1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد اشتیاق
  4. عین جالوت - مظفر الدین القطز (8)

عین جالوت - مظفر الدین القطز (8)

دمشق کے قریب منگولوں کا خیمہ گاہی شہر پھیلا ہوا تھا۔ چمکتی مشعلوں کی قطاریں رات کے اندھیرے کو چیر رہی تھیں۔ سب سے بڑے خیمے میں، ایک بھاری لکڑی کی میز پر نقشے، قلم دوات اور موم کی مہریں رکھی تھیں۔ اس میز کے پیچھے کھڑا تھا، کتبغا نوین۔

بوڑھا منگول جرنیل، مگر آنکھوں میں اب بھی وہی چمک تھی جو درجنوں معرکوں کے فاتح میں ہوتی ہے۔ اُس کا جسم مضبوط، کندھے چوڑے اور حرکات میں ایک پھر تیلاپن۔ اُس کی لمبی سفید داڑھی مشعل کی ہلکی ہوا میں لہرا رہی تھی، کبھی وہ اسے کان کے پیچھے اڑس لیتا۔ تن پر ایک بھورا عباء اور کمر پر ازار بند، جیسے وہ ہر وقت زینِ گھوڑا کسنے کو تیار ہو۔ اس کی بارعب موجودگی ایسی تھی کہ خیمے میں موجود ہر شخص سیدھا بیٹھنے پر مجبور تھا۔

کتبغا نوین اپنے بڑے خیمے میں قالین پر پھیلا ہوا شام و مصر کا نقشہ دیکھ رہا تھا۔ اردگرد اُس کے قریبی جرنیل بیٹھے تھے، جن میں اُس کا بیٹا، بولا نوین بھی شامل تھا، ایک تیز نظر، مضبوط جبڑے اور جوانی کی جوش میں پختگی رکھنے والا کمانڈر۔ تلوار بازی میں ملکہ رکھتا تھا۔ باپ جیسا منصوبہ ساز تو نہیں تھا مگر میدان جنگ میں کمال مہارت حاصل تھی۔

"خانِ اعظم ہلاگو کا پیغام صاف ہے"، اس نے گرجتی آواز میں کہا، "قطز نے جو کیا ہے، وہ صرف منگولوں کی نہیں، بلکہ چنگیز خان کے قانون کی توہین ہے۔ ہمارے ایلچی، جنہیں خانِ اعظم نے قاہرہ بھیجا، اُن کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر شہر کی فصیل پر لٹکا دیا گیا!"

خیمے میں ایک بھاری سناٹا چھا گیا۔ بولا نوین نے آگے جھک کر کہا، "خان ہلاگو خان نے اور کیا حکم دیا؟" کتبغا کی آنکھوں میں شعلے لپکے، "میں نے اس کی آنکھوں کی تپش اس کے الفاظ میں محسوس کی ہے"۔۔

"اُس نے قسم کھائی ہے کہ اگر قطز زندہ ہاتھ آ گیا تو اُس کی کھوپڑی سونے کے پیالے میں بدل دی جائے گی اور میں، میں اُس پیالے کو اپنے ہاتھوں سے خان کے سامنے رکھوں گا!"

"خانِ اعظم ہلاگو نے حکم دیا ہے، مملوکوں کو نیست و نابود کرنا ہے اور اس کے لیے ہمیں چاہیے مزید تلواریں۔ اپنے پرانے اتحادیوں کو یاد دلانا ہے کہ منگول تلوار کا ساتھ دیں گے تو ان زندگی محفوظ اور ملک سلامت ہیں"۔

ایک جرنیل نے نقشے پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا، "کیا یہ سب ہماری پکار پر لبیک کہیں گے؟" کتبغا نے ایک دفعہ اوپر دیکھا، پھر داڑھی کان کے پیچھے اڑستے ہوئے بولا، "جو اپنے ماضی کو یاد رکھتا ہے، وہ ضرور آئے گا اور جو بھول گیا، اس کا مستقبل ہم لکھیں گے اور ہماری تلوار یاد دلا دے گی"۔

