1. ہوم
  2. اسلامک
  3. حسنین حیدر
  4. واقعہ کربلا میں کوفہ کی شہری حیثیت

واقعہ کربلا میں کوفہ کی شہری حیثیت

جب بھی واقعہ کربلا کی بات چھڑتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ اٹھارہ ہزار خطوط اور کوفیوں کی دغابازی کی بات کہہ کر مسلم دنیا کے ایک بڑے حصے کا دامن چھڑوانے کی کوشش کرتا ہے، یعنی واقعہ کربلا کا واقع ہونا کوفہ سے ہی مربوط ہے جبکہ مکہ و مدینہ اور شام کے مسلمان اس سے بری الزمہ ہیں۔

یہ بات الگ سے باور کروانے کی کوشش ہوتی ہے کہ دیکھو کوفیوں نے خطوط لکھے لہذا مدد بھی نہ کی اور شہید بھی کرنے میں انہیں کا ہاتھ ہے!

کوفہ بذاتِ خود کیا ہے؟ کوفہ مروجہ خلافت کے دوسرے دور میں بسایا گیا عسکری چھاؤنی کے طور پر ایک شہر تھا۔ ایک ایسا شہر جو نظریاتی، نسلی، ثقافتی اور لسانی اعتبار سے بھی تنوع (diversity) رکھتا تھا۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی ایک شہر میں خالصاََ ایک ہی نسل کی قوم آباد ہو؟ اس قوم کا عقیدہ بھی ایک ہی ہو؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح کوفہ اعتقادی بنیاد پر غدیر کے واقعہ کی بنیاد پر مولا علیؑ کو خلافت کا حقدار سمجھنے والوں اور مروجہ خلافت کے شروع ہونے کے بعد اس تسلسل پر اعتقاد رکھنے والے بھی تھے، خلافت کے تیسرے دور کی شورشوں میں نظریاتی و اعتقادی تقسیم کے بعد بھی کوفہ سب سے زیادہ متاثر ہوا اور یہاں عقائد و نظریات کی تقسیم بڑھ گئی۔ حامیان عثمان بھی تھے، شیعان علیؑ بھی اور خوارج بھی۔ شمر ابن ذی الجوشن جو جنگ صفین میں مولا علیؑ کا سپاہی تھا، یہی شخص جنگ نہروان میں مولا علیؑ کی تلوار سے بھاگ کر جان بچائے ہوئے تھا اور یہی شخص کربلا میں قاتل امام حسینؑ ہے۔

پھر ایسے میں کہ جب سرکاری فوج میں مختلف نظریات و عقائد کے حامل لوگ شامل ہوں اور وہ امیر و سپاہ سالار کے احکامات کے پابند ہوں تو پھر وہ مسلک، نظریہ، قوم و قبیلہ اور عقیدہ نہیں دیکھتے! یعنی آج اگر تحریک لبیک احتجاج کرے تو کیا پولیس میں اکثریت اہل سنت بریلیوں کی ان کے خلاف لاٹھی چارج کرنے سے گریز کر دیتی ہے یا ان پر تشدد و دباؤ کرتی ہے؟ جبکہ دونوں فریق ہوتے بھی تو ہم مسلک و ہم عقیدہ ہیں، اسی طرح جب شیعہ کا کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ہم نے اکثر پولیس کے اہلکاروں سے سنا ہے کہ ہم مقتدرہ کے احکامات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔

اس سب سے ہٹ کر ایک عام ناکے پر موجود سیکیورٹی اہلکار یہی کہتا ہے کہ وہ سرکاری حکم کا مجبور ہے۔

جب واقعہ کربلا ہوا ہے تو کون لڑنے آیا ہے؟ شمر ذی الجوشن، عمر ابن سعد، شیث ابن ربیع اور دیگر کمانڈرز جو عبیداللہ ابن زیاد کے احکامات کے پابند تھے، خود عبیداللہ ابن زیاد کو کہاں سے احکامات مل رہے تھے؟ یزید ابن معاویہ سے! یعنی پورا سسٹم قتل امام حسینؑ پر مامور ہوچکا تھا۔ پورا ریاستی ڈھانچہ کربلا میں قتل امام حسینؑ میں ملوث ہے!

یہ الزام کے کوفہ کے شیعوں نے خطوط لکھے اور دغا بازی کرکے خود ہی قتل کیا تو یہ کونسا حکمت اور دانائی کا مؤقف ہے؟

یہیں ہمارے چھوٹے سے شہر میں کسی احتجاج کے خلاف دفعہ 144 لگ جائے تو ایک معمولی سے ایس ایچ او کی ایک پولیس وین دیکھ کر دبک کر سب گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں، لیکن انکو عبیداللہ ابن زیاد کا کوفہ میں فتنہ گری، تشدد، خوف و ہراس اور کوفہ کی امد و رفت کی بندش نظر نہیں آتی!

