1. ہوم
  2. کالمز
  3. ناصر عباس نیّر
  4. عبداللہ حسین کو سمجھنے کی کوشش

عبداللہ حسین کو سمجھنے کی کوشش

عبداللہ حسین کی ماں کا انتقال، جب وہ چھ ماہ کے تھے۔ ان کے پاس ماں کے ساتھ گزارے وقت کی کوئی ایسی یاد نہیں، جسے وہ بیان کرسکتے ہوں۔ انھوں نے ماں کے چہرے کو بھی تصویروں سے پہچانا ہوگا۔

ان کے لمس، ان کی کسی بات، ان کی کسی کیفیت وحالت کی بھی کوئی یاد نہیں تھی؟ پھر وہ ماں کو کیوں یاد کرتے تھے؟ کیا انھوں نے ماں کو دسروں کی ماؤں کی مدد سے پہچانا؟ انھوں نے ذکر کیا ہے کہ میں اس طمانیت سے محروم رہا ہوں جو میں نے لوگوں کو اپنی ماؤں حاصل کرتے دیکھا ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماں کے سلسلے میں ان کی یاد، شخصی، واقعاتی (episodic) نہیں، بلکہ، سنی سنائی، دیکھی ہوئی، یعنی معنیاتی (semantic) ہے؟

دوسروں کی ماؤں کی موجودگی نے انھیں، اپنی ماں کی غیر موجودگی کا حساس دلایا؟ ہم جانتے ہیں کہ ہر سماج میں ماں سے متعلق تصورات، اقدار، علامات، کا ایک پورا نظام موجود ہوتا ہے۔ حقیقت میں مائیں، دو جگہوں پر وجود رکھتی ہیں۔ گھروں میں اور ثقافتی بیانیوں میں۔

دونوں جگہوں پر ماں کی موجودگی اس مفہوم میں ٹھوس ہوا کرتی ہے کہ وہ ہمیں پوری شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ماؤں کے سلسلے میں ہمارا طرزعمل، ثقافتی بیا نیوں سے شدت سے اثرپذیر ہوتا ہے۔ ہماری ثقافت میں ماں: غیر مشروط اور لانتہا محبت کی آغوش، تحفظ، دعا، جاں نثاری کی علامت کے طور پر موجود ہے۔ باپ اگر طاقت کی علامت ہے ماں سراسر محبت کی۔

عبداللہ حسین نے ان دونوں جگہوں پر ماں کو موجود محسوس کیا اور اپنی ماں کو غیر موجود اور اس کے ساتھ ہی، تحفظ اور طمانیت کے تمام احساسات سے محروم پایا، جو دوسروں کو اپنی ماؤں کے سبب حاصل تھے۔ تاہم ماں کے ساتھ آدمی کا ایک اور رشتہ بھی ہے۔ یہ رشتہ ہر طرح کے یا دکے بغیر بھی، آخری دم تک برقرار رہتا ہے۔ کوکھ کا رشتہ۔

کوکھ، آدمی کا پہلا گھر ہی نہیں، اس کے ہونے کا پہلا مقام بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہونے کے بے انت خلا میں، ہونے کی اوّلین ساعت کا ظہور کوکھ ہی میں ہوتا ہے۔ جسے ہم آدمی کہتے ہیں، وہ تصور سے حقیقت میں، کوکھ ہی میں بدلتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی آدمی ماں کی یاد نہ رکھتا ہے۔

عبداللہ حسین کے لیے ماں کی یاد، کوکھ اور اس کے جملہ اساطیری مفاہیم سمیت تھی۔ اسی لیے ماں، ان کے لیے، واقعی پوشیدہ طاقت تھی۔ ماں کی عدم موجودگی کا احساس، دکھ بھرا تھا، مگرا یسا دکھ جس میں گہری طاقت تھی۔ کیا یہ سوچنا غلط ہوگا کہ عبداللہ حسین کے لیے ماں کی یاد یعنی ماں کی کوکھ کی اساطیری یاد، ان کی تخلیقی قوت کا محرک تھی؟ ان کے لیے ناول، ایک کوکھ ہی تھا، جس میں وہ پورے عہد کی زندگی تخلیق کرتے تھے؟ واضح رہے کہ یہاں ناول اور کوکھ میں کوئی بنیادی رشتہ تلاش کرنا مقصود نہیں ہے۔

نہ اس بات کو اصول کے طور پر پیش کرنا مقصود ہے کہ ناول وہی لوگ لکھتے ہیں جو ماؤں سے، بچپن میں محروم ہوئے ہوں، صرف یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ عبداللہ حسین کے لیے عدم موجودگی، ان کی تخلیقی قوت کا محرک تھی۔ خواہ یہ اتفاق ہی کیوں نہ ہو، مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ عبداللہ حسین نے ناول اسی وقت لکھنا شروع کیا، جب ان کے والد دنیا سے گزر گئے۔