ایک اور جرنیل نے احتیاط سے سوال کیا، "لیکن کیا مملوک مقابلہ کرنے کی جرات کریں گے؟" کتبغا نے طنزیہ قہقہہ لگایا، "ڈرتے ہیں، اس لیے لڑیں گے۔ مگر یہ ڈر اُنہیں متحد بھی کر سکتا ہے"۔ پھر اُس کی نظر سب جرنیلوں پر گھوم گئی، "اسی لیے خانِ اعظم نے حکم دیا ہے، پرانے اتحادیوں کو جگاؤ! ارمنستان، جارجیا، حِمص، بانیاس، سب کو یاد دلاؤ کہ مملوک کا خون ان کے زخموں کا مرہم ہے"۔

کتبغا نے میز پر جھکے نقشے پر انگلی پھیری اور گہری، کھردری آواز میں کہا: "ہم ان غلاموں کو نہیں چھوڑیں گے۔ انہیں چاروں طرف سے گھیرو۔ پرانے اتحادیوں کو یاد دلاؤ کہ منگول سلطنت کی دوستی بھاری ہاتھ رکھتی ہے اور دشمنی اُس سے بھی بھاری"۔

اس کے گرد موجود منشی اور مشیر خاموشی سے سن رہے تھے۔ منشی نے قلم سنبھالا اور کتبغا نے آہستہ آہستہ، ناپ تول کر الفاظ بولنا شروع کیے۔

"جارجیا کے حکمران کو خط لکھو"، کتبغا کاتب کی طرف متوجہ ہوا۔

"سرکار، وہاں اب بھی دو بادشاہوں کا جھگڑا جاری ہے، داود ششم اور داود ہفتم۔ دونوں تخت کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی جنگ چل رہی ہے۔ شاید جارجیا سے ہمیں ایسی کمک نہ مل سکے جو بغداد کی فتح میں ملی تھی۔ اسوقت سے اب تک، وہ بہت کمزور ہو چکے ہیں"۔

"جنگ"، کتبغا نے نویان کی طرف دیکھا اور قہقہے لگانے لگا۔ سبھی حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جب اس کی ہنسی تھمی تو وہ گویا ہوا "جنگ، اسے جنگ نہیں جھڑپیں کہتے ہیں، لڑائی کہتے ہیں۔ ان کی اوقات نہیں جنگ کرنے کی"۔

کتبغا ایک دم سنجیدہ ہوا، اپنی لمبی سفید داڑھی کو کان کے پیچھے کیا اور گہری آواز میں کہا: "ہم منگول ہیں اور منگول صرف طاقتور کو پسند کرتے ہیں۔ ہم دونوں کو لکھیں گے۔ جو تیز اور وفادار نکلے گا، وہ ہماری ہمدردی اور مدد کا مستحق ہوگا اور اقتدار اسی کو ملے گا"۔

"پہلا خط لکھو، ملکہ کے بیٹے داود کو" اس نے کاتب کو حکم دیا۔۔

"جارجیا کے عظیم بادشاہ داود ششم کے نام۔

ہم، کتبغا نوین، خانِ اعظم ہلاگو کے نمائندے، آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ ہماری تلوار اور آپ کا صلیب ایک ہی راہ کے ساتھی ہیں۔ ہم نے جس کے سر پر ہاتھ رکھا ہے، اقتدار کی دیوی اسی پر مسکرائی ہے۔ آپ گیوک خان کے دور سے ہی منگولوں سے وفاداری کا حلف لے چکے ہیں۔ آج مملوک ہم سارے سامنے سوال بن کر آ گئے ہیں۔ اپنی فوج بھیجو، تاکہ منگول اور جارجیا کے عیسائی ان مسلمان مملوکوں کو تباہ کرتے ہوئے قاہرہ پہ اپنے جھنڈے لہرا سکیں اور تمہاری ماں کی خواہش کے مطابق تم تخت پر بیٹھ سکو"۔

