صحرا کی خاموشی میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی ہلکی ہلکی آوازیں گونج رہی تھیں۔ دور کہیں مغرب کی اذان کی مدھم سی صدائیں فضاؤں میں بکھر رہی تھیں۔ آسمان پر سرخی مائل دھوپ کے آخری ذرے تھک کر افق کی گود میں چھپنے کو تھے۔ لیکن ان دو سواروں کے دلوں میں کوئی روشنی باقی نہ تھی۔
رکن الدین بیبرس اور قالون الصالحی، وہی جنہوں نے کبھی سلطان صالح ایوب کے جھنڈے تلے صلیبیوں کے خلاف معرکہ آرائی کی، اب خود تاریخ کے سنگ میل پر کھڑے تھے۔ وہ زمانہ ابھی زیادہ پرانا نہیں گزرا تھا جب عزالدین ایبک اور فارس الدین اکتائی، مملوکوں کے دو بڑے امیر، صالح ایوب کے ساتھ صف آرا تھے۔ ان دونوں نے اپنی وفاداری، بہادری اور جنگی مہارت سے وہ مقام حاصل کیا جو مملوک تاریخ میں بہت کم بہادروں کو نصیب ہوا۔ قطز، جو اُس وقت ایبک کا خاص امیر اور ایک ابھرتا ہوا مملوک تھا، ایبت کے زیرِ قیادت جنگی فنون سیکھ رہا تھا اور مستقبل کے اقتدار کی سیڑھیاں چپ چاپ چڑھ رہا تھا۔
ان کی سب سے بڑی آزمائش صلیبی جنگیں تھیں۔ فرانسیسی بادشاہ لوئیس نہم کی قیادت میں جب صلیبی لشکر مصر پر حملہ آور ہوا، تو منصورہ کی جنگ میں تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوا۔
اس جنگ میں، فارس الدین اکتائی کی سربراہی میں لڑنے والے بیبرس نے وہ چال چلی جو صدیوں یاد رکھی جائے گی۔ منصورہ کے دروازے کھلوا کر صلیبیوں کو شہر کے اندر بلا لیا گیا اور پھر انہیں گلیوں میں ایسے گھیر کر نشانہ بنایا گیا کہ ان کا پورا لشکرتباہ ہوگیا۔ اتنی ہولناک تباہی کہ صرف پانچ سپاہی زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکے، جبکہ خود بادشاہ لوئیس نَویں قیدی بن گیا، ایک ایسا منظر جو عیسائیوں کے غرور کے منہ پر طمانچہ تھا۔
دوسری بار، جب سلطان صالح ایوب کی وفات کے بعد اس کے بیٹے توران شاہ نے تخت سنبھالا۔ فریسکرکے مقام پر صلیبیوں کا ایک اور حملہ پسپا کیا گیا اور لوئیس کی قید کی توثیق ہوگئی۔ مگر سلطنت کی اندرونی سیاست نے میدان جنگ کی فتوحات کو مٹی میں ملانا شروع کر دیا۔
توران شاہ، جو بیعت اور خدمت کا اہل نہ تھا، رفتہ رفتہ ان مملوک امیروں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا جنہوں نے سلطنت کو زندہ رکھا تھا اور بالآخر، قصر میں شمعیں ابھی بجھی نہ تھیں کہ توران شاہ کو قتل کر دیا گیا۔
تاریخ ایک اور غیر معمولی موڑ پر آئی۔
صالح ایوب کی بیوہ، شجرالدر، تخت پر بیٹھ گئی۔ ایک عورت کا تاج دار بننا، اس وقت کے روایتی معاشرے میں ناقابلِ قبول مگر حقیقت بن گیا۔
عزالدین ایبک، جو بظاہر مملوکوں کے نمائندہ کے طور پر تخت پر بٹھایا گیا تھا، آہستہ آہستہ مطلق العنان بنتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی قطز، جو کبھی خاموشی سے جنگی علم حاصل کرتا تھا، اب ایبک کے سب سے قریبی اور قابل اعتماد امیروں میں شامل ہو چکا تھا۔
اکتائی کے قتل کے پس منظر میں عزالدین ایبک کا نام سب سے نمایاں تھا، لیکن سازش کی وہ تاریک گتھیاں جنہوں نے یہ خونی باب لکھا، ان میں قطز کا سایہ بھی موجود تھا۔ قطز اُس وقت ایبک کا خاص امیر اور سب سے قابل اعتماد جنگجو تھا۔ اس کی وفاداری مشکوک نہ تھی، لیکن اُس کا خاموش تماشائی بنے رہنا، سوالیہ نشان ضرور بن گیا۔
بعض روایات میں ذکر ہے کہ قطز قتل کی منصوبہ بندی سے آگاہ نہ تھا، بلکہ ایبک کے احکامات پر عمل پیرا ایک سپاہی کی حیثیت سے وہ صرف محافظت کے دائرے میں تھا۔ اس کے برعکس، کچھ حلقوں کا کہنا تھا کہ قطز کو علم تھا، مگر اُس نے زبان بند رکھی، شاید اس لیے کہ اُس کی وفاداری کا پیمانہ اصولوں سے زیادہ شخصیتوں کے گرد گھومتا تھا۔
