1. ہوم
  2. کالمز
  3. فرحت عباس شاہ
  4. حکمران عوام کی پریشانی سمجھیں

حکمران عوام کی پریشانی سمجھیں

معاشی ترقی کسی بھی ملک کے استحکام، خوشحالی اور عالمی وقار کا بنیادی ستون ہوتی ہے۔ یہی ترقی، حکومتوں کی پالیسیوں کا معیار اور ان کے ویژن کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، اگر یہ ترقی محض اعداد و شمار کی حد تک محدود ہو، یا اس کے ثمرات صرف اشرافیہ، پارلیمینٹیرینز یا خواص تک محدود ہوں اور عام شہری محرومی، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پستا رہے تو ایسی ترقی، ترقی نہیں بلکہ دھوکہ کہلاتی ہے۔ کسی بھی ریاست میں حکومت کی کامیابی اور نیک نامی اس وقت ممکن ہے جب اس کی پالیسیاں زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہوں اور عام آدمی ان پالیسیوں کے مثبت اثرات اپنی روزمرہ زندگی میں محسوس کرے۔

ایک عام پاکستانی جو دن بھر مزدوری کرتا ہے، جو سرکاری اسپتال کی لائنوں میں کھڑا رہتا ہے، جس کے بچے سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہے، جب وہ سنتا ہے کہ ملک کی معیشت ترقی کر رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی ہے، یا جی ڈی پی کی شرح بڑھ رہی ہے تو وہ سوال کرتا ہے کہ یہ ترقی میرے لیے کیا لائی ہے؟ میری تنخواہ تو ویسی کی ویسی ہے، بلکہ ویلیو میں مزید کم ہوگئی ہے، آٹے، چینی، دال اور گھی کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، میرے بچوں کی تعلیم و صحت کے مسائل جوں کے توں ہیں، تو پھر یہ ترقی کس کی ہے؟ ایسے حالات میں حکومت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور عوامی اعتماد میں کمی آتی ہے۔

معاشی ترقی کا اصل مطلب ہی یہ ہے کہ ہر شہری کی زندگی میں بہتری آئے، غربت میں کمی ہو، مواقع میں اضافہ ہو، تعلیم اور صحت کی سہولیات بہتر ہوں اور روزگار کے مواقع سب کو میسر آئیں۔ اگر ترقی کے یہ ثمرات صرف چند شہروں، چند شعبوں، چند گروہوں یا چند خاندانوں تک محدود ہوں تو معاشرہ ایک طبقاتی ڈھانچے میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں محرومی، احساسِ محرومی کو جنم دیتی ہے، جو آخرکار عدم استحکام، بداعتمادی اور سرکشی کا سبب بن سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی حکومتیں کامیاب ہوئیں جنہوں نے ترقی کے ثمرات عوام میں منصفانہ طور پر تقسیم کیے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں اکثریت متوسط اور غریب طبقے پر مشتمل ہے، حکومت کی اصل کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب عام شہری کی زندگی میں بہتری آئے۔ آج اگر ہم دیہی علاقوں کا جائزہ لیں تو وہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، سڑکیں خستہ حال ہیں، ہسپتالوں میں سہولیات ناپید ہیں اور تعلیمی ادارے صرف نام کے ہیں۔ اگر معاشی ترقی ان علاقوں میں تبدیلی نہیں لا رہی، تو یہ ترقی صرف شہری فائیو سٹار ہوٹلوں، پوش علاقوں، یا اعلیٰ طبقے کی گاڑیوں کی لمبی قطاروں تک محدود ہے۔ ایسی ترقی حکومت کیلئے خوش فہمی تو ہو سکتی ہے، مگر نیک نامی کا سبب نہیں۔

کیا حکومت کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ بجلی کے بل اور گیس و تیل کی قیمتوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ دوسو ایک یونٹ والے ظلم نے حکومتی بے حسی کو عوام کے ذہنوں پر نقش کردیا ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اعداد و شمار سے عوام کو زیادہ غرض نہیں ہوتی۔ انہیں اپنی جیب سے غرض ہے، ان کیلئے مہنگائی سب سے بڑا اشاریہ ہے، ان کی زندگی کی بہتری ہی ترقی کا اصل پیمانہ ہے۔ اگر عام آدمی دو وقت کی روٹی، بنیادی تعلیم، مناسب علاج اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے تو وہ حکومت کے ہر دعوے کو جھوٹ سمجھتا ہے اور جب عوام کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ جائے تو پھر ترقی کے تمام منصوبے، اصلاحات اور پالیسی سازی بے اثر ہو جاتی ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی ترقی کو "شمولیتی ترقی" (growth inclusive) بنایا جائے، یعنی ایسی ترقی جس میں تمام طبقات، تمام علاقے اور ہر شعبہ شامل ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا رخ عام عوام کی جانب موڑے، چھوٹے کسانوں، ہنر مندوں، محنت کشوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو سہولت دے۔ ٹیکنالوجی اور صنعت میں جدت ضرور لائی جائے مگر ساتھ ہی بنیادی انسانی ضروریات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ روزگار کے مواقع میں اضافہ کیا جائے، سوشل سکیورٹی کا نظام بہتر بنایا جائے اور سب سے اہم یہ کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ وسائل ضائع نہ ہوں۔

میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اس عمل میں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ ترقی کے سفر میں عوام کو شامل کرنے، شعور بیدار کرنے اور پالیسیوں کے نتائج پر نظر رکھنے کا فریضہ بھی نبھانا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ، حکومت کو بھی تنقید کو برداشت کرتے ہوئے اس سے اصلاح کا راستہ نکالنا چاہیے نہ کہ مخالفت کو دشمنی سمجھ کر راستہ روکا جائے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان سب کی مشترکہ خوبی یہی تھی کہ انہوں نے اپنے شہریوں کی زندگی میں بہتری کو اولین ترجیح دی۔ اسکینڈینیوین ممالک ہوں، سنگاپور ہو یا جنوبی کوریا، ان سب نے معاشی ترقی کو عوام کی فلاح سے جوڑ کر حکومت کی نیک نامی حاصل کی۔ وہاں عوام کو تعلیم، صحت، روزگار اور تحفظ فراہم کیا گیا، جس کے نتیجے میں ریاست اور عوام کا رشتہ مضبوط ہوا اور حکومت کو عوام کی حمایت حاصل رہی۔

پاکستان میں بھی حکومت اگر واقعی نیک نامی کی خواہاں ہے تو اسے یہ دکھانا ہوگا کہ اس کی پالیسیاں صرف سرمایہ کاروں یا طاقتور طبقے کے لیے نہیں بلکہ عام پاکستانی کے لیے ہیں۔ جب تک ہر پاکستانی یہ نہ کہے کہ میری زندگی میں بہتری آئی ہے، تب تک حکومت کی مقبولیت وقتی ہو سکتی ہے مگر پائیدار نیک نامی ممکن نہیں۔ عام شہری کیلئے ترقی کا مطلب دو وقت کی روٹی، بچوں کے بہتر مستقبل اور محفوظ زندگی ہے۔

اگر حکومت اس معیار پر پوری اترتی ہے تو پھر اسے نیک نامی خود بخود حاصل ہو جائے گی۔ لہٰذا، حکومت وقت کو محض معاشی اشاریوں اور عالمی اداروں کی درجہ بندیوں پر اکتفا کرنے کے بجائے اپنی توجہ عام آدمی کی حالتِ زار بہتر بنانے پر مرکوز کرنی ہوگی۔ اگر حکومت کی پالیسیاں عام آدمی کے لیے آسانی پیدا کریں، روزمرہ زندگی کو سہل بنائیں اور ایک باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں تو یہی وہ ترقی ہوگی جو حقیقی ہوگی، دیرپا ہوگی اور حکومت کیلئے نیک نامی کا ذریعہ بھی بنے گی۔ بصورت دیگر، اعداد و شمار کی ترقی تو رہے گی، مگر عوامی ذہنوں میں حکومت کا تاثر دن بہ دن زوال پذیر ہوتا جائے گا۔