چاند خاموش ہے آنکھوں میں شرر آتا ہے
جب بھی تُو یاد کرے دل میں اثر آتا ہے
زندگی شیشہ ہے احساس کی کرچی جیسے
کوئی لمحہ بھی چھوؤ تو یہ بکھر آتا ہے
ایک چہرہ ہے جو پلکوں پہ ٹھہرتا ہی نہیں
ایک سایہ ہے جو خوابوں میں سفر آتا ہے
رات سنتی ہے مری نیند کے سناٹے میں
کوئی آہستہ سا اندازِ نظر آتا ہے
چاند چپ چاپ مرے دل سے مخاطب کیوں ہے
کیا مرا حال اُسے رات میں گر آتا ہے
ایک خواہش جو ہمیشہ سے اُدھوری ٹھہری
آج پھر دل کی زباں پر وہ اثر آتا ہے
ہم نے چاہا کہ بھلا دیں اسے الفاظوں میں
وہ مگر حرف کے سانچے میں اُتر آتا ہے
اب کرن سوچتی ہے آئنہ کیا جانے یہ
کون ہے جو مری آنکھوں میں ابھر آتا ہے