اکتائی، جو باہری مملوکوں کا فخر اور میدان جنگ کا بےخوف سردار تھا، ایک رات ایبک کے دربار میں بلایا گیا اور پھر واپس نہ لوٹا۔
اس دن کے بعد بیبرس کے دل میں ایک خلا پیدا ہوا، جسے وقت نے بھرنے کی کوشش کی، مگر مٹا نہ سکا۔ اس کے لیے اکتائی صرف ایک امیر نہیں، ایک استاد، ایک رہبر اور جنگی غیرت کی علامت تھا۔
قطز نے کبھی براہ راست اکتائی کے قتل کی ذمہ داری نہ لی، نہ کوئی صفائی دی۔
شاید اُسے لگا کہ وہ بیچ میں پِس گیا، ایک طرف ایبک کا اعتماد، دوسری طرف اپنے پرانے ساتھیوں کی خاموش نفرت۔
اس نے بادشاہ بننے کے بعد کئی ایسے فیصلے کیے جو سلطنت کی بھلائی اور مملوکوں کی وحدت کی علامت بنے، مگر بیبرس کے دل میں اس ایک رات کی خاموشی ہمیشہ بولتی رہی۔
قطز کی بےمثال بہادری، قیادت اور منگولوں کے خلاف اس کا اٹل مؤقف بھی اُس خلیج کو مکمل طور پر پاٹ نہ سکا جو اکتائی کی موت نے پیدا کی تھی۔
قالون کبھی کبھار توازن کی بات کرتا، حالات کی مجبوریوں کو سمجھاتا، لیکن بیبرس کا دل اب شعور سے زیادہ جذبات کا گھر بنا چکا تھا۔
اور آج، وہی بیبرس اور قالون، جن کی تلواروں نے صلیبیوں کو گھٹنوں پہ لایا تھا، اب اپنی تقدیر کے نئے مورچے کے بارے میں سوچ رہے تھے، ایک ایسا مورچہ جہاں دشمن منگول تھے، لیکن دروازہ قطز کا تھا۔
سلطنتِ ایوبیہ، جو کبھی خطے کی عظمت اور فخر کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب بکھرتی ہوئی ایک یاد میں تبدیل ہو چکی تھی۔ صلاح ایوب کے بعد ایوبی حکمرانوں کی باہمی چپقلش، اندرونی سازشیں اور اقتدار کی کشمکش نے اس سلطنت کی بنیادیں کمزور کر دی تھیں۔
جب ہلاکو خان کے منگول لشکرنے بغداد کو راکھ میں بدلا، تو شام کے باشندوں کی نظریں دمشق پر جم گئیں۔
دمشق، جو کبھی اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز، علم و فنون کا گہوارہ اور ایوبی فخر کا دارالحکومت تھا، اب اپنے ہی سلطان ناصر کی بزدلی اور کمزور فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے والا تھا۔
منگولوں کے قدموں کی چاپ جب شام کی زمین پر سنائی دی، تو دمشق کے در و دیوار پر ایک خاموش لرزہ طاری ہوگیا۔
سلطان ناصر نے نہ صرف مزاحمت سے انکار کیا بلکہ بیبرس اور قالون جیسے جنگ آزمودہ سرداروں کی رائے کو بھی نظر انداز کیا۔ اُس نے ان کا ساتھ چھوڑا اور بالآخر اپنی فوج کو بھی چھوڑ کر شہر کے اندھیروں میں گم ہوگیا، ایک ایسا فرار، جو سلطنت کے وقار کا آخری ستون بھی گرا گیا۔
اب دمشق میں نہ کوئی قلعہ بند دفاع بچا تھا، نہ کوئی تخت جس پر بیٹھ کر دشمن کا سامنا کیا جاتا۔ شہر کی فصیلیں منگولوں کے گھوڑوں کے سموں تلے روندی جا رہی تھیں اور مسجدوں کے میناروں سے اذان کے بجائے ناقوس کی آوازیں بلند ہونے لگی تھیں۔
نہ تاج رہا، نہ تلوار۔ جو کچھ باقی تھا، وہ صرف عبرت تھی اور ان گلیوں میں بہتا خون، جو کل تک علم و شرف کا راستہ ہوا کرتا تھا۔
دمشق کے باسی، جو صدیوں سے ایوبی پرچم تلے جیتے آئے تھے، اس اچانک بےوفائی پر صدمے اور خفگی کے ملے جلے جذبات میں مبتلا تھے۔ لوگوں کو امید تھی کہ ان کے سلطان ناصر، جو ایوبی خون کا وارث تھا، کم از کم آخری سانس تک شہر کا دفاع کرے گا۔ مگر جب خبر پھیلی کہ سلطان اپنے چند امیروں اور سواروں کے ہمراہ چپکے سے شہر چھوڑ چکا ہے، تو دلوں میں اعتماد کے چراغ بجھ گئے۔
