1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد اشتیاق
  4. عین جالوت - مظفر الدین القطز (2)

عین جالوت - مظفر الدین القطز (2)

میدان جنگ صاف نظر آرہا تھا۔ تاتاریوں کی فوج چیونٹیوں کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ ان کا جوش و جذبہ بتا رہا تھا کہ وہ مملوکوں کی ننھی منی فوج کو گھیرے میں لے کر اسی طرح جکڑ کے اس کا سانس پی جانا چاہتے ہیں جیسے اژدھا کسی بکری کے بچے کو زندگی سے آزاد کرتا ہے۔ تاتاری آہستہ آہستہ پھیل رہے تھے۔۔ یہاں تک کہ تین اطراف میں آگئے۔ مملوک فوج سکون میں کھڑی نظر آرہی تھی لیکن صرف ایک طرف سے محفوظ تھی۔ ان کی پشت پہ پہاڑی گھاٹی تھی، تاتاریوں کی حکمت عملی البتہ واضح تھی۔ طاقت اور رفتار سے دشمن کو مسل دینے والی حکمت عملی۔

سلطان قطز میدان جنگ سے دور ٹیلے پرکھڑا، تاتاریوں کی حرکات دیکھ کر مسکرایا، دشمن اپنی تمام تر چالاکیوں اور وسیع تجربےکے باوجود اس کے دام میں آگیا۔ سلطان کی گرفت لگام پہ سخت ہوئی، "یہ تو ابتدا ہے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے"، اس خیال کے ساتھ ہی اس کی بھنویں تن گئیں۔ اس نے مڑ کر ٹیلے سے دوسری طرف نیچے دیکھا جہاں اس کی فوج کا ایک بڑا حصہ نظم و ضبط کے ساتھ خاموشی سے کھڑا تھا۔ ان کو میدان میں صحیح وقت پر لانے سے اس جنگ کا پانسہ پلٹنے والا تھا۔

یہ جنگ تاریخ کی بہت اہم جنگ تھی۔ تاتاریوں نے صحرائے گوپی سے اٹھنے کے بعد آج تک کسی بڑی جنگ میں شکست نہیں کھائی تھی اور مشرق سے سلطنت خوارزم کا صفایا کرنے کے بعد عباسی خلافت کی عبا تار تار کرکے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی پہ وہ ضرب لگائی تھی کہ پوری امت مسلمہ بلبلا اٹھی۔ لیکن اس کے بعد دمشق سے مسلمانوں کے انخلا کے بعد تو مسلمانوں کا وجود ہی خطرےمیں پڑ گیا۔ اب آخری امید سلطنت مملوک جس پر قاہرہ میں بیٹھ کے سیف الدین قطز حکومت کر رہا تھا۔ قطزنے تاتاریوں کے ظلم بچپن سے ہی دیکھے تھے، اگر تاتاری خوارزم پر حملہ آور نہ ہوتے تو اس کی زندگی کچھ اور ہوتی۔

سلطان نے بے چینی کے عالم میں مڑ کے خادم سے پانی کی چھاگل مانگی۔ خادم نے جلدی سے چھاگل زین سے اتار کے سلطان کیطرف بڑھاتے ہوئے پوچھا " کب؟" سلطان نے خالی نگاہوں سے دیکھتے ہوے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

"یہ فیصلہ بھی اسی کا ہوگا جو بچپن سے اپنے بندے کو راہ دکھا رہا ہے"۔

خوارزم کی ریاست خطے کی مضبوط ریاست تھی۔ اس کے بہادر سلطان علاوالدین خوارزم نے آس پاس کی تمام ریاستوں پر اپنی تلوار کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ سلطنت خوارزم تقریباََ تین لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ ایک طرف سمرقند بخارا اور بلخ سے ہوتی ہوئی کابل کی سرحدوں تک، پھر ہرات سے ہوتی سندھ کی سرحدوں کو چھورہی تھی۔ ایران کے تمام بڑے شہر اصفہان، شیراز، تہران سے تبریز پر اختتام پذیر ہوتی تھی۔ اس کی سرحدیں غزنوی، عباسی، سلجوق، چینی قاراخطائی، جیسی ریاستوں سے ملتی تھیں۔ ان کے درمیان خوارزم شاہ کے خاندان نے تلوار اور سیاست کے صحیح استعمال سے اپنی ریاست کو پھیلایا تھا۔ تاہم کسی کمزور لمحے میں بہادر علاوالدین خوارزم شاہ نے اپنے مشیروں اور ولی عہد کے مشورے کے برعکس ایک ایسی سیاسی اور سفارتی غلطی کا ارتکاب کیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ تاریخ انسانی نے بڑے بڑے فاتح دیکھے، ظلم وستم، کشت و خون دیکھا مگر اس کی انتہا منگولوں نے دکھائی۔ آگ اور خون کا یہ دکھ ایک دو ریاستوں نے نہیں، آدھی سے زیادہ دنیا نے جھیلا۔ لاکھوں انسان خاک میں مل گئے۔ منگولیا سے اٹھنے والے اس طوفان نے چین، ہندوستان، عرب، ترک، روس، یورپ، جاپان میں تباہی مچائی، ریاستیں الٹ دیں اور انسانوں کا قتل عام کیا۔

