1. ہوم
  2. کرن ہاشمی
  3. صفحہ 1

مایوسی کے بادل

کرن ہاشمی

مایوسی کا بادل، کوئی گھنا اور بوجھل سایہ تھا جو شہر کے ایک چھوٹے سے کونے میں، ایک بوسیدہ سے گھر کی چھت پر مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے تھا۔ اس بادل کی اپنی کوئی شکل نہ

مزید »

زخم دینا ہے اُس کی فطرت میں

کرن ہاشمی

زخم دینا ہے اُس کی فطرت میں درد مہکے ہیں اس کی الفت میں جانے والا بھی ایسا بچھڑا ہے چھوڑ آیا ہے خود کو عجلت میں خود شناسی ہوئی ہے دوری سے میں تو کھوئی تھی تیر

مزید »

بات نکلی ہے جو زباں سے اب

کرن ہاشمی

بات نکلی ہے جو زباں سے اب تیر چُھوٹا ہے اک کماں سے اب تیری نظروں میں عیب ہیں سارے کیا ہے پنہاں ترے گماں سے اب جانے بھٹکیں گے وہ کہاں سب ہی پنچھی بچھڑے ہیں آشی

مزید »

تو مجھے نیک نام رہنے دے

کرن ہاشمی

تو مجھے نیک نام رہنے دے مجھ میں میرا مقام رہنے دے یہ تعلق تو بس دکھاوا ہے منہ سے جھوٹا سلام رہنے دے تو بھی انسان بن درندے سے پر یہ مشکل ہے کام، رہنے دے میری

مزید »

یہاں ایسی فضا سہمی ہوئی ہے

کرن ہاشمی

یہاں ایسی فضا سہمی ہوئی ہے کہ بادل میں گھٹا سہمی ہوئی ہے چمن کے پھول بھی نوحہ کناں ہیں پرندوں کی صدا سہمی ہوئی ہے مسلسل بھوک ہے رقصاں یہاں پر خودی، نخوت، انا

مزید »