1. ہوم
  2. غزل
  3. کرن ہاشمی
  4. نہ رہی دل کی وہ دنیا، نہ وہ آباد رہی

نہ رہی دل کی وہ دنیا، نہ وہ آباد رہی

نہ رہی دل کی وہ دنیا، نہ وہ آباد رہی
اک نظر تیری جو گزری، مری بنیاد رہی

میں نے دیکھا تری آنکھوں میں کئی موسم تھے
ایک لمحہ بھی مگر ان میں نہ دلشاد رہی

کچھ فسوں تجھ میں تھا، باقی مری تنہائی میں
اس محبت کی حقیقت بھی تو برباد رہی

میں نے مانگا تھا سکوں، درد عطا کرکے گیا
زندگی تیری محبت سے ہی دلشاد رہی

چاندنی رات میں جب چاند اُداسی سے ملا
میرے دل پر وہ نظر جیسے کوئی یاد رہی

کتنے سپنے تھے جو بکھرے ترے کوچے میں کہیں
ہم سمٹنے کو بڑھے، راہ میں بنیاد رہی

میں نے ہر بات کو دیکھا تری تصویر کرن
اور تصویر کے چہرے پہ وہ امداد رہی