بازاروں میں، مساجد کے صحنوں میں اور گھروں کی دہلیزوں پر لوگ ایک دوسرے کو خالی نظروں سے دیکھتے، جیسے کسی نے ان کے سروں سے چھت چھین لی ہو۔
بعض بزرگوں نے مایوسی سے سر جھکایا، بعض جوانوں نے غصے میں مٹھیاں بھینچیں، لیکن سب کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا:
"سلطان ناصر بھاگ گیا۔۔ ہمیں منگولوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر"۔
بچوں کے سروں پہ ہاتھ رکھنے والے ہاتھ لرز گئے، عورتوں کی دعاؤں میں اضطراب آ گیا اور مردوں کے ماتھوں کی شکنوں میں شکست تحریر ہوگئی۔
ایسا لگتا تھا جیسے دمشق کا دل دھڑکنا بند کر رہا ہو اور اس کی دھڑکنیں اب قاہرہ کی سمت سننے کو ترس رہی تھیں، جہاں سے شاید کوئی قطز، کوئی نیا سپہ سالار، کوئی نئی امید آئے گی۔
ان دو تجربہ کار سپہ سالاروں کے لیے دنیا جیسے سمٹ گئی تھی۔ دمشق ان کی پشت پر تھا، منگول ان کی سانسوں میں اور قاہرہ، ان کی نفرت کی انتہا۔
کہاں جائیں؟
"کہیں جانا بھی ہے"
قالون نے ہلکی، بجھی ہوئی آواز میں پوچھا، جیسے وہ سوال نہیں کر رہا، خود سے اعتراف کر رہا ہو۔
بیبرس نے گھوڑے کی باگ تھوڑی زور سے کھینچی، جیسے اس سوال کے نیچے چھپی بے بسی اس کے دل کو چیر گئی ہو۔
"ہم نے ناصر کا ساتھ چھوڑا۔ ہم نے اس کی بزدلی کو مسترد کیا۔ لیکن اب؟"
بیبرس کی آواز میں تلخی تھی اور یادوں کا بوجھ اس کی پشت پر گویا ریت کی مانند بھاری ہوتا جا رہا تھا۔
"قطز کے دروازے پہ دستک دینا؟ جس نے ہمارے سردار، ہمارے بھائی، فارس الدین اکتائی کو قتل کیا؟"
قالون خاموش رہا۔ اس کی آنکھیں دور صحرا میں کھو گئی تھیں۔ اسے علم تھا، بیبرس کے الفاظ میں صرف تلخی نہیں، ایک زخم ہے۔ ایک ایسا زخم جو صرف وقت نے نہیں، بلکہ دھوکے نے دیا تھا۔
فارس الدین اکتائی۔۔
وہ صرف ایک امیر نہ تھا، وہ رہنما تھا۔ وہ باہری مملوکوں کا فخر تھا، اکتائی وہ شخص تھا جس کی پشت پہ بیبرس اور قالون نے اپنی جوانیاں وار دیں۔ جس کے ہاتھ میں تلوار نہ ہوتی تو ان کا اعتماد ہوتا۔
اور پھر؟
عزالدین ایبک نے اسی سردار کو دربار میں بلوا کر قتل کروا دیا۔
اور قطز؟ قطز وہی تھا جسے ایبک نے اوپر اٹھایا، جس کے سائے میں قطز نے اقتدار کی زبان سیکھی۔
وہی قطز، جو آج مصر کے تخت پر براجمان ہے۔
قالون نے گہرا سانس لیا، جیسے اپنی مایوسی کے گرد لپٹی نفرت کو باہر نکالنا چاہتا ہو۔
"بیبرس، یہ ذاتی جنگ ہے، ہم جانتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کتنی دیر تک اس نفرت کو سینے میں لیے بھاگتے رہیں گے؟ کیا منگولوں کے گھوڑے ہمارے تعصب سے کم بے رحم ہیں؟"
بیبرس نے کچھ لمحے خاموشی اختیار کی۔
"ہم اسے معاف نہیں کر سکتے، قالون"۔
قالون نے نرمی سے کہا۔
"نہ ہم معاف کر رہے ہیں، نہ بھول رہے ہیں۔ ہم صرف ملت کی بقا کی خاطر اپنے زخموں پہ مٹی ڈالنے جا رہے ہیں۔ اگر قطز لڑنے والا ہے تو ہم بھی لڑنے کو تیار ہیں۔ لیکن اگر وہ جھکتا، تو ہم کبھی اس کے دروازے کی دہلیز نہ چومتے"۔
بیبرس نے سر جھکا لیا، جیسے خاموشی سے تسلیم کر رہا ہو کہ حقائق، احساسات سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
"ہم مصر جائیں گے۔ مگر نہ جھکنے کے لیے، نہ معافی مانگنے کے لیے۔ ہم جائیں گے لڑنے کے لیے اور اگر قطز واقعی مرد ہے، تو ہمیں پہچان لے گا"۔
کہکشاؤں کی روشنی اب صحرا پر اُتر رہی تھی۔ دو سائے قاہرہ کی سمت بڑھ رہے تھے، وہیں جہاں نفرت، سیاست اور مقدر کا آخری معرکہ ہونا تھا۔