1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. پہلا سوشلسٹ مسلمان

پہلا سوشلسٹ مسلمان

زمانی لحاظ سے انسان اپنے قریب ترین انقلاب سے متاثر ہوتا ہے۔ یہی بات اپنے سوشلسٹ دوست نوید سلیم سے ڈسکس ہورہی تھی کہ اس نے بہت مزے کی بات کہی کہ ہمارے قریب ترین دو انقلاب ہیں، زمانی و جغرافیائی دونوں اعتبار سے۔ ایک چین کا سوشلسٹ انقلاب اور دوسرا ایران کا اسلامی انقلاب۔ ایک طرف ماٶ جیسا رہنما ہے تو دوسری طرف امام خمینی ؒ جیسا رہنما ہے۔

چین میں ماٶ نے علمی کام کیا تو ایران میں انقلابی سرگرمیوں میں شہید نواب صفوی، شہید علی شریعتی اور امام خمینی جیسے افراد ملتے ہیں۔ اور نوید علی شریعتی ؒ کی کتاب "ابوزر" سے خاصہ متاثر نظر آیا۔ جبکہ خالصاً ماٶسٹ (Mauist) ہے۔ اور ان دونوں نے ثقافتی انقلاب برپا کیا۔ کوئی بھی اقدام اپنے ملک کی روایت، اقدار اور ثقافت سے باہر کا انجام نہ دیا۔ مگر ایک نے سوشلزم کا احیا کیا تو دوسرے نے اسلامک سوشلزم کا پرچار کیا۔ اور علی شریعتی ؒ کیلئے اسلامک سوشلزم کی بنیاد حضرت ابوزر غفاری ؓ ہیں۔

کل پانچ زی الحجہ تھی، اسکی خاصیت یہ ہے کہ اس دن صحابی رسول ﷺ حضرت ابو زر غفاری ؓ نے شھادت پائی۔ مگر ابوزر ؓ تھے کون؟

انکا نام جندب ابن جنادہ تھا۔ ربذہ کے رہنے والے تھے جو مدینہ کے مشرقی جانب ایک چھوٹا سا گاٶں تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا تزکرہ سنا تو وہ مکہ آئے اور پوچھ گچھ کرنے کے بعد خدمتِ نبوی ﷺ مشرفِ اسلام ہوئے۔ کفارِ قریش نے ہر طرح کی اذیتیں دیں پر وہ نہ ڈگمگائے۔ اسلام لانے والوں میں آپ تیسرے یا چوتھے یا پانچویں شخص ہیں۔ اس سبقت کی بنا پر آپ کے ذہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں ابوزر زہد و ورع میں عیسیٰ ابن مریم کی مثال ہیں۔

آپ حضرت عمر کے دورِ حکومت میں شام چلے گئے اور خلافت کے تیسرے دور میں بھی وہیں مقیم تھے۔ آپ وہاں حق و صداقت اور حقیقی اسلامی اقدار کیلئے کوشاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے اموی گورنر نے دارالخلافہ خط لکھ کر ابوزر کی شکایت کی۔ دارالخلافہ نے ابوزر کو شتر بےپلان مدینہ واپس بلا بھیجا۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو یہاں بھی حق و صداقت کی تبلیغ شروع کردی۔

انکی زبان بندی کی کئی تدبیریں کی گئیں۔ مگر ایک دن دربارِ خلافہ میں مکالمے کے دوران آپ نے حق بیانی کی جس پر آپکو جھٹلایا گیا۔ تبھی آپ کی تصدیق کیلئے مولا علیؑ آئے اور انہوں نے حضرت ابوزر ؓ کیلئے حدیثِ نبوی ﷺ پیش کی کہ "ما اظلمت الخضرا ولا اقلب الغبرا علی ذی لھجة اصدق من ابی زر" کسی بولنے والے پر آسمان نے سایہ نہیں ڈالا اور زمین نے اسے نہیں اٹھایا جو ابوزر سے زیادہ راست ہو۔

تاریخ اسلام اگر اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوتے وقت، ہجرت کرتے وقت خالی ہاتھ تھے، خلافت کے پچیس سالوں بعد انکے عرب کے بڑے بڑے شہروں میں گھر تھے۔ کسی کا مکہ و مدینہ میں تو کوئی مصر میں بڑے گھر بنائے بیٹھا تھا۔ جبکہ اکثر صحابہ کرام ؓ اسلامی اقدار کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے درست معنوں میں زندگی گزار رہے تھے۔

