گوگی واتھیانگو گزر گئے۔ سب ایک ایک کرکے گزر جائیں گے۔
باقی رہنے والی چیزیں ہیں: یادیں اور کام۔ چھیاسی برس کی عمر میں اٹلانٹامیں، گوگی کا انتقال ہوا ہے۔
اس کی یادوں اور کام کو، برسوں مہینوں میں نہیں ناپا جاسکتا۔ وہ ہمارے اور آنے والوں کے ساتھ رہیں گے۔
گوگی نے اپنے مشرقی افریقی لوگوں کے لیے لکھا اور ایک بار پھر ثابت کیا کہ جو شخص، اپنے شخصی، مقامی تجربے کو پوری دیانت داری سے لکھتا ہے، یعنی اپنے وجود اور احساسِ وجود کو اپنی تحریر میں تحلیل کردیتا ہے، وہ دراصل سب کے لیے لکھتا ہے۔
آدمی کے وجود کی حد ہے، شخصی احساسِ وجود کی بھی حد ہے، گو، یہ، وجود کی حد سے کہیں بڑی ہے، مگر تحریر کی حد، ان سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوگی کی تحریریں انگریزی دنیا (anglophone)، مشرقی افریقی دنیا اور خود ہماری ایشیائی دنیا میں رسائی اور معنویت رکھتی ہیں۔
گوگی جب پیدا ہوا (1938ء) تو کینیا، برطانوی نوآبادیات کے ماتحت تھا۔ یعنی وہ اپنی ہی زمین پر، ایک غلام شہری کے طور پر پیدا ہوا، جب اس کا انتقال ہوا ہے تو وہ امریکی ریاست جارجیا کے دارلحکومت، اٹلانٹا میں تھا، یعنی جلاوطن تھا۔
اس کی زندگی کی کہانی، دربدری، قید، تشدد، مہاجرت اور دیگر مصائب سے عبارت ہے۔ کچھ مصائب، کینیا کی تاریخ کے پیدا کردہ ہیں، کچھ گوگی کی اپنی تحریروں اور ان میں موجود جرأت مندانہ موقف کے۔
گوگی جب چھوٹا تھا تو دو واقعات نے اسے، کینیا کی سچائی کے بوجھ اور بھیانک پن سے آگاہ کیا۔ وہ سکول (الائنس مشنری سکول) سے چھٹیوں کے دنوں میں واپس آیا تو اس کا گھر، باقی گھروں کے ساتھ تباہ کردیا گیا تھا۔ ان دنوں کینیا میں ماؤ ماۂ آزادی کی تحریک چل رہی تھی اور برطانوی گورے فوجی، اس تحریک میں شامل لوگوں کو، ان کے ٹھکانوں کو اور گھر وں کا نشانہ بنارہے تھے۔
یہی تجربہ محمود درویش کا بھی تھا۔ محمود درویش کی بستی بھی صفحہ ہستی سے مٹادی گئی تھی۔ استعمار کا یہ عمومی طریقہ ہے۔ لوگوں کے پاؤں سے، زمین اور سر سے چھت چھین لو۔ آج بھی غزہ میں یہی ہو رہا ہے۔
گوگی اور محمود درویش، اس طور واقف ہوئے کہ ایک بڑی، پرتشدد، سفاکانہ قوت، ان کے آس پاس، ان کے سر وں پر، دندناتی پھررہی ہے۔ انھیں گویا پوری عمر اس قوت یا اس کے آسیب کا سامنا کرنا ہے۔
دوسرا واقعہ گوگی کے دو بھائیوں کا قتل تھا۔ اس کے ایک بھائی کو فوجی حکم نہ ماننے پر، پشت سے، گولی سے اڑادیا گیا تھا