1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد اشتیاق
  4. عین جالوت - مظفر الدین القطز (7)

عین جالوت - مظفر الدین القطز (7)

کرک کا قلعہ صرف پتھر کی دیواروں کا نام نہیں تھا، یہ ایوبی عظمت کا مجسم عکس تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے کئی بار صلیبیوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی، جہاں صلاح الدین کے جانشینوں نے عرب و شام کی سلطنت کو سنوارنے کے خواب دیکھے تھے۔ قلعہ کرک، خالصتاً ایوبی سیاست، حکمت اور عسکری برتری کا مرکز رہا تھا۔ نہ صرف ایک قلعہ، بلکہ شاہی خاندان کی عزت، طاقت اور وراثت کا نشان۔

قلعۂ کرک کا نام آتے ہی تاریخ کے اوراق پر سلطان صلاح الدین ایوبی کا سایہ لہرانے لگتا ہے۔ اس قلعے کو ایوبی سلطنت کے ابتدائی دنوں میں خاص اہمیت حاصل ہوئی، صلیبیوں کے خلاف دفاعی مورچے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک سیاسی علامت کے طور پر۔ صلاح الدین ایوبی نے جب مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی اتحاد کا پرچم بلند کیا، تو کرک کو اس جدوجہد کا ایک کلیدی نشان بنایا۔ اس کے بلند و بالا مینار، اونچی فصیلیں اور شاہی ایوان، ایوبی قوت، نظم و ضبط اور دینی عزم کی عکاسی کرتے تھے۔ کرک نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم دفاعی مقام تھا، بلکہ روحانی طور پر بھی وہ مقام تھا جہاں صلاح الدین کی بصیرت اور قیادت کے نقوش ثبت ہوئے، وہی نقوش جو بعد کے ایوبی سلاطین کے لیے فخر تھے لیکن ٓاج ایوبی وارث سلطان ناصر کی بے بسی کو سمیٹے ہوئے تھا۔

یہیں دربار سجاتے تھے وہ سلاطین، جن کے حکم سے فلسطین کی وادیوں میں پرچم لہرایا جاتا اور شام کے پہاڑوں میں اذان کی صدائیں گونجتی تھیں۔ کرک کی فصیلوں نے وہ وقت بھی دیکھا تھا جب سلاطین کے آگے دنیا جھکتی تھی، جب دروازے کے باہر قاصد قطار میں کھڑے رہتے اور دنیا کے نقشے ایوبی ہاتھوں میں جھکتے۔

لیکن اب، ان پتھروں پر نمی تھی۔ دیواروں میں دراڑیں، صحنوں میں خاموشی اور قصر کے کمروں میں مایوسی۔ اب وہی دربار اجڑا ہوا تھا، جہاں کبھی علمائے دین، شعرائے دربار اور سپہ سالاروں کی مجلسیں گرم ہوتی تھیں۔ یہ زوال صرف کرک کا نہ تھا، یہ ایوبی سلطنت کے شاندار ماضی کا مٹی میں بدلتا ہوا ایک باب تھا۔

سلطان ناصر، زرد چہرہ لیے، سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھا تھا۔ وہی تخت، جس پر بیٹھ کر اس کے اجداد نے صلیبیوں کے سفیروں کو للکارا تھا، آج وہی تخت ایک تھکے ہوئے، الجھے ہوئے اور بےیقین بادشاہ کی خاموشی میں گم تھا۔

قریب بیٹھے درباری سر جھکائے تھے۔ کچھ چہروں پر مایوسی، کچھ پر تنقید اور کچھ پر بے زاری تھی۔ باہر قلعے کے صحن میں خشک پتے اڑ رہے تھے، جیسے وقت بھی یہاں سے نکل جانا چاہتا ہو۔

کرک کی شام ٹھنڈی پڑ رہی تھی، مگر سلطان ناصر کے دل میں برسوں کی ضد ابھی بھی سلگ رہی تھی۔ دربار کا ماحول بوجھل تھا، جیسے دیواروں نے بھی شکست کو محسوس کر لیا ہو۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ناصر کے لب ہلے:

"میں قاہرہ نہیں جاؤں گا"۔

یہ الفاظ حکم نہ تھے، بلکہ ایک تھکے ہوئے انسان کا فیصلہ، ایک ایسی ہار کا اعتراف جسے زبان نہ دے سکا مگر دل میں مان چکا تھا۔

کسی نے حیرت کا اظہار نہ کیا۔ جیسے سبھی کو معلوم ہو۔ ایک درباری، جس کے چہرے پر خوف اور فکر دونوں جھلک رہے تھے، ہچکچاتا ہوا بولا:

"سلطان، اگر آپ نہ گئے تو یہ لشکر منتشر ہو جائے گا، قاہرہ ہمارا قلعہ ثابت ہو سکتا ہے"۔

ناصر نے آہستگی سے گردن اٹھائی۔ آنکھوں میں وہی پرانی ضد، وہی ہٹ دھرمی، جو دمشق کی گلیوں کو خالی کروا چکی تھی، جو بیبرس اور قالون جیسے تجربہ کار سپاہیوں کو اس سے دور کر چکی تھی۔

"قاہرہ؟ جہاں قطز تخت پر بیٹھا ہے؟ جہاں وہ غلام، جس نے میری جگہ لی؟ جس کو میں دشمن کا درجہ بھی نہیں دیتا۔

ناصر کے لہجے میں وہ تلخی تھی جو صرف دشمنی سے نہیں، ایک مسلسل تذلیل، شکست اور محرومی کے احساس سے جنم لیتی ہے۔ وہ قطز کو محض ایک مملوک نہیں سمجھتا تھا، وہ اسے ایوبی شرافت، خون اور وراثت کا دشمن تصور کرتا تھا۔

یہ وہی قطز تھا جسے ایوبی دربار میں ایک غلام کے طور پر لایا گیا تھا اور جس کی پرورش سلطنت کے سائے میں ہوئی۔ وہی قطز، جو کبھی صلاح الدین کے وارثوں کے قدموں میں بیٹھتا تھا، آج خود قاہرہ کے تخت پر بیٹھا تھا اور ناصر، جو ایوبی خون کا وارث تھا، اپنے ہی اجداد کی زمین پر بےبس کھڑا تھا۔

ناصر کے دل میں یہ زخم تب گہرا ہوا جب اس نے دمشق سے پیچھے ہٹتے ہوئے سنا کہ بیبرس اور قالون جیسے مایہ ناز سپہ سالار، جو کبھی ایوبی سلطنت کی فوجی قوت کی علامت تھے، اب قطز کے جھنڈے تلے لڑنے کو تیار ہو چکے ہیں۔ قطز، جو کل تک ناصر کی زبان پر بھی شاید بوجھ تھا، آج ایک سلطنت کا چہرہ بن چکا تھا۔

اور پھر، دمشق کی دیواریں ٹوٹ گئیں۔ اس کی رعایا منگولوں کے ہاتھوں ذبح ہوئی اور ان لمحوں میں، ناصر تنہا ہوتا گیا، اپنے ہی دربار میں۔ اس کی آنکھوں میں اب صرف شک، پچھتاوا اور حسد کا دھواں رہ گیا تھا۔

"وہ غلام، میری جگہ؟"

یہ صرف تخت کا غصہ نہیں تھا۔ یہ اس ایوبی شہزادے کی چیخ تھی جو صدیوں کی بادشاہت کو ایک مملوک کے ہاتھوں چھنتے دیکھ چکا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ قطز نے صرف اقتدار نہیں چھینا، بلکہ اس کی شناخت، اس کی میراث اور اس کے باپ دادا کی عظمت کو مٹی میں ملا دیا۔

یہ نفرت، اب ناصر کی سیاست کا مرکز بن چکی تھی اور اسی نفرت نے اسے قاہرہ سے دور رکھا اور شاید، تاریخ سے بھی۔

اسی لمحے، دربار کے ایک سائے سے آواز ابھری، نرم، مگر پختہ، جیسے ریشم پر خنجر کھنک جائے:

"قطز نے صرف وہی کیا، جو وقت نے اس سے کروایا"۔

یہ آواز تھی امیر المنصور کی، حماة کا نوجوان مگر فہمیدہ سربراہ۔ اگرچہ اس کی عمر ابھی درباری تجربہ کاروں جیسی نہ تھی، مگر اُس کی نگاہ میں ایک ٹھہرا ہوا شعور جھلکتا تھا، ایسا شعور جو سیاست، ایمان اور جنگ کے مابین فرق سمجھتا تھا۔ وہ کوئی عام درباری نہیں تھا۔ ایوبی خاندان کا ہی چشم و چراغ تھا۔ جو منگولوں کی اس یلغار میں اپنی حکومت کھو چکاتھا۔ اس نے منگولوں کے ساتھ پرامن معاہدےکے تحت رہنے کی کوشش کی۔ لیکن بہت جلد اس کو احساس ہوگیا کہ منگول اجڈ غرور کے ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ اس کی مزاحمت منگول لامحدود طاقت کے سامنےزیادہ ٹک نہ سکی اور اس کو سب کچھ چھوڑ کر سلطان ناصر کے پاس آنا پڑا۔

سلطان ناصر نے رخ المنصور کی طرف موڑا، اس کے چہرے پر خفگی اور تمسخر ایک ساتھ نمودار ہوئے۔

"تم اُس غلام کے حق میں بولتے ہو؟"

آواز میں وہی پرانی حقارت تھی، وہی جلن، جو سالوں سے اس کے لہو میں سرایت کر چکی تھی۔

المنصور نے ایک لمحہ توقف کیا، پھر دربار کے فرش پر ایک قدم اور آگے بڑھا۔

"میں اُس کے حق میں نہیں بولتا، سلطان، میں اسلام کے حق میں بول رہا ہوں۔ بیبرس، قالون، قطز، یہ سب اب محض نام نہیں، یہ صفِ اول کے مجاہد ہیں۔ یہ وقت دشمنی کا نہیں، امت کی حفاظت کا ہے"۔

"تم نہیں جانتے، منصور، ان مملوکوں نے مجھ سے سب کچھ چھینا"۔

اس کی آواز اب غصے سے زیادہ تھکن میں ڈوبی ہوئی تھی۔

"وہی غلام، جو کبھی میرے باپ کے دربار میں زمین پر بیٹھتا تھا، آج اس زمین کا مالک ہے۔ اُس نے میرے درباریوں کو خریدا، میری عزت کو نیچا دکھایا، میری رعایا کو اپنے جھنڈے کے نیچے آنے پر مجبور کیا"۔

ناصر کی آنکھوں میں تلخی لہرا گئی۔

"اور تم چاہتے ہو میں، اُس کے دربار میں جاؤں؟"

المنصور نے اپنی آواز کو دھیمی رکھا، مگر اس کے اندر لوہے کی طرح مضبوط یقین تھا: "سلطان، قطز نے آپ سے تخت نہیں چھینا، وقت نے آپ سے سلطنت چھین لی۔ قطز صرف ایک موقع تھا، جو منگولوں کے طوفان کے آگے کھڑا ہوگیا"۔

ناصر نے جیسے یہ بات سنی ہی نہ ہو۔ وہ ماضی کی راکھ میں سے کسی اور چنگاری کو ڈھونڈ رہا تھا: "اُس نے میرے ایلچیوں کو قید کیا، میرے خط پر جواب تک نہ دیا۔ اُس نے میرے نام کو دبایا اور تم کہتے ہو وہ اسلام کے لیے لڑ رہا ہے؟"

المنصور نے ایک لمحے کے لیے گہری سانس لی۔ پھر آہستگی سے، مگر نہایت سوچے سمجھے الفاظ میں بولا: "جی، سلطان۔ اُس نے اسلام کے لیے تلوار اٹھائی، جب اور کوئی نہ اٹھا سکا۔ بیبرس آپ کا سپہ سالار تھا، وہ قطز کا مشیر بن چکا ہے۔ قالون آپ کا رفیق تھا، وہ قطز کا محافظ بن چکا ہے۔ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ یہ سب محض سازش تھی؟ یا وقت کی ضرورت؟"

ناصر نے عبایا اپنے کندھوں پر درست کیا۔ آنکھیں اب کچھ نم سی لگ رہی تھیں، جیسے برسوں کا غرور کسی نرم بارش سے ٹوٹنے والا ہو۔

"تم چاہتے ہو میں اُس کے سامنے جا کر جھک جاؤں؟"