اسی وجہ سے حضرت ابوزر ؓ نے سرمایہ پرستی کے خلاف کھلم کھلا کہنا شروع کردیا اور بعض سرمایہ داروں کو دیکھ کر اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے۔

وہ لوگ یہ سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔ جس دن کہ انکا جمع کیا ہوا سونا چاندی دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے انکی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جسے تم نے اپنے لئے ذخیرہ بنا کر رکھا تھا تو اب اس ذخیرہ اندوزی کا مزا چکھو۔

معروف سماجی کارکن سیدہ گُلِ زہرا رضوی کے بقول: "جناب ابوذر کی تاریخی حیثیت و اہمیت کے ساتھ وہی ہوا ہے جو عموما ہماری تاریخ و مورخین کرتے ہیں۔ ان کی جزئیاتِ زندگی، ان کے نظریات، ان کے معمولات کے بجائے محض تحریکِ اسلام میں ان کے عظیم کردار کا اعتراف کیا گیا ہے اور ایک دیومالائی انسان کے طور پر ان کی داستانیں بیان کی گئی ہیں۔

جناب ابوذر غفاری اس سے بہت بڑھ کر ہیں۔ ایک حریت پسند ہیں، عرب کے جاہل معاشرے میں منصف مزاج طبقے کی آواز ہیں، علاقائی تہذیب کو پسِ پشت ڈال کر حق و انصاف کی بات کہتے ہیں۔ اس معاشرے کی انقلابی آواز ہیں۔ جناب ابوذر کا تقوی و پرہیزگاری اپنی جگہ ہے، جناب ابوذر کی سیاسی و اقتصادی اشتراکیت کی وسعت کیلئے تحریک بھی کم نہیں۔ وہ حاکموں کو للکارا کرتے کہ یہ سونا چاندی جو آپ لوگوں نے جمع کر رکھا ہے اور یہ محل جو کھڑے کر رکھے ہیں یہ سب تمام مسلمانوں میں برابر تقسیم کیا جانا چاہئے۔

رسول اکرم ﷺ کے بعد ابوذر غفاری اس انقلابی تحریک کے روح رواں تھے۔ عرب کے سرمایہ داروں، امراء کے خلاف ایک توانا آواز۔ محروم طبقوں کی نمائندہ آواز۔ وہ نہ خود آرام سے بیٹھتے تھے، نہ عرب امراء و سرمایہ داروں کو سکون کی نیند سونے دیتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو اسلام کی روح، نماز و عبادات کے ذریعے نہیں بلکہ اسلامی فلسفے کے ذریعے یاد کروایا کرتے تھے۔ وہ حکمرانوں و امراء کو یاد کرواتے تھے کہ اسلام ستم دیدہ و محروم عوام کی پناہ گاہ ہے، منافع خوروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا چوکیدار نہیں"۔

ابوزر ؓ کو مال و دولت کے لالچ، تشدد و سختی کے اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ روکا جاسکتا، ہر طرح کی ہنر آزمایا گیا مگر انکی زبانِ حق کو بند نہ کیا جاسکا۔ آخرکار انہیں مدینہ سے ربذہ شہربدر کردیا گیا اور سرکاری فرمان جاری کیا گیا کہ ان سے کوئی کلام نہ کرے مگر ایسے سرکاری فرمان کو پسِ پشت ڈال کر حضرت علیؑ انکے دونوں صاحبزادے حضرت حسنؑ و حسینؑ، حضرت عقیلؑ، حضرت عبداللہؑ، حضرت ابن جعفرؑ اور حضرت عمار یاسر ؓ نے انہیں وداع کیا۔

ربذہ میں آپ ؓ کی زندگی انتہائی مشکلات کا شکار گزری، یہیں آپکے بیٹے زر اور اہلیہ نے انتقال کیا۔ آپکی پالتو بھیڑ بکریاں مر گئیں۔ ایک بیٹی رہ گئی جو فاقوں اور تکالیف میں شریک رہی۔ آپ ربذہ کے دیہات سے صحرا کی جانب نکلے مگر کوئی گھاس پھوس اور پانی میسر نہ آسکا۔

ایک جگہ رکے اور مٹی کا ڈھیر جمع کرکے لیٹ گئے، سانسیں اکھڑے لگیں اور نزاع طاری ہونے لگی۔ بیٹی پریشان ہوئی تو گویا ہوئے کہ مجھے بشارت دی جاچکی ہے کہ غربت کی موت مرو گے اور عراقی کفن دفن کرینگے۔ اور ایسا ہی ہوا کہ مالکِ اشتر قافلے سمیت گزرے اور انہوں نے کفن و دفن کے امور انجام دیئے۔