"دوسرے کو لکھو "۔

"جارجیا کے عظیم بادشاہ داود ہفتم کے نام۔

ہم، کتبغا نوین، خانِ اعظم ہلاگو کے نمائندے، آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ جب آپ کی زمین دشمن کے محاصرے میں تھی، ہماری تلواروں نے آپ کے مخالفین کو پیچھے دھکیلا۔ آپ نے بغداد کی فتح کے وقت اپنی آنکھوں سے دیکھا ہم کیسے دشمن کی روح کھینچ لیتے ہیں اور آج پھر ایک دشمن، مملوک، نہ صرف ہمارے معاہدے کو توڑ رہے ہیں بلکہ عیسائی دنیا کو بھی للکار رہے ہیں۔ آئیں، اپنی سواریاں دوڑائیں اور قاہرہ کے دروازوں پر ہمارے ساتھ دشمن کو شکست دیں"۔

کتبغا نے نقشے پر انگلی گھماتے ہوئے آرمینیا کے علاقے پر اشارہ کیا، پھر اپنی آنکھوں میں ایک پرانی یاد کی چمک کے ساتھ بولا: "ہتھوم کو یاد دلاؤ، جب اس کے شہر دشمنوں کے نرغے میں تھے، کس نے ان کا گھیراؤ توڑا؟ جب سلجوقیوں نے اس کی سلطنت کو روندنے کی کوشش کی، کس نے ان کے گھوڑے کاٹ ڈالے؟ اور جب اس نے خانِ اعظم کے دربار میں آ کر وفاداری کا عہد کیا تھا، کس نے اس کے لیے ہلاگو کے دل میں نرمی پیدا کی تھی؟"

ایک جرنیل نے کہا: "سرکار، ہتھوم آپ کی تلوار کا مقروض ہے"۔

کتبغا کی سرد مسکراہٹ گہری ہوئی، پھر اس نے کاتب کو حکم دیا:

"لکھو، "

"آرمینیا کے بہادر بادشاہ ہتھوم کے نام۔

ہم، کتبغا نوین، خانِ اعظم ہلاگو کے نمائندے، آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ ہماری تلوار اور آپ کا صلیب ایک ہی خون سے تر ہیں۔ ہم نے آپ کی سلطنت کو بڑھنے کا موقع دیا، آپ کے دشمنوں کو نیست و نابود کیا اور آپ کی سرحدوں کو محفوظ رکھا۔ اب وقت ہے کہ آپ اس وفاداری کو عملی صورت دیں۔ مملوک نے نہ صرف ہمارے اتحاد کو چیلنج کیا ہے بلکہ عیسائی سرزمینوں کی طرف بھی خطرہ بڑھا دیا ہے۔ اپنی فوج کے گھوڑے نیل کے کنارے تک دوڑائیں، تاکہ صلیب قاہرہ کے دروازوں پر لہرا سکے۔ ہم ساتھ ہوں گے اور قاہرہ کا خزانہ آپ کے قدموں میں ہوگا"۔

کتبغا نے مہر لگاتے ہوئے کہا: "ہتھوم احسان بھولنے والا نہیں، مگر اگر بھول گیا تو ہم اسے یاد دلا دیں گے"۔

کتبغا نے قاصد کے لیے تیسرے خط کا مسودہ تیار کرنے سے پہلے چند لمحے توقف کیا، جیسے الفاظ کا زہر تول رہا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ امیر الاشرف، حِمص کا حکمران، نہ تو مملوکوں کا کھلا حامی ہے، نہ ہی منگولوں کا پکا وفادار، بلکہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنی ریاست کی بقا کے لیے دونوں کے بیچ ناپ تول کرتا ہے۔ کتبغا کی نگاہوں میں سختی اتر آئی اور اس کی سفید لمبی داڑھی ہوا میں ہلکی سی جنبش لینے لگی۔

اس نے اپنے کاتب کو دیکھ کر دھیمی مگر چبھتی ہوئی آواز میں کہا: "یہ خط دوستانہ نہیں، دھمکی ہے۔ اسے لفظوں میں وہ وزن چاہیے کہ امیر کے کانوں میں گونجتی رہے"۔

پھر کاتب نے قلم اٹھایا اور کتبغا نے ٹھہرے ہوئے الفاظ میں حکم دیا:

