آہ کر کہ واہ کر، یہی ہماری قومی کہانی ہے، یہی ہمارا اجتماعی المیہ ہے۔ جب اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھنے والے دھاندلی، جعلی ووٹوں اور سیاسی جوڑ توڑ سے کرسی حاصل کرتے ہیں تو ہم آہ کرتے ہیں، پھر انہی کے جلسوں میں نعرے لگا کر واہ کرتے ہیں۔ آہ کہ اس ملک میں میرٹ دفن ہوا، انصاف کا ترازو بک گیا اور واہ کہ انہی ظالموں کو ہم نجات دہندہ کہہ کر سلامی دیتے ہیں۔
آہ کہ مزدور کا پسینہ خون بن گیا، کسان کی زمین بینکوں کے قرضوں میں گم ہوگئی اور واہ کہ سرمایہ دار کے محلات میں روشنیوں کے جشن منائے گئے۔ آہ کہ نوجوان تعلیم کے باوجود بے روزگار ہے، واہ کہ سفارشیوں کے بچوں کو وزارتوں کے دفتر ملے۔ آہ کہ عوام روٹی، بجلی، گیس کے بلوں تلے دب گئی، واہ کہ حکمران بیرونِ ملک شاپنگ کے تصویریں شیئر کرتے ہیں۔ آہ کہ مہنگائی نے ہر دسترخوان کی رونق چھین لی، واہ کہ وزیر خزانہ ترقی کے خواب دکھاتا ہے۔ آہ کہ کرپشن نے نظام کو کھوکھلا کر دیا، واہ کہ ہم انہیں "سیاسی بصیرت" کہہ کر داد دیتے ہیں۔ آہ کہ امن و امان کے نام پر خوف بانٹا گیا، واہ کہ جلسوں میں نعرے لگے کہ "نیا پاکستان بنے گا"۔
آہ کہ قانون امیروں کے لیے نرم اور غریبوں کے لیے پھندا بنا، واہ کہ انصاف کے دعوے کرنے والے وی آئی پی پروٹوکول میں گم ہیں۔ آہ کہ ادارے کمزور، عدلیہ متنازع، پولیس سیاسی غلام بنی، واہ کہ انہی کو نظام کے محافظ کہا گیا۔ آہ کہ تعلیم تجارت بن گئی، واہ کہ یونیورسٹیوں میں جعلی ڈگریوں کے بیوپاری استاد بنے۔ آہ کہ صحت غریب کے لیے خواب، واہ کہ امیروں کے لیے بیرونِ ملک علاج معمول۔ آہ کہ صحافت ضمیر فروشوں کے ہاتھوں بک گئی، واہ کہ وہی اینکرز قوم کے رہنما بن گئے۔ آہ کہ عوام احتجاج کرتی ہے تو گولیاں کھاتی ہے، واہ کہ سیاسی رہنما اسے اپنی مقبولیت کی علامت بنا لیتے ہیں۔
آہ کہ مذہب کو سیاست کا ہتھیار بنایا گیا، واہ کہ ہم انہی کے نعرے لگا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ آہ کہ اخلاقیات مر گئی، واہ کہ فریب و منافقت کو عقل مندی سمجھا گیا۔ آہ کہ سڑکوں پر انصاف مانگنے والے تھانے میں مجرم ٹھہرے، واہ کہ کرسیوں پر بیٹھے قاتل پارلیمان میں قانون بناتے ہیں۔ آہ کہ بیٹی کی عزت خطرے میں، بیٹے کا مستقبل اندھیرے میں، واہ کہ حکمرانوں کے بچے بیرونِ ملک محفوظ۔ آہ کہ وعدے پورے نہ ہوئے، واہ کہ ہم پھر بھی اگلے الیکشن میں انہی وعدوں کے اسیر۔ آہ کہ جھوٹ کو سچ کہا گیا، واہ کہ سچ کہنے والا غدار ٹھہرا۔
