1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. مردِ میدان

مردِ میدان

اگر چاہو کہ مقتل پار کرلو

لہو کی دھار کو تلوار کرلو!

جب سے یہ دنیا بنی ہے، تب سے انسان سعادت مند معاشرے کا آرزو مند رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کا امر ہے کہ زمین کو عالمی الہیہ حکومت کے تحت بسائے۔ اس ضمن میں خدا کی پہلی حجت حضرتِ آدم علیہ سلام تھے۔ جنہوں نے انسانی آبادی کی بڑھوتری، نشو و نما اور ارتقائے کامل کیلئے خدمات انجام دینا شروع کردیں۔

اس سے قبل کہ جب خدا آدم کو بنا رہا تھا، فرشتوں میں زیرِ بحث رہا کہ یہ فتنہ و فساد کرے گا، خون بہائے گا۔ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا فرشتے زمین پرخون ریزی دیکھ چکے تھے؟ اگر ہاں تو کس مخلوق کے مابین؟

بنی نوع انسان کی زمین پر منتقلی کے ساتھ خدا نے انسانیت کیلئے حدود و قیود کا اطلاق کیا کہ خدا فرماتا ہے: تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَعۡتَدُوۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۲۹﴾

یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالم ہیں۔

اور سب سے پہلے شیطان کی ایما پر حدود سے تجاوز جنابِ آدم ع کے بیٹے نے کیا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔ یہ انسانی تاریخ میں پہلا قتل تھا اور پہلی درجہ بندی و فرقہ واریت۔ یہیں سے ظالم و مظلوم اور حق و باطل شروعات ہوئی، یہیں سے لشکرِ خدا اور لشکرِ شیطان جدا ہوئے۔ ہابیل مظلوم ہے، خدا کا مقرب ہے، اور ہابیل کے طرفدار و الہی حدود کے تحت چلنے والے قرآن کی اس آیت کے مصداق ہیں: "اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟ "

اور قابیل کی نسل، شجرہ ملعونہ ہے کہ خدا فرماتا ہے: "وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ ؕ

اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا زریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابلِ لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے"

ان حق و باطل کے لشکروں کی مبرز و مقابلہ تب سے لے کر آج تک جاری ہے۔ حتیٰ کہ انبیا کرام علیہم السلام کے زمانہ میں بھی رہا۔ کبھی شیطان خود دو بدو ہوتا تو کبھی شیطانی کارندے۔ مثلاً یوسفِ پیامبر علیہ سلام کی کاہنوں سے مبرز تو جنابِ سلیمان علیہ سلام سے جنات و شیاطین کا مقابلہ۔ یہ تسلسل پیامبرِ اسلام و آئمہ علیہم سلام کے ادوار تک بھی آیا۔ اور اب تک حق و باطل کی مبرز موجود ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے زمانہ میں حق و باطل کی تفریق کیسے کی جائے؟ آج کے دور میں محاذِ حق کونسا ہے اور محاذِ باطل کونسا؟ یہ معاملہ بھی اتنا پیچیدہ نہ رہتا گر ایران میں اسلامیِ انقلاب نہ آتا۔ انقلابِ اسلامیِ ایران کے فوراً بعد ایک نعرہ بلند ہوا کہ انقلابِ خمینی ؒسے انقلابِ مھدی عج تک! " یعنی اب وقت کی حجتِ خدا اور الہیہ حکومت کے وارث کیلئے زمینہ سازی کا مرحلہ تھا۔ فرمانِ معصوم علیہ سلام ہے کہ جب حق تم پر واضح نہ ہورہا ہو تو یہ دیکھنا کہ باطل کے تیر کہاں جارہے ہیں! تمام عالمِ استکبار و طاغوت شیطانِ بزرگ امریکہ کی سالاری میں انقلابِ اسلامی اور ظہور کیلئے زمین سازی سے روکنے کیلئے کمر بستہ ہوگئے۔ حزبِ شیطان کیلئے یہ بات گوارہ نہ تھی اور استکبار و طاغوت کا لشکر اُمنڈ آیا اور صدام و عراق کے زریعے چڑھائی کردی۔ ایسے میں آٹھ سالہ جنگ میں بہت سے جوان اعلی جنگی خدمات و اوصاف کے ساتھ سامنے آئے، انہیں میں سے ایک جوان قاسم سلیمانی بھی تھا۔

میں ظلمتِ شب میں لے کر نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا۔

قاسم سلیمانی 11 مارچ 1957 کو ایران کے صوبہ کرمان کے ضلع رابر کے قبائلی انداز کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائے جوانی میں وہ تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور کرمان کے محکمہ آب رسانی سے بطور ٹھیکیدار وابستہ تھے۔ ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل کے بعد سلیمانی اس عظیم مقصد سے منسلک ہو گئے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے وقت شہید قاسم سلیمانی کرمان کے ادارہ آب رسانی میں کام کر رہے تھے اسی دوران میں وہ سپاہ افتخاری نامی تنظیم کے رکن بن گئے۔ ایران عراق جنگ کی شروعات میں شہید قاسم سلیمانی نے کرمان کے عسکری دستوں پر مشتمل ایک بٹالین تشکیل دی جو بعد میں 41 ثاراللہ بریگیڈ میں بدل گئی۔ وہ اس لشکر کی تشکیل 1982 سے لیکر 1997 میں نیروی قدس میں شمولیت تک اس بریگیڈ کے سربراہ رہے۔ ان کی سپاہ سالاری میں اس لشکر نے جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا۔

