دوپہر کا سورج قاہرہ کی فصیلوں پر سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ شہر کے شمالی دروازے پر ہجوم اُمڈ آیا تھا۔ تنگ گلیوں اور چوڑی شاہراہوں پر لوگ قطار در قطار کھڑے تھے، ہاتھوں میں سبز پرچم اور پھول لیے، آنکھوں میں اشتیاق کی روشنی۔
دوپہر کا سورج قاہرہ کی بلند و مضبوط فصیلوں پر سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ یہ وہی فصیلیں تھیں جنہوں نے صدیوں تک دریائے نیل کی سمت سے آنے والے تجارتی قافلوں اور شمال کی طرف سے حملہ آور لشکروں دونوں کو دیکھا تھا۔ شمالی دروازہ، باب النصر، آج عام دنوں سے زیادہ شاندار دکھائی دے رہا تھا، جیسے شہر خود اپنے مہمان کا استقبال کرنے کو سنور گیا ہو۔ بلند محرابوں پر لہراتے جھنڈے اور دروازے کے دونوں طرف کھڑے زرہ پوش محافظ قاہرہ کی شان اور وقار کا اعلان کر رہے تھے۔
شہر کی تنگ گلیوں اور چوڑی شاہراہوں پر لوگ قطار در قطار کھڑے تھے۔ مکانوں کی چھتوں پر عورتیں اور بچے جمی ہوئی آنکھوں میں اشتیاق کی روشنی لیے سڑک کو دیکھ رہے تھے۔ کچھ نے ہاتھوں میں سبز پرچم تھام رکھے تھے، کچھ نے گل دستے۔ پھولوں کی خوشبو، دھوپ کی گرمی اور فصیلوں پر پڑتی روشنی ایک عجیب سا تہوار کا منظر بنا رہی تھی۔
دور سے گھوڑوں کے قدموں کی بھاری گونج زمین کے سینے میں اترتی محسوس ہو رہی تھی اور جیسے جیسے یہ آواز قریب آتی، لوگوں کا جوش بڑھتا جاتا۔ سب سے آگے امیر المنصور کا لشکر تھا، حماہ کا سنہری شیر بنا ہوا جھنڈا ہوا میں فخر سے لہرا رہا تھا۔ اس کے پیچھے سلطان ناصر کی فوج تھی، جن کے چہروں پر طویل سفر کی تھکن صاف نظر آتی تھی، مگر آنکھوں میں وہ چمک اور عزم تھا جو میدانِ جنگ میں فیصلہ بدل سکتا ہے۔
المنصور اپنے سفید گھوڑے پر بیٹھا تھا، زرہ کے اوپر نیلا عبایا اور تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھا ہوا۔ اس کی جوانی کی چمک اور وقار قاہرہ کے لوگوں کے لیے ایک نیا حوصلہ تھی، لیکن اس کے دل میں ایک بوجھ بھی تھا۔ اسے یاد تھا کہ کیسے وہ ہمیشہ سلطان ناصر کے ساتھ کھڑا رہا، جب دوسروں نے فاصلے پیدا کیے۔
اشرف موسی، المنصور کا پرانا دوست، جس سے اس کی جان پہچان کم عمری میں ہوئی تھی، جب ایک حماہ کا شہزادہ تھا اور دوسرا حمص کے امیر کا بیٹا۔ دونوں شاہزادے شکارگاہوں میں، درباری میلوں میں اور گھڑ سواری کے میدانوں میں ساتھ دکھائی دیتے، ایک دوسرے کو بہادری اور فنِ جنگ میں آزمانے کا شوق رکھتے۔ مگر تاریخ نے ان کے راستے بدل دیے۔ جب سلطان ناصر نے اپنے اقتدار کو وسعت دی، تو موسی اشرف اس کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ حمص، جو اس کی آبائی سلطنت تھی، ناصر کے زیرِ قبضہ آ گئی اور بطور تسلی، موسی اشرف کو تل بشیر کی حکمرانی دی گئی، مگر یہ چھوٹا سا قلعہ اور اس کے گرد کی زمین اس کے خوابوں اور وقار کے لیے ایک تلخ مذاق تھی۔ دل میں چبھن اور کدورت بڑھتی گئی، یہاں تک کہ منگولوں نے شام کی دہلیز پر دستک دی۔ بدلے کی آگ اور کھوئے ہوئے تخت کی تڑپ نے موسی اشرف کو ان کا ہاتھ تھامنے پر مجبور کر دیا۔ انہی کے زور پر اس نے حماہ پر قبضہ کیا، وہی شہر جو کبھی اس کے دوست المنصور کی سلطنت اور وراثتی تخت تھا۔ یہ وار المنصور کے لیے محض سیاسی نقصان نہیں، بلکہ ایک ذاتی زخم تھا، جو پرانے رشتے اور اعتبار کے ٹوٹنے سے لگا تھا۔ پھر بھی، اس نے شکست کے باوجود اپنی تلوار اسلام کے لیے اُٹھائی اور سلطان ناصر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
