1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. 750 لوگوں کو پھانسی دینے والا

750 لوگوں کو پھانسی دینے والا

پھانسی پانے والے قیدی اکثر آخری پیغام کیا دیتے ہیں۔ جلاد کو پھانسی دینے پر کتنا معاوضہ ملتا ہے۔ پھانسی دینے سے پہلے جلاد مجرم کے کان میں کیا کہتے ہیں۔ اگر پھانسی کے بعد مجرم کی جان نہ نکلے تو کیا ہوتا ہے۔ پھانسی کے بعد مجرم کتنے دیر تک لٹکا رہتا ہے۔ مجرم کی موت کی تصدیق کس طرح کی جاتی ہے۔ اور پھانسی کیوں صبح دی جاتی ہے۔ اسکے بارے جلاد لال مسیح کے متعلق آج قارئین کو آگاہ کیا جائے گا کہ کس طرح اس نے 750 لوگوں کو پھانسیاں دی۔

ریٹائرڈ جلاد لال مسیح لاہور میں 1955 میں پیدا ہونے والا معروف جلاد تارہ مسیح کا سالہ ہے، اور اپنے خاندانی جلاد ہونے پر فخر کرتا ہے۔ تارہ مسیح وہ جلاد ہے۔ جسکے والد نے معروف حریت پسند بھگت سنگھ کو پھانسی دی تھی۔ اور خود تارہ مسیح نے پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا۔ جسکا معاوضہ اس وقت کے حکومت نے 25 روپے ادا کیا۔ اپنے بہنوئی تارہ مسیح کی وفات کے بعد لال مسیح 1984میں بطور جلاد پولیس میں بھرتی ہوا۔ اس جلاد کا نام سنتے ہی بہت سے لوگوں کے تصور ذہین میں آتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ جسکی زندگی کا خاتمہ کرنے جارہا ہے وہ سزا کا حقدار تھا یا نہیں۔ انہیں صرف اپنی ڈیوٹی ادا کرنی ہوگی۔

لال مسیح کے مطابق پاکستان میں پھانسی کے وقت چار لوگ مجرم کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ وکیل۔ جج۔ پولیس ایس پی اور ڈاکٹر۔ عموماً ایس پی پھانسی پانے والے سے اسکے آخری خواہش پوچھتا ہے۔ زیادہ تر مجرم اپنے بچوں کو پیار پہنچانے کا اظہار کرتے ہیں۔ 1985 تک پھانسی کا یہ عمل مجرم کے لواحقین کو بھی لائیو دیکھنے کی اجازت تھی۔ تاہم سابق وزیراعظم محمدخان نے پہلی بار یہ آرڈر دئیے کہ لواحقین کو اپنے پیاروں کی پھانسی کا عمل دکھانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سارا عمل دکھانے کے بجائے ڈیڈ باڈی انکے ورثاء کے حوالہ کی جائے۔ لال مسیح کے مطابق جب مجرم پھانسی کے گارڈ کے سامنے لایا جاتا ہے۔ تو اسے کالے رنگ کا ماسک پہنایا جاتا ہے۔ تاکہ مجرم اس ماسک سے باہر کا منظر نہ دیکھ سکے۔ ماسک پہنانے کے بعد پھانسی کے گارڈ پر گھمبیر خاموشی چھا جاتی ہے اور باقائدہ پھانسی کی اجازت ایس پی کے ہاتھ ہلانے سے دی جاتی ہے۔ مجرم کو پھانسی گارڈ پر لانے کے بعد گردن میں پھانسی باندھنا بھی جلاد کے فرائض میں شامل ہے۔ یہ رسی اس انداز سے باندھی جاتی ہے۔ کہ مجرم کا سر اس سے نہ نکل سکے۔ جب لال مسیح کسی مجرم کو پھانسی دینے کیلئے لیور کھنچے لگتے ہی تو اسکے کان میں آہستہ بتاتی ہے کہ مجھے آپکی پھانسی دینے نہ دینے سے کو غرض نہیں ہے، میں صرف اپنی ڈیوٹی ہی نبھا رہاہوں۔ پھر پھانسی کے لیور کھنچنے کیلئے خود جاتا ہے۔ ایس پی کی اجازت کا انتظار کرتا ہے۔ اجازت ملتے ہی لال مسیح لیور کھینچتا ہے۔ مجرم کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھلتا ہے اور مجرم کی گردن لکڑی کے فریم میں پھس جاتی ہے اور زمین سے پانچ فٹ اونچے ہوتے ہی موت کی نیند میں ڈوب جاتا ہے۔

لال مسیح بتاتا ہے کہ پھانسی پانے والے مجرم کو20 منٹ تک لٹکانا لازمی ہے۔ اسکے بعد اسکے لٹکے ہوئے جسم اور دونوں ہاتھ کالے رنگ پکڑ کر ہمیں موت کی تصدیق کی علامت دیتی ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر بھی مجرم کی موت کی تصدیق کرتا ہے۔ متعلقہ پیپرز پر دستخط کرتا ہے۔ اور لاش ورثاء کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ لال مسیح نے اپنے بے شمار قاتلوں سے لیکر ٹاپ دہشتگردوں اور اشتہاروں کو بھی اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں دی ہیں۔ دن میں کئی پھانسیاں سرعام دی ہے۔ لال مسیح کی تنخواہ 450 روپے تھی۔ جہاں بھی مجرم کو پھانسی دی جاتی وہاں لال مسیح کو طلب کیا جاتا۔ بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں جلاد کو ایک مجرم کو پھانسی دینے پر 10000 دیتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق اگر پاکستان میں بھی اتنے رقم جلاد کو دی جائے تو سالانہ بہت بڑی رقم بنے گی۔ اس نے مزید کہا کہ مجرم کو صبح اس لئے پھانسی دی جاتی ہے کہ صبح کے وقت انسانی جسم کے تمام اعضا نارمل کنڈیشن میں ہوتے ہی اور مجرم کو پھانسی کے وقت تکلیف نہیں دیتے۔

لال مسیح بتاتے ہے کہ میں نے سب سے کم عمر مجرم 16سال اور سب سے زیادہ عمر 55سال والے کو پھانسی دی ہے۔ اس عمل کو عوام سے پوشیدہ کرنا اس لیئے کیا کہ برٹش زمانے میں کئی دفعہ مجرمیں کو پھانسی دینے سے حالات کشیدہ ہوئے تو یہ فیصلہ ہوا کہ مجرم کو پھانسی دینے کیلئے خاص ٹیم کے بغیر عوامی افراد کی شمولیت ممنوع ہے بغیر مقتول وال کی گھرانے سے۔