المنصور نے ادب سے سر جھکایا، مگر اس کے لہجے میں عاجزی سے زیادہ حقیقت تھی: "نہیں، سلطان۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تاریخ کے سامنے کھڑے رہیں۔ لیکن اگر آپ کی انا، آپ کی فوج کو منگولوں کے مقابلے سے روک رہی ہے، تو یہ شکست آپ کی نہیں، یہ شکست ہم سب کی ہوگی۔ قطز کے سامنے نہ جھکیں، لیکن اسلام کے مفاد کے سامنے دیوار مت بنیں"۔

دربار ایک لمحے کو خاموش ہوگیا اور شاید، ایک صدی کا فیصلہ وہاں سانس لینے لگا۔

المنصور نے دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے دربار کی خاموشی کو توڑا، اس کے لہجے میں ایک ایسی گرمی تھی جو صرف ایمان سے آتی ہے: "سلطان، وقت ہم سے فیصلے مانگ رہا ہے، انا نہیں۔ تاتاری صرف قلعے نہیں گراتے، وہ نسلوں کی ہمت توڑتے ہیں۔ اگر آج ہماری فوج خاموش رہی، اگر قاہرہ کا محاذ تنہا رہ گیا، تو کل نہ ایوبی بچے گا، نہ مملوک، نہ ترک، نہ عرب۔ پھر نہ تخت رہیں گے، نہ دربار، صرف جلے ہوئے شہر، بہتے ہوئے خون اور بکھری ہوئی اُمت کی خاک رہ جائے گی۔ آپ کا لشکر، جو آج بھی آپ کی ایک نظر کا منتظر ہے، اگر وہ میدانِ جنگ سے غائب ہوا، تو یہ صرف مصر کی نہیں، پوری امت کی شکست ہوگی"۔

کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا۔ ناصر نے نظریں جھکا لیں۔ جیسے دل کا بوجھ نگاہوں پر چھا گیا ہو۔

اس نے دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اپنی انگوٹھی اتاری اور اسے فرش پر رکھتے ہوئے بےبس انداز میں بولا: "لے جاؤ، جو کچھ بچا ہے، وہ تمہیں دے رہا ہوں، منصور۔ لشکر اب تمہارا ہوا"۔

پھر اس نے نظریں درباریوں پر ڈالیں، وہی چہرے جو کل تک اس کے اقتدار کی دیوار تھے، آج صرف تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اس کے لہجے میں اب تلخی کم اور ایک تھکی ہوئی سچائی زیادہ تھی: "لیکن میں نہیں جاؤں گا، نہیں جا سکتا۔ میرے قدم قاہرہ کی سمت نہیں اٹھ سکتے۔ میری نفرت، میری انا، وہ اب بھی میرے راستے میں دیوار بنی ہوئی ہے"۔

وہ اٹھا، آہستہ سے عبایا اوڑھا اور دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔

جیسے صدیوں کا وارث آج خود کو تاریخ کے رحم و کرم پر چھوڑ رہا ہو اور اسلام کی بقا کا علم ایک غلام کی طرف بڑھا رہا ہو۔

المنصور نے جھک کر انگوٹھی اٹھائی اور آنکھیں بند کرکے سر ہلایا۔

یہ اب اُس کا بوجھ تھا اور شاید پوری امت کا۔

صبح کی اذان کرک کی فصیلوں پر آخری بار گونجی۔ قلعے کے دو دروازے کھلے۔

ایک دروازے سے المنصور کی قیادت میں گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہوئے نکلے۔ فوجی جھنڈے تھامے، پرچم بلند، نظریں قاہرہ کی سمت اور دلوں میں خاموش امید۔

دوسرے دروازے سے سلطان ناصر، تنہا، سفید لباس میں، اپنے بھائی اور بیٹوں کے ساتھ، آہستہ آہستہ جنگل کی سمت روانہ ہو رہا تھا۔ نہ بگل، نہ اعلان، بس خاموشی اور وہی پچھتاوا، جو بادشاہوں کو بےتاج کر دیتا ہے۔

قلعہ کرک اب صرف ایک یاد تھا اور قاہرہ؟

وہ اب آنے والے طوفان کی منتظر تھا۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