گویا، جب تک والد زندہ تھے، عبداللہ حسین ان کی موجود گی اور ماں کی عدم موجودگی محسوس کرتے تھے، یعنی وہ تخلیقی سطح پر ایک تذبذب میں تھے، لیکن جب والد بھی رخصت ہوگئے، وہ بچے کے انحصار کی حالت سے آزاد ہوگئے، ان کی تنہائی مکمل ہوگئی اور موجودگی و عدم موجودگی کا کھیل بھی ختم ہوا، اب والد و والدہ دونوں عدم موجود تھے، یعنی اب صرف عدم موجودگی تھی، اس لیے انھوں نے کسی تذبذب کے بغیر، پورے تیقن سے لکھنا شروع کیا۔

یہ سوچنا غلط نہیں ہوگا کہ والدین کی عدم موجودگی ایک ایسا گہرا گہراؤ (labyrinth) محسوس ہوسکتی ہے، جو آدمی کو نگل سکتا، یعنی نیوراتی بناسکتا ہے۔ تحریر، عدم موجودگی اور گہراؤ میں معدوم ہونے سے محفوظ رکھنے کا سب سے معتبر وسیلہ ثابت ہوا کرتی ہے۔

(2)

۔۔ عبداللہ حسین کو طاقت سے نہیں، طاقت کی مجموعی ساخت سے دل چسپی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں جن خاندانوں (اداس نسلیں میں روشن آغا اور نیاز بیگ کا خاندان، نادار لوگ میں اعجاز اعوان کا خاندان، قید میں کرامت علی چوہان کا خاندان) کی کہانیاں لکھی ہیں، ان کی ساری جدوجہد، طاقت کی حرکیات کے تابع ہے۔

اداس نسلیں کے روشن آغا کے خاندان کی خِلقت ہی، طاقت کی ایک نئی حرکیات کو پہچاننے اور بعد میں اس کا حصہ بننے کے ذریعے ہوئی ہے۔ روشن علی، ضلع روہتک کے کلکٹر میں ایک معمولی اہلکار تھے۔ لیکن وہ طاقت کی نئی حرکیات کو سمجھنے میں معمولی سمجھ بوجھ کے حامل نہیں تھے۔

انھوں نے اٹھارہ سو ستاون کی شورش میں، ایک انگریز کی جان، اپنی جان پر کھیل کر بچائی۔ اس کے بدلے میں اسے ایک بڑی جاگیر ملی۔ اداس نسلیں، دہلی اور پنجاب کی سرحد پر واقع جس روشن پور کے ذکر سے شروع ہوتا ہے، وہ ایک گورے کی جان بچانے کا صلہ ہے۔ روشن آغا کا خاندان، برطانوی حکومت کا وفادار خاندان ہے۔ اس کا بیٹا محمدالدین نواب، جسے اپنے باپ کے مرنے کے بعد، روشن آغا کا لقب ملتا ہے، وہ پہلی عالمی جنگ میں، اپنے گاؤں سے چالیس سے زائد جوان بھرتی کرواتا ہے۔

ان میں سے واحد نوجوان نعیم، جو اپنی مرضی سے جنگ میں شریک ہوتا، بچ کے واپس آتا ہے۔ عبداللہ حسین دکھاتے ہیں کہ استعماری عہد میں ایک نیا طاقتور طبقہ پیدا ہوا۔ اس نے یہ طاقت خود تخلیق نہیں کی، اس نے بس طاقت کی نئی حرکیات کو پہچانا، اس کا ساتھ دیا اور اس میں حصہ وصول کیا۔ اداس نسلیں سے پہلے، نذیر احمدکے ابن الوقت میں، ابن الوقت ٹھیک اسی طریقے سے طاقت حاصل کرتا ہے۔

"نادار لوگ" میں پھر ایک نیا طاقتور طبقہ پیدا ہوا۔ اس کے پاس بھی زمینیں آئیں۔ یہ محنتی اور اختراع پسند طبقہ نہیں تھا۔ یہ طاقت کی نئی حرکیات کو پہچاننے والا طبقہ تھا۔ یعنی اس کے پاس نئے حالات میں دولت اور رتبہ حاصل کرنے کی چالباز ذہانت تھی۔ یہ مہاجرین کا طبقہ تھا، جنھوں نے جھوٹے کلیموں کے ذریعے بڑی بڑی جاگیریں حاصل کیں۔ نادار لوگ میں جہاں گیر اعوان ایک اہم کردار ہے۔ وہ انگریزی دور اور پاکستانی دور کے طاقتور طبقوں کا امتزاج ہے۔

اس کے باپ عالم جہان کو انگریز کی طرف چالیس مربع زمین ملی تھی۔ اس نے جہاں گیر کو چیف کالج میں تعلیم دلوائی۔ اس تعلیم نے اس کے اندر اس ذہانت کو پیدا کیا، جو دراصل طاقت کی ساختوں کو پہچاننے اور ان میں سیندھ لگاکر، اپنی طاقت میں اضافہ کرنے میں کام آتی ہے۔ سن پچاس کی دہائی میں، جب ہندوستان نے اپر باری دوآب کا پانی بند کیا تو اس کی زمینیں بنجر ہونے لگیں۔ اس نے فلک شیر ری ہیبلی ٹیشن کمشنر کی مدد سے، کہیں دھونس دھاندلی اور کہیں کاغذات میں رد وبدل کے ذریعے، سکھوں کے چھوڑے ہوئے بڑے رقبوں پر قبضہ کر لیا۔ اس نے بیوروکریسی میں تعلقات پیدا کیے اور سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ ایک بار اعجاز اعوان سے، اس کی ملاقات ہوتی ہے تو اعجاز اس کی اسی ذہانت کو شناخت کرتا ہے۔

