1. ہوم
  2. غزل
  3. کرن ہاشمی
  4. اے دل، ہم ایسے لوگ ہیں عادت کے باوجود

اے دل، ہم ایسے لوگ ہیں عادت کے باوجود

اے دل! ہم ایسے لوگ ہیں عادت کے باوجود
رہتے ہیں خامشی میں شکایت کے باوجود

گفتار میں سکوت کی شدت کے واسطے
دل پر رہی کسی کی حکایت کے باوجود

پھرتے ہیں تیری یاد کے صحرا میں آج بھی
دنیا کو دیکھتے ہیں حقیقت کے باوجود

آواز دی شبوں نے کئی بار ساتھ چل
ہم رک گئے اگرچہ محبت کے باوجود

آنکھیں پکارتیں رہیں رستوں کو رات بھر
لب خام، دل اسیر تھا حیرت کے باوجود

خوابوں میں تیرے شہر کا منظر دھڑکتا ہے
جاگے ہوئے نصیب کی وحشت کے باوجود

پانی پہ نقش کھینچ کے دل خوش نہ تھا کبھی
تیرے قدم کے عکس کی چاہت کے باوجود

آوازِ دل کو کوئی سمجھتا نہیں مگر
دل بولتا رہا بڑی شدت کے باوجود

محفل میں اپنی ذات کو پہچان کر کرن
چہرے تھے بے شمار، ضرورت کے باوجود