شہید قاسم سلیمانی کو 1998 میں نیروی قدس سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں طالبان عروج پر تھے۔ کردستان کی سول جنگ کے تجربے کی بنیاد پر وہ بہترین انتخاب تھے؛ اور اس وقت افغانستان طالبان کے دور میں سول جنگ کا شکار ہو چکا تھا تو ایسے میں وہی ان محاذوں پر بہترین کردار ادا کرسکتے تھے۔ اور اہم ترین بات یہ تھی کہ قاسم سلیمانی نے سپاہ قدس کی سپہ سالاری سنبھالنے تک جو تجربہ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ اور اس کے بعد ایران اور افغانستان کے منشیات فروشوں اور سمگلروں کی سرکوبی سے حاصل کیا تھا وہ عسکری اعتبار سے بہت ہی قیمتی تھا۔ موساد کے سابق سربراہ میئر داگان کے بقول: "وہ ہر پہلو سے نظام پر نگاہ اور گرفت رکھنے والا ہے اور شاید وہی ایک ہے جسے میں سیاسی فطین کہہ رہا ہوں۔"

جب شیطانِ بزرگ امریکہ کی ہر چال ناکام ہوئی تو اپنے فرنٹ لائن کے فوجی وہی رکھے مگر اب لباس تبدیل کردیا، کل تک کفر کھلم کھلا برسرِ پیکار آیا، اب اسلام و جھاد کے روپ میں آیا۔ شام کے اکثریتی علاقوں پر قبضے کے بعد سرزمینِ عراق پر چڑھ دوڑے اور تقریباً پچاس سے پچپن فیصد عراقی سرزمین پر قبضہ کرلیا جس میں حلب و موصل و اکرت جیسے شہر بھی شامل ہیں۔ اور بغداد کے گرد گھیرا ڈالتے ہوئے آگے بڑھ کر کربلا کے دروازوں پر پہنچ گئے!!! یہ وہی منظر تھا کہ جب غزوہ احزاب کہ جس میں طاغوت و استکبار کے سپہ سالار نے عالمِ عرب میں سرپٹ گھوڑا دوڑا کر سارے عرب سے لشکر جمع کر کے پیامبرِ اسلام ﷺ کے مقابل آ کھڑا ہوا تو اس موقع پر ایک سورما خندق عبور کرتے ہوئے للکارنے لگا، رسول اللہ ﷺ کی تکذیب و توہین کا مرتکب ہونے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو اس کتے کی زبان بند کرے گا؟ تین مرتبہ ایسا ہوا کہ مولا علی علیہ سلام کھڑے ہوتے، کسی دوسرے میں مقابلے کی ہمت نہ تھی۔ جب امام علی علیہ سلام میدان میں جا رہے تھے تو رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ آج کُلِ ایمان، کُلِ کفر کے مقابلے میں جارہا ہے۔ گویا تنہا علی بھی امت تھے!

ایسے ہی جب نیٹو کے صفِ اول کے سپاہی کربلا کے دروازوں پر پہنچے اور جگر گوشہ رسول ﷺ کے حرم کی توہین کے درپے تھے تو ایک مردِ میدان اٹھا کہ جس نے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جن کے متعلق فرزندِ حیدرِ کرار علیہ سلام سید حسن نصراللہ فرماتے ہیں کہ "حاج قاسم در میدان، مردِ میدان بود" کہ سردار قاسم میدان میں مردِ میدان تھے۔ گویا تنہا قاسم سلیمانی ؒ کی ذات بھی لشکر سے کم نہ تھی۔

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی،

کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں!

قاسم سلیمانی ؒ 3 جنوری 2020ء بروز جمعہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی قریب امریکی ڈرون حملے میں شہید کر دیے گئے۔ اس حملے میں ان کے ہمرا عراقی رضاکار فورس کے کمانڈر ابو مہدی المہندس ؒ، حشد شعبی اور دس دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی وزارت دفاع کے مطابق اس فضائی حملے کا حکم امریکی صدر اور تمام افواج کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی ؒ کی شہادت سے تین روز قبل بغداد میں امریکی سفارتخانے پر ہونے والے حملے کے تناظر میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے اور زور دے کر یہ بات کہی کہ "یہ انتباہ نہیں دھمکی ہے۔"

یزید نے بھی سوچا تھا کہ امام حُسین علیہ سلام کو کربلا کے تپتے صحرا میں شہید کرکے جرم چُھپا لے گا مگر سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے دربارِ شام میں کھڑے ہوکر یہ قطعی فیصلہ کردیا تھا کہ تیرا نام مٹ جائے گا اور ہمارا نام باقی رہے گا۔ بلا شبہ آج ہر جگہ حسینیت ہے، کوئی یہ نہیں کہتا کہ وہ یزیدی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے کہ

"وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔"

اسی طرح قاسم سلیمانی ؒ کی شھادت پر وقتی مسرت منانے والے یاد رکھیں کہ انکے دن گنے جاچکے ہیں، ایک قاسم سلیمانی کو تو شہید کر ڈالا مگر انکے پاک و طاہر خون سے ہزاروں، لاکھوں قاسم سلیمانی ؒ پیدا ہونگے کہ

ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں،

دبی ہے آگ جگر کی مگر بُجھی تو نہیں!