1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

دنیا کے قیام سے ہی انسان ایک سعادت مند معاشرے کی آرزو میں ہے۔ دنیا کی پہلی تخریبکاری قابیل کا ہابیل کو قتل کرنا اور قین کا قابیل کو انتقامی طرز پہ قتل کردینا۔ یہ انسانیت کی تاریخ کے بنیادی قتل تھے۔

ہوا کچھ یوں کہ رہبری کے مسئلہ کے حل کیلئے خدا کے حضور قربانی پیش کی گئی اور ہابیل کی قبول ہوئی قابیل کی رد۔ شیطان جو مقربِ خدا کی بجائے رقیبِ خدا بن چکا تھا، قابیل کو اکسایا اور ہابیل کا قتل کروا دیا۔

یہاں سے حزبِ الہی اور حزبِ شیطان کی بنیادیں پڑیں اور مقابل کا وجود قائم ہوا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور روزِ معین و معلوم تک چلتی رہے گی۔

اہلِ حق و حق پرست ازل سے ہی تعداد میں کم رہے، کبھی اصحابِ کہف کی صورت میں نظر آتے ہیں تو کہیں اہلِ بدر تو کہیں کربلا میں۔ حتی نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہمیں سننے کو ملا کہ "اگر میرے پاس 22 افراد بھی ہوتے تو میں قیام کرتا۔"

آج کا دور بھی پُر فتن و پُر جور و فسق شدہ ہے۔ بدامنی، اخلاقی و معنوی اقدار کی پستی اور فرقہ واریت کی فضا قائم ہے۔ اور انسان کی سعادت مند معاشرے کی آرزو فقط آرزو ہی ہے۔

اور اس کی بڑی وجہ ہم ہیں، ہمارے رویے اور ہمارے عمل میں فقدان ہے۔ ہم نے شیطانیت و نحوست یعنی تحریف شدہ دین قبول کیا، تفرقہ قبول کیا۔ خود ساختہ اور منشائی اصطلاحات کو دینی لبادہ پہنا کر دشمنِ خدا کو بنیاد فراہم کی کہ وہ نظامِ الہی کو قائم ہونے سے روکے۔ ہم خوش ہوگئے کہ جیسا چل رہا ہے، سب اچھا ہے۔

المیہ تو یہ کہ نوجوان بھی اسی تعفن شدہ معاشرے میں گھل مل رہے ہیں، اس بدبودار و غلیز نظام و معاشرت کو قبول کررہے ہیں۔ یہ سب کیونکر ہورہا ہے؟

ایک دفعہ کا زکر ہے کہ ایک عطار خاندان کی لڑکی چماروں کے ہاں بیاہ کے گئی۔ چماروں سے واضح ہے کہ انکا کاروبار چمڑے کا تھا، گھر میں چمڑے کی بو و تعفن رہتا۔ زندگی کے آغاز میں تو شدید بدبو محسوس کرتی، تعفن زدہ ماحول میں اکتاہٹ محسوس کی۔ مگر ایک دن کہ کافی عرصے بعد جب وہ عادی ہوچکی تھی، اپنی ساس سے کہنے لگی کہ اب بدبو نہیں۔ یعنی اب بدبو کا احساس مٹ چکا تھا۔ اور واضح کررہی تھی کہ اس نے بدبو ختم کردی ہے۔ ساس نے جواب دیا کہ جب میں بھی آئی تھی تو میرے ساتھ بھی یوں ہی معاملات پیش آئے تھے۔

ٕرنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

جب دکھ و رنج کی انسان کو عادت پڑ گئی، جب رنج کے ہونے کا احساس مٹ گیا تو رنج ہی کی کوئی پرواہ نہ رہی۔۔۔

یعنی جب انسان خود کو کسی شے کا عادی کرلے تو پھر فرق نہیں پڑتا۔۔۔

آج اگر ہم بات کریں کہ ہمیس نظامِ الہی کے نفاظ اور امت سازی کیلئے اپنے اپنے وظائف ادا کرنے چاہئیں تو اکثریت مخالفت و مزاح و تنقید کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک چمار خوشبوئوں کے بازار گیا، ہر طرف عطر و خوشبو۔۔۔ مگر وہ بےہوش ہوگیا۔۔۔ پورا بازار اسے ہوش میں لانے کیلئے جتن کرنے لگا مگر تمام کوششیں بےسود۔۔۔ اتنے میں وہاں سے اسکے بھائی کا گزر ہوا اور اس نے جیب سے چمڑے کا ٹکڑا نکال کر منھ سے لگایا تو فورا اٹھ بیٹھا۔ وجہ پوچھی گئی تو کہاں کہ یہ اتنا عرصہ تعفن زدہ و بدبودار ماحول میں رہا، آج پہلی بار عطر و خوشبو کے بازار آیا تو اس سے برداشت نہ ہوا یہ ماحول۔۔۔

آج ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے، رقیبِ خدا یعنی شیطان تو اپنا لشکر مضبوط کررہا ہے، کبھی نیٹو کے نام پر تو کبھی ورلڈ نیو آرڈر کے نام پر۔۔۔ مگر بندگانِ خدا و خدا پرور لوگ تعفن زدہ معاشرے میں خود کو ڈھال رہے ہیں۔ سعادت مند و مھدوی معاشرے کے نفاظ کیلئے عملی اقدامات نہیں کررہا ہے۔ اقدامات کجا؟ ابھی تو خودسازی کیلئے بھی خاطر خواہ کوشش نہیں کررہا ہے۔