مایوسی کا بادل، کوئی گھنا اور بوجھل سایہ تھا جو شہر کے ایک چھوٹے سے کونے میں، ایک بوسیدہ سے گھر کی چھت پر مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے تھا۔ اس بادل کی اپنی کوئی شکل نہ تھی، بس ایک دھندلی سی اداسی تھی جو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی۔ گھر کے اندر رہنے والا شخص، اکرم، اس بادل کا برسوں سے ساتھی تھا۔
اکرم کی زندگی کبھی رنگوں سے بھری تھی، خواب تھے، امنگیں تھیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ سارے رنگ اس مایوسی کے بادل کی دھند میں مدھم پڑ گئے تھے۔ اب اس کی صبحیں بے کیف ہوتیں اور راتیں بے خواب۔ اسے لگتا تھا جیسے اس بادل نے اس کی روح کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے، جہاں نہ کوئی روشنی تھی نہ کوئی حرارت۔
ایک دن، اکرم گھر کی چھت پر بیٹھا اس بادل کو گھور رہا تھا۔ اچانک، ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور اس بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر اڑ گیا۔ اکرم نے حیرت سے اس ٹکڑے کو فضا میں تحلیل ہوتے دیکھا۔ یہ ایک لمحے کے لیے تھا، لیکن اس لمحے میں اکرم کو ایک ہلکی سی روشنی کی کرن محسوس ہوئی۔
اس دن کے بعد، اکرم نے ہر صبح چھت پر جانا شروع کر دیا۔ وہ اس امید میں رہتا کہ شاید ہوا کا کوئی اور جھونکا آئے اور اس بادل کا کوئی اور حصہ اڑا لے۔ رفتہ رفتہ، وہ بادل چھوٹا ہوتا گیا اور اس کے ساتھ ہی اکرم کے دل پر چھایا بوجھ بھی ہلکا ہونے لگا۔
ایک صبح، جب سورج کی سنہری کرنیں شہر پر پھیل رہی تھیں، اکرم نے دیکھا کہ مایوسی کا وہ بادل بالکل غائب ہو چکا ہے۔ چھت پر صاف نیلا آسمان تھا۔ اکرم نے گہری سانس لی۔ برسوں بعد اسے اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس ہوئی۔ وہ جان گیا تھا کہ جیسے گھنی اور مستقل مایوسی امید کے یقین میں ماند پڑ گئی ہو اور مایوسی کے سائے ہار مان کر یوں بے اثر ہو چکے ہوں کہ آسمان پھر سے روشن ہو کر عدن کی کرنوں سے کھل اٹھا ہے۔