ہاں، سرکاری فوج کا کوفہ سے کربلا کیلیے جانا ان کے نزدیک دلیل ہے تو یہ بتائیں کہ آپ دستیاب لاجسٹک سپورٹ کہاں سے لینگے؟ نزدیک ترین مقام سے یا دور دراز کے فوجی مرکز سے؟ یقیناً نزدیک ترین مقام سے۔ اس لیے کربلا کا نزدیک ترین فوجی دستیاب لاجسٹک سپورٹ کا مقام کوفہ تھا۔ تبھی یہاں سے سرکاری فوج کے دستے کربلا لڑنے گئے۔

اسی طرح کوفہ سے چند لوگ محاصرہ توڑ کر امام حسینؑ کی مدد و نصرت کرنے بھی گئے، یہی وجہ ہے کہ آل نبی ﷺ، اولاد علیؑ اور امام حسینؑ کے خاندان کے علاوہ شھداء کی تعداد میں کوفہ کے لوگ ہیں۔

کوئی بھی شخص اس بات پہ معترض نہیں ہے کہ مکہ و مدینہ والوں نے یزید کی بعیت کیوں کرلی تھی؟ امام حسینؑ جب قیام کا اعلان کرتے ہیں تو مکہ و مدینہ کے لوگوں نے کیوں نصرت و حمایت نہ کی؟ محض کوفہ سے سرکاری فوج کے آنے سے سارا الزام کوفی شیعوں پر ڈال کر مکہ و مدینہ اور شام کے مسلمانوں سمیت یزید اور اسکے ریاستی ڈھانچے کو کیوں رعایت دینے کی کوشش کی جاتی ہے؟

کیا ایسا تھا کہ یزید نے مدینہ کے گورنر کے زریعے حسینؑ سے بیعت طلب کی، حسینؑ نے انکار کردیا تو یزید نے قتل کا حکم دیا سو چالیس ہزار کا لشکر نکل کھڑا ہوا؟ نہیں! بلکہ یہ وہ ذہنی آمادگی تھی جو اکسٹھ ہجری سے پہلے کے چار سالوں سے پائی جاتی تھی اور ایسا نہ تھا کہ اس وقت کا تشیع سماج اتنا مضبوط تھا کہ وہ مزاحمت کرتا، بلکہ بیس سالہ معاویہ ابن ابی سفیان کے دور اقتدار میں تشیع سماج کی کمر توڑی گئی، مین اسٹریم سے باہر رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کوفہ میں مختار ثقفی کا لشکر ملیشیا کی صورت میں رہ گیا تھا، واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی نصرت و مدد کیلئے جو اقدامات مختار ثقفی سنجام دے رہے تھے، اس دوران کوفہ میں قاضی شریع نے حضرت ہانی (کہ جو حضرت مسلم بن عقیل کے میزبان تھے) ان کے قبیلے کو زبان و ضمانت دی کہ حضرت ہانی کو عبیداللہ ابن زیاد کچھ نہ کہے گا، جس سے پورا قبیلہ قیام سے پیچھے ہٹ گیا۔ مسلم شہید کردیے گئے، مختار ثقفی گرفتار ہوکر قید کردیے گئے۔

جب واقعہ کربلا ہوتا ہے تو تشیع سماج پوری طرح محصور ہوتا ہے، مین اسٹریم لیڈرشپ کوفہ میں قید کردی گئی ہوتی ہے، کوفے کا محاصرہ ہوتا ہے اور سرکاری فوج مکمل کنٹرول سنبھال چکی ہوتی ہے۔

امام حُسینؑ کی شھادت سے پوری مسلم دنیا ہل کر رہ جاتی ہے، مدینہ میں یزید کی بیعت ترک کردی جاتی ہے، حضرت زبیر کی اولاد اپنی خلافت کا اعلان کردیتی ہے، یزید مدینہ پر چڑھائی کردیتا ہے، واقعہ حرا ہوتا ہے۔ سینکڑوں خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے، مسجد نبوی میں گھوڑے باند دیے جاتے ہیں۔ ان سب اقدامات سے یزید اپنی اور حکومت کی ساکھ و صحت مزید کھو دیتا ہے۔

اس سب میں کوفہ کے شیعہ سماج کو up-rising کا موقع ملتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمیں مختار ثقفی کا قیام وجود میں آتا ہے اور قاتلین امام حسینؑ سے انتقام لیا جاتا ہے اور کوفہ میں علوی حکومت قائم ہوتی ہے۔