مال، افرادی قوت سب ہونے کے باوجود ہم مغرب کے چشمِ عنایت کے محتاج بن چکے ہیں۔ ہم امریکہ کو شیطانِ اکبر کہتے ہیں اور اسی کے تعلیمی اسکالرشپ کے لیے دوڑتے ہیں، ہمیں فرانس کی گستاخی پر غصہ آتا ہے اور پھر اسی کی فیشن انڈسٹری سے متاثر ہو کر اپنی تہذیب کو دقیانوسی کہتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر "کفار کے ایجنڈے" کا پردہ فاش کرتے ہیں اور انہی کے پلیٹ فارم پر رات بھر ٹرینڈ چلاتے ہیں۔

عالم اسلام کے رہنماؤں کے اجلاس ایسے ہوتے ہیں جیسے کبوتر بلی کے آنے پر آنکھ بند کرکے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، ہاتھ ملاتے ہیں، اعلامیہ جاری کرتے ہیں اور اپنے خزانوں میں اضافے کی دعا مانگتے ہیں۔ عالم کفر نے ہمیں مذہبی جذبات میں الجھا کر، جذباتی نعرے دے کر، ہمیں اپنی حقیقت سے غافل کر دیا ہے۔ وہ ہمیں انتہا پسند اور پسماندہ قرار دے کر خود ہماری نسلیں انٹرٹینمنٹ کی لت میں ڈال چکے ہیں۔ ہمارے بچوں کو پتہ ہے کہ سپائڈر مین کی بیوی کا نام کیا ہے، مگر نہیں پتہ کہ زید بن ثابت کون تھے۔ ہماری ماؤں کو معلوم ہے کہ لائٹ فاؤنڈیشن کیا ہوتی ہے، مگر نہیں معلوم کہ سیدہ فاطمہؓ کا جہیز کیا تھا۔ عالم اسلام کے نوجوان یوٹیوب، انسٹاگرام، فری فائر، پب جی اور نیٹ فلکس کے سرتاج ہیں، مگر دین، تاریخ، تہذیب اور وقار سے ناآشنا۔

ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ سچ بولنے سے ہمیں نقصان ہوگا اور جھوٹ بولنے سے رشتہ، نوکری یا ترقی مل جائے گی۔ ہم آج بھی دشمن کو فتح کرنا چاہتے ہیں، مگر پہلے دشمن کے کلچر کو اپنا کر، اس کی زبان بول کر، اس کے خیالات کو حق مان کر۔ ہم آج بھی دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ مسلمانوں کو عروج دے، مگر سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنے دل، دماغ، تہذیب اور جسم سب دشمن کو گروی رکھ دیے ہیں۔ ہم خواب دیکھتے ہیں اسلامی انقلاب کے، مگر خوابوں میں بھی حوریں ہی دیکھتے ہیں، نظام نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کوئی آئے اور سب کچھ ٹھیک کر دے اور خود کچھ نہ کریں۔

منہ خرگوش کا ہے اور نوالہ اونٹ کا کیونکہ ہمیں لگتا ہے صرف دعاؤں سے تبدیلی آ جائے گی، صرف رونے سے عزت لوٹ آئے گی، صرف نعرے لگانے سے خلافت آ جائے گی اور صرف غصہ کرنے سے دشمن ختم ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی تقدیر نظریات، کردار، قربانی اور عمل سے بدلی جاتی ہے، خرگوش اگر اونٹ کا نوالہ لینا چاہے تو پہلے اپنے ظرف، ہمت اور حلق کو بڑا کرنا پڑے گا، ورنہ دم گھٹنے میں دیر نہیں لگتی۔