آہ کہ زبانیں خوف سے بند، واہ کہ درباری قلم طاقت کے ترانے لکھتے ہیں۔ آہ کہ عوام کا اعتماد ٹوٹا، واہ کہ حکمرانوں کی تقریریں امید کا لبادہ اوڑھ کر آتی ہیں۔ آہ کہ ہم ہر زخم پر صبر کرتے ہیں، واہ کہ وہ ہر زخم کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ آہ کہ ملک قرضوں میں ڈوبا، واہ کہ وزیر خزانہ خوشخبری سناتا ہے کہ امداد مل گئی۔ آہ کہ ہم روز مر رہے ہیں، واہ کہ وہ کہتے ہیں "معیشت درست سمت میں ہے"۔
آہ کہ ضمیر نیلام ہوئے، واہ کہ بولیاں لگانے والے ملک کے فیصلے کرتے ہیں۔ آہ کہ عوام رو رہی ہے، واہ کہ اقتدار کے ایوانوں میں قہقہے گونج رہے ہیں۔ آہ کہ ہم تبدیلی کے انتظار میں ہیں، واہ کہ وہی پرانے چہرے نئے وعدوں کے ساتھ آ رہے ہیں۔ آہ کہ ہمیں انصاف چاہیے، واہ کہ وہ ہمیں نعرے دیتے ہیں۔ آہ کہ ہمیں روزگار چاہیے، واہ کہ وہ ہمیں بھاشن دیتے ہیں۔ آہ کہ ہمیں سکون چاہیے، واہ کہ وہ ہمیں خواب دکھاتے ہیں۔ آہ کہ ہمیں سچ چاہیے، واہ کہ وہ ہمیں فریب دیتے ہیں۔ آہ کہ ہم غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں، واہ کہ وہ ہمیں نئی زنجیر پہنا دیتے ہیں۔ آہ کہ ہمارا صبر ہمارا جرم بن گیا، واہ کہ ان کا ظلم ان کی سیاست بن گئی۔
آہ کہ یہ ملک عظیم خواب تھا، واہ کہ یہ حقیقت تلخ داستان بن گئی۔ آہ کہ ہم نے قربانیاں دیں، واہ کہ انہوں نے اقتدار پایا۔ آہ کہ ہم مایوسی کے اندھیروں میں ہیں، واہ کہ وہ آس کے چراغ جلا کر اپنی تصویریں کھنچواتے ہیں۔ آہ کہ ہم روٹی کے لیے لائن میں کھڑے ہیں، واہ کہ وہ پروٹوکول میں گزر جاتے ہیں۔ آہ کہ ہم انصاف مانگتے ہیں، واہ کہ وہ عدالتوں پر ہنستے ہیں۔ آہ کہ ہم ووٹ سے تبدیلی چاہتے ہیں، واہ کہ وہ ووٹ سے دھاندلی کرتے ہیں۔ آہ کہ ہم خاموشی سے مرتے ہیں، واہ کہ وہ بلند آواز میں زندہ باد کہتے ہیں۔ آہ کہ ہم مایوسی کی راکھ میں جل رہے ہیں، واہ کہ وہ امید کے نعرے لگا کر ووٹ بٹورتے ہیں۔
آہ کہ ہم سوال کرتے ہیں، واہ کہ وہ الزام لگاتے ہیں۔ آہ کہ ہم ٹوٹتے ہیں، واہ کہ وہ جیتتے ہیں۔ آہ کہ ہم روتے ہیں، واہ کہ وہ جشن مناتے ہیں۔ آہ کہ ہمارا ملک زخموں سے چور ہے، واہ کہ وہ اقتدار کے نشے میں مست ہیں۔ آہ کہ تاریخ ہمیں دہرا رہی ہے، واہ کہ ہم پھر بھی نہیں بدل رہے۔ آہ کر کہ واہ کر، ہم زندہ قوم ہیں مگر بےحس، ہم باشعور ہیں مگر بےعمل، ہم امید رکھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ آہ کہ ظلم کے خلاف اٹھنے والے تھک گئے، واہ کہ ظلم کرنے والے مضبوط تر ہو گئے۔
آہ کہ ہم خواب دیکھتے ہیں، واہ کہ وہ خواب چراتے ہیں۔ آہ کہ ہم برباد ہو رہے ہیں، واہ کہ وہ ترقی کے دعوے کر رہے ہیں۔ آہ کہ ہم غلامی کے سائے میں جیتے ہیں، واہ کہ وہ ہمیں آزادی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ آہ کہ ہم اپنی تباہی کے تماشائی ہیں، واہ کہ وہ اسی تماشے کے ہدایت کار۔ یہی ہے پاکستان کی داستان آہ عوام کی، واہ حکمرانوں کی۔