شاید حالات نے اشرف موسی کو ایسا کرنے پر آمادہ کیا، اس کی اپنی تکلیفیں اسے منگولوں تک لے گئیں اور پھر ان کے حکم کی تعمیل مجبوری بن گئی منصور کا ماننا یہ تھا کہ اشرف کا دل کبھی اس فیصلے پر مطمئن نہ ہوا ہوگا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کے دوست کو اس کی تکلیف کی کوئی خوشی نہیں ہوئی ہوگی ضرور اس کی کوئی مجبوری ہوگی جس نے ایسے ظلم پہ اس کو آمادہ کیا۔
بیبرس اور قالون، وہ دونوں اس کے لیے استادوں کی طرح تھے، جن سے اس نے حکمت اور میدانِ جنگ کی باریکیاں سیکھیں، مگر پھر ایک ایک کرکے وہ ناصر سے الگ ہو گئے۔
اسے سلطان ناصر کو چھوڑنے کا دکھ تھا۔ اس کی وفاداری آخری وقت تک اسے سلطان کے ساتھ رہنے پہ مجبور کرتی تھی۔ منگولوں کے حملے کے بعد، خاص طور پر دمشق کی شکست پر اس کا خیال تھا کہ ان دونوں کی موت ایک ہی میدان جنگ میں ہوگی۔ اس کا ساتھ زندگی پر نہیں، موت پر تھا۔ لیکن وہ منگولوں کے ساتھ ایک آخری معرکہ لڑنے کی خواہش رکھتا تھا اور سلطان ناصر لڑنے کی ہر خواہش کھو چکا تھا۔ اس نے بھاری دل سے سلطان ناصر کے حکم کی تعمیل کی تھی۔
المنصور نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن اسے ناصر کے بغیر کسی دوسرے سلطان کے سامنے جانا پڑے گا۔ آج وہ قطز کے دربار میں ناصر کی غیر موجودگی میں اس کی فوج لے کر جا رہا تھا اور یہ قدم اس کے لیے فخر بھی تھا اور دکھ بھی۔ مگر اس نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ چاہے کوئی بھی حکم دے، وہ ناصر کی دی ہوئی امانت کو اسلام کے لیے آخر دم تک لڑا کر ہی دم لے گا۔
محل کے دروازے پر وہ گھوڑے سے اترا اور دربان کے پیچھے پیچھے دربار کی طرف چل پڑا۔
قاہرہ کے وسیع دربار میں سنہری ستونوں کے درمیان روشنی قندیلوں سے ٹمٹما رہی تھی۔ قطز تخت پر بیٹھا تھا، زرہ کے اوپر شاہی عبایا اور چہرے پر وہ تیزی اور وقار جو میدانِ جنگ میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اس کی نگاہ دروازے پر تھی، جب سے خبر آئی تھی کہ المنصور آ رہا ہے، وہ منتطر تھا، جیسے کسی پرانے ساتھی کا منتظر ہو۔ وقت کے سارے جنگی ماہر اور بہادر موجود تھے۔ رکن الدین بیبرس، قالوون الصالح، جمال الدین اکوش، امیر بدرالدین بکتوت، امیر بہادر المعیزی۔ درباری، امراء اور جرنیل صف بصف تھے۔
قطز کے دل میں ایک چبھن بھی تھی۔ "کاش ناصر بھی آتا، اس کے آنے سے ہماری صف میں وہ وزن آ جاتا جس کی مجھے تلاش ہے"۔ اس نے یہ بات آہستہ سے اپنے قریب بیٹھے جمال الدین اکوش سے کہی۔ اکوش نے سر ہلایا: "سلطان، ناصر کا نہ آنا ہماری کمی ہے، مگر المنصور کا آنا ہمارے لیے ایک بڑی طاقت ہے"۔ قطز نے نیم مسکراہٹ سے جواب دیا: "ہاں، المنصور کی بہادری اور وفاداری پر مجھے شک نہیں"۔
دروازے پر نقیب نے اعلان کیا: "امیر المنصور، حماہ کے سابق حاکم، سلطان ناصر کی افواج کے ہمراہ!"