"امیر الاشرف، حاکمِ حمص کے نام۔

دمشق اور حلب کے دروازے ہمارے گھوڑوں نے توڑے، ان کی فصیلیں ہمارے تیروں کے بوجھ تلے گر گئیں۔ حمص ایک دن کی سواری پر ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ آپ کا شہر بھی اُن کی طرح مٹی میں مل جائے۔ ہم نے آپ کو یہ موقع دیا ہے کہ اپنی وفاداری ثابت کریں، ہمارے ساتھ مل کر مصر کے غلاموں کے خلاف جنگ میں شریک ہوں۔ اگر آپ نے یہ موقع گنوا دیا تو پھر آپ کی قسمت کا فیصلہ ہماری تلواریں اور ہمارے گھوڑوں کی ٹاپیں کریں گی اور منگول گھوڑے جب کسی شہر کے دروازے توڑتے ہیں تو پھر اس کے بعد صرف راکھ باقی رہتی ہے"۔

خط ختم ہوتے ہی کتبغا نے قاصد کو دیکھ کر کہا: "یہ پیغام ایسے پہنچانا کہ امیر کے دل میں خوف بھی اترے اور امید بھی، مگر یہ امید صرف ہماری طرف ہو"۔

کتبغا نے آخری خط کے لیے قلم اٹھانے سے پہلے لمحہ بھر آنکھیں بند کیں، جیسے اپنے الفاظ میں آخری وار کی دھار تیز کر رہا ہو۔ بانیاس کا امیر السید ایک چھوٹا مگر اسٹریٹیجک حلیف تھا، اگر اس کا شہر منگولوں کے ہاتھ آ گیا تو ساحلی راستے مملوک کے لیے تنگ ہو سکتے تھے۔ مگر اگر وہ ہچکچاہٹ دکھاتا تو کتبغا اسے عبرت کا نشان بنانے میں لمحہ بھر نہ لگاتا۔

کتبغا نے کاتب کی طرف دیکھا اور کہا: "اس خط میں نرمی اور دھمکی دونوں ہوں۔ اسے یاد دلاؤ کہ ہم نے کبھی دوستوں کے ساتھ احسان میں کمی نہیں کی، مگر غداروں کو ہم نے زندہ نہیں چھوڑا"۔

پھر کاتب نے لکھنا شروع کیا اور کتبغا کے الفاظ کاغذ پر گرنے لگے:

"امیر السید، حاکمِ بانیاس کے نام۔

آپ کی سرزمین ہمارے راستے کی چوکی ہے۔ ہم نے آپ کو اور آپ کے شہر کو ماضی میں محفوظ رکھا، آپ کے دشمنوں کو دور کیا۔ اب وقت ہے کہ آپ ہمارے احسان کا بدلہ دیں۔ مملوک سے اپنی وفاداری توڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ ہماری تلواریں اور آپ کے دروازے ایک ہی سمت کھلنے چاہئیں۔ اگر آپ نے یہ موقع گنوا دیا تو یاد رکھیں، ہمارے گھوڑے ساحل کی ریت کو بھی خون سے رنگنے میں دیر نہیں لگاتے۔ منگول وعدہ کم توڑتے ہیں اور انتقام کبھی نہیں بھولتے"۔

خط مکمل ہوا تو کتبغا نے مہر لگا کر قاصد کو حکم دیا: "یہ اس کے ہاتھ میں ایسے پہنچاؤ جیسے ایک مہمان کے لیے دعوت نامہ دیا جاتا ہے، مگر یاد رہے، یہ دعوت نہ قبول کرنے والوں کے لیے مہنگی پڑتی ہے"۔

جب تمام خطوط تیار ہو گئے، کتبغا نے انہیں ایک ایک کرکے موم کی بھاری مہر سے بند کیا۔ اس نے خیمے میں موجود سب کو دیکھا اور گہری آواز میں کہا: "یہ صرف میرے الفاظ نہیں، یہ منگول سلطنت کی آواز ہے۔ جو سنے گا، بچ جائے گا۔ جو انکار کرے گا، وہ صرف تاریخ میں بطور عبرت باقی رہے گا"۔

قاصد تیز گھوڑوں پر روانہ ہوئے اور مشعلوں کی روشنی میں اُن کی ٹاپوں کی آواز شام کی ٹھنڈی رات میں دور تک گونجتی رہی۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