وہ دمکتے ہوئے رخسار، مہکتا غازہ
دلکشی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی
اس کی نظروں کے جو پیمانے مقابل ٹھہرے
بیخودی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی
کیسی بے چینیاں بھڑکی تھیں ترے آنے سے
دل لگی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی
اس نے پھولوں کی طرف ایک نظر کیا دیکھا
تازگی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی
اس کو دیکھا تو کہے میں نے شُکرکے کلمے
بندگی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی
میں نے دیکھا تھا اسے دور سے جاتے جاتے
بے بسی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی
اک کرن پھیل گئی دل کے بیابانوں میں
روشنی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی
بس ترا عکس ہی دیکھا تھا سرِ بام کرن
تشنگی اور بڑھی اور بڑھی اور بڑھی