"اس کو (اعجاز) پہلی بار علم ہوا تھا کہ دنیا کے بیشتر کاروبار کس اصلیت پر چلتے ہیں اور کون سی ایسی قوتیں ہیں جو زندگیوں پر قدرت حاصل کرکے ان کی سمت متعین کرتی ہیں۔ یہ انسانی ذہانت کا ایک نیا رخ تھا جس سے وہ اب تک نابلد رہا تھا۔ اب اس کے اندر دو مختلف طاقتیں برسرپیکار تھیں، ایک بشیر کی جذباتی ذہانت، جس کا منبع اس کا ماحول تھا۔ دوسری جہاں گیر کی چالاک ذہانت جو انسانی جبلت سے پھوٹتی تھی "۔ (نادار لوگ، صفحہ 174)

عبداللہ حسین، اپنے ناولوں میں ایک طرف سماج اور تاریخ میں موجود طاقت کی ساخت کی عمل آرائی (enactment) دکھاتے ہیں، دوسری طرف یہ باور کراتے ہیں کہ کس طرح طاقت، انسانوں کی داخلیت (subjectivity) کی تعمیر کرتی ہے۔ عبداللہ حسین کے کردار، جب تنہائی میں تجزیہ ذات کے عمل سے گزرتے ہیں تو وہاں اپنی جن کیفیات کو پہچانتے ہیں، ان کی تعمیر، سماج میں موجود طاقت نے کی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عبداللہ حسین کے کچھ کردار طاقت کے حامل اور کچھ اس کا ہدف ہیں؟

اس کا جواب ہم میثل فوکو کے طاقت کے تصور کی مدد سے تلاش کر سکتے ہیں۔ فوکو، طاقت کو کسی ایک جگہ، ایک شخص، ایک عہدے، ایک تصور میں مرتکز نہیں بکھرا ہوا دیکھتے ہیں۔ گویا ان کی نظر میں طاقت، اسم نہیں فعل ہے۔ ایک جاری عمل ہے۔ نیز طاقت یک طرفہ ہے، نہ محض اوپر سے نیچے کی طرف عمل کرتی ہوئی ہے۔ طاقت مسلسل عمل کرتی ہے۔ علاوہ ازیں، جہاں طاقت ہے، وہاں مزاحمت بھی ہے۔ اس میں یہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو طاقت کی کوئی ایک صورت ہے، نہ مزاحمت کی کوئی ایک شکل۔

عبداللہ حسین کے ناولوں میں بھی طاقت کی کئی صورتیں موجود ہیں۔ دولت، رتبے، اختیار، رائے کی طاقت کے علاوہ، ایک خاص اسلوب میں اپنی بات کہنے کی طاقت۔ یہ طاقت جہاں بھی عمل کرتی ہے، وہاں اس سے تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ لازمی نہیں کہ وہ تبدیلی، طاقتور کی منشا کے مطابق ہو۔ اداس نسلیں میں اگر روشن آغا کا خاندان، انگریز کی وفاداری کے ذریعے طاقت حاصل کرتا ہے اور اس میں ایک حصہ وہ محمد بیگ کے خاندان کو دیتا ہے کہ روشن آغا، محمد بیگ کی بیوی کو پسند کرتا ہے، مگر اسی محمد بیگ کا فرد نعیم، روشن آغا ہی نہیں، انگریز کی طاقت کو چیلنج کرتا ہے۔

اسے جنگ میں شامل ہونے کے عوض، ایک مربع زمین ملتی ہے، لیکن جب وہ آزادی کی تحریک میں حصہ لیتا ہے تو اس سے کراس والی زمین واپس لے لی جاتی ہے۔ نادار لوگ میں اعجاز اور سرفراز دونوں، جہاں گیر ہی نہیں، عدلیہ اور فوج کی طاقت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ جب سرفراز، کرنل اسلام الدین کو گھونسا مارتے ہوئے، اسے کہتا ہے کہ کوئی اپنے لوگوں کے ساتھ ایسا کرتا ہے تو وہ فوج کے پورے ادارے کی طاقت کو چیلنج کرتا ہے۔

اسی طرح نادار لوگ میں کنیز اور نسرین کے نسوانی کردار، حیاتیاتی طاقت کی عمل آرائی اور ردعمل کی مثالیں ہیں۔ ان دونوں کا جنسی استعمال، ایک شے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے جسموں پر اختیار نہیں رکھتیں، مگر وہ اپنے جسموں پر مردانہ طاقت کو اس وقت چیلنج کرتی ہیں، جب وہ دو حریف مردوں سے بہ یک وقت تعلقات قائم کرتی ہیں۔

نوٹ: عبداللہ حسین کی ناول نویسی پر الحمرا آرٹس کونسل میں کی گئی گفتگو کے منتخب حصے۔