اسی لمحے دربار کے بڑے دروازے کھلے اور نیلے عبایا میں، ہاتھ میں تلوار کا قبضہ تھامے، امیر المنصور اندر داخل ہوا۔ اس کے پیچھے ناصر کی فوج کے جھنڈے اور حماہ کے سپاہی تھے۔ قطز اپنی نشست سے اٹھا اور چند قدم آگے بڑھا۔ اس کے کندھوں کو اپنے ہاتھوں سے تھاما۔ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
"امیر المنصور!" قطز کا لہجہ پُرجوش تھا، " حماۃ کا بہادر، تمہارا آنا میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ میں پھر سے ایک دفعہ تمہاری شمشیر کو لپکتا اور تمہیں چیتے کی طرح جھپٹتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے وقت نے تمہارے جسم کو زنگ آلود نہیں کیا ہوگا۔ جیسے تمہارے جذبے نہیں بدلے۔ تم نے اسلامی پرچم تلے آ کر ہمارے حوصلے بلند کیے ہیں، ہماری امیدیں بڑھا دی ہیں۔ فاطمہ کے وارث، منگولوں کے ظلم بھولے نہیں۔ یہ جوان ان سے ہر قطرہ خون کا حساب لیں گے"۔
المنصور بولا: "سلطان، میں آپ کے اچھے خیالات کا شکر گزار ہوں۔ میں ہر لمحہ آپ کے ساتھ ہوں، میرا ہر قدم مسلمانوں کی حفاظت کے لیے اٹھے گا۔ یہ تلوار اب آپ کی ہے، چاہے تو اسے نیام میں رکھ لیں لیکن میں اس امید سے آیا ہوں کہ آپ اس تلوار کو دشمن کے خون سے بھگونے کا حکم دیں گے"۔
"سلطان ناصر نے اپنی فوج، آپ کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ میں یہ امانت آپ کو سونپ کر سرخرو ہوا اور حماۃ کی تلواریں بھی آپ کی ہوئیں"۔
"ناصر نہیں آیا "، قطز کی آواز میں دکھ تھا۔
"وہ انا کی لکیر پار نہیں کر سکے"، منصور نے دھیمے لہجے میں کہا۔ دکھ نمایاں تھا۔
قطز نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا: "مجھے معلوم ہے تم وفاداری نبھانے والے آدمی ہو۔ بیبرس اور قالون تمہارے بارے میں ہمیشہ عزت سے بات کرتے ہیں"۔
"امیر المنصور، ہم نے تمہیں ہمیشہ ایک قابل جنگجو اور عالی دماغ پایا ہے۔ آج تم نے ناصر کا بھی مان رکھا اور اسلام کا بھی"۔ رکن الدین بیبرس آگے بڑھ کر بغل گیر ہوا۔ "ہمیں ناصر سے بہت گلے ہیں، منگول ہمارے گلے پر سوار نہ ہوتے اگر ناصر وقت پر ہمت سے کام لیتا اور صحیح فیصلہ کر پاتا۔ لیکن یہ وقت ذاتی رنجشوں کا نہیں، دشمن ہمارے دروازے پر ہے۔ تمہاری آمد ہمارے حوصلے کو دوگنا کر رہی ہے"۔
المنصور کے دل میں ایک لمحے کے لیے پرانی یادیں ابھریں، ناصر کے ساتھ کی گئی قسمیں، بیبرس اور قالون کے ساتھ گزری تربیت کے دن۔ مگر اس نے خود کو سنبھالا اور بلند آواز میں کہا: "میں نے ہمیشہ ان لوگوں سے سیکھا جن کے ساتھ کھڑا ہوں۔ آج آپ سب کے ساتھ کھڑا ہوں اور یہ لڑائی ہماری ایک ہی لڑائی ہے، اسلام کی بقا کی لڑائی"۔
المنصور نے دربار پر نظر ڈالی: "سلطان ناصر کا نہ آنا اس کی اپنی تقدیر تھی، مگر اس نے اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنی فوج، اسلام کے لیے بھیجی ہے۔ یہ کمزوری نہیں، یہ قربانی ہے"۔
قطز کے مشیر، بدر الدین، نے آگے بڑھ کر کہا: "حقیقت یہی ہے، ناصر نے ایک مشکل فیصلے سے اسلام کی صف کو مضبوط کیا ہے"۔
قطز نے اثبات میں سر ہلایا: "المنصور، میں آپ کی وفاداری اور تدبیر کی قدر کرتا ہوں۔ آپ کا آنا اس جنگ میں ہمارے لیے ایک نیا باب کھولتا ہے۔ قاہرہ آپ کو اپنا بیٹا سمجھتا ہے"۔
قطز نے اس بساط پہ اپنے آپ کو آگے بڑھتا دیکھ لیا تھا۔ المنصور اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ سلطان ناصر کی فوج بھی تھی اور اس سے بڑھ کر قطز اس سے ایک بہت بڑا کام لینے والا تھا۔ وہ کام کوئی اور نہیں صرف المنصور کر سکتا تھا۔ "اگر یہ ہوگیا تو منگولوں کو وہ جھٹکا لگے گا کہ وہ سالوں تک اس سے باہر نہیں آ پائیں گے"، قطز کی آنکھوں میں چمک تھی۔
دربار میں موجود ہر شخص نے اس بات کو محسوس کیا کہ قطز اور المنصور کے بیچ ایک نئی رفاقت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ باہر گلیوں میں طبل بج رہے تھے اور قاہرہ جانتا تھا کہ جنگ قریب ہے، مگر آج امید کا دن تھا۔