اس سب کا آغاز خوارزم شاہ کے غصے سے بے قابو ہونے سے ہوا۔ سفارتی آداب سے ناواقف منگول سفیروں کے روئیے کو خوارزم شاہ برداشت نہ کر پایا اور اس نے تمام سفارتی اصولوں کے برعکس ان کو قتل کرا دیا۔ اپنے سفیروں کے قتل پہ منگول سردار چنگیز خان کے غصے کی آگ بھڑک اٹھی، جس نے آدھے سے زیادہ دنیا کو جلا ڈالا۔ ابھی اس آگ نے صرف خوارزم کی راہ دیکھی تھی۔ علاوالدین کی مضبوط فوج منگولوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو رہی تھی۔ منگول ٹڈی دل کی طرح مختلف مقامات سے سرحد پار کرکے حملہ آور ہوئے۔ خوارزم شاہ کو اپنی فوج جمع کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ جاسوسی نظام معطل ہوگیا۔ اب منگول کسی بھی شہر کے سامنے نمودار ہوتے، کبھی طاقت سے اور کبھی مختلف حیلوں سے اس پر قبضہ کرتے اور تمام آبادی کو تہ تیغ کر دیتے۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے جاتے، شہر کو آگ لگا دی جاتی۔ شہزادہ جلال الدین نے سلطان کو مشورہ دیا کہ فوجوں کو ایک مقام پہ مجتمع کرکے مقابلہ کرنا چاہیے لیکن جنگجو خوارزم شاہ پر اب تک ضعف طاری ہو چکا تھا۔ شاید پے در پےشکستوں نے اس بہادر کی انا پر چوٹ لگائی تھی۔ وہ کوئی بہادرانہ فیصلہ نہ کر سکا اور مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوگیا۔

ماں اس کے سر سے جوئیں نکال رہی تھی۔

"سیف تیرا سر تو اٹا پڑا ہے"۔۔

"میں کیا کروں ماں۔۔ میں تو روز نہاتا ہوں "، سات سالہ سیف نے صفائی دی۔

"تیرا سارا خون چوس جائیں گی اور توسوکھ جائے گا"، ماں نے آواز میں گھمبیرتا پیدا کرتے ہوئے کہا۔

سیف ہنسا۔

"میں نے ابھی نہیں مرنا، میں نے تاتاریوں کو شکست دینی ہے"۔۔

ماں حیران ہوئی۔

"تم تاتاریوں کو شکست دو گے؟"

"ہاں، دوں گا"

سیف نے لا پرواہی سے کہا۔

"واہ جی اور یہ ہوگا کیسے؟"

ماں نے مزید دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

"پتہ نہیں، مجھے تو حضور نے بتایا ہے"

"کون حضور؟"

ماں کی حیرانگی بڑھتی جا رہی تھی۔

سیف ایک دم سے ماں کی گود سے اٹھ کر خوشمگیں نظروں سے دیکھتا ہے۔۔

"ہمارے مسلمانوں کے ایک ہی حضور ہوتے ہیں اماں۔ کیا تمہیں ان کا نام بتانے کی ضرورت ہے؟"

ماں نے گڑبڑا کر کہ۔۔

"نہیں میرا مطلب ہے کہ تمہیں کیسے پتہ کہ وہ حضور ﷺ ہیں؟"

"وہ بس پتہ چل جاتا ہے"

اس نے لاپرواہی سے دوبارہ اس کے گھٹنے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔

"مگر انہوں نے تمہیں کہا کیا؟"

ماں کی دلچسپی بڑھ چکی تھی۔

"انہوں نے کہا کہ جب تم مصر کے سلطان بنو گے تو تم نے تاتاریوں کو شکست دینی ہے"

سیف اپنے ہاتھوں پہ لکیریں کھینچتا ہوا بولا۔

ماں ہنس پڑی۔

"اچھا تو تم مصر کے سلطان بھی بنو گے؟ مصر کا نام کہاں سے سنا؟ تجھے پتہ بھی ہے کہ مصر کہاں ہے؟"

"نہیں۔ خواب میں بتایا تو کہیں تو ہوگا ناں؟ حضور نے کہا کہ میں تاتاریوں کو شکست دوں گا تو کیا سلطان نہیں بن سکتا؟"

وہ تند لہجے میں بولا۔

"بن سکتے ہو بھئی، ہمارا سیف تو ویسے بھی سلطان ہے، بس یہ جوئیں پیچھا چھوڑ دیں "، ماں ہنس دی۔

"میں ان جووں کے ساتھ بھی تاتاریوں کو شکست دوں گا، بس"، وہ اٹل لہجے میں بولا۔

"مصر بہت دور ہے بیٹا۔ وہاں تک پہنچنا تیرے بس میں نہیں اور پھر سلطان بننا اور ان ظالم تاتاریوں کو شکست دینا ناممکن ہے۔ وہ دوزخ کے کتے ہیں۔ میں نے تیرے بابا سے کہا ہے کہ اس سے پہلے وہ یہاں آئیں، ہم یہاں سے کہیں دور چلے جاتےہیں، پر وہ نہیں مان رہے۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تاتاریوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں"۔

ماں نے دکھی لہجے میں کہا۔

"ماں میں تلوار چلانا سیکھو لوں گا، گھڑسواری بھی کروں گا اور ان تاتاریوں کو تلوار سے ختم کر دوں گا"

اور پھر خبر آئی کہ تاتاری فصیل شہر کے سامنے نمودار ہو چکے ہیں۔

شہر میں بھگدڑ مچ گئی۔ ماں باپ کا لاڈلہ سیف، شام میں بطورغلام لایا گیا۔ وہاں سے مصر کے امیر کے پاس پہنچ گیا۔

قدرت بھی کیسے کیسے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ کس کو کب، کیسے، کہاں استعمال کرنا ہے، انسانی سوچ سے بالاتر عمل ہے۔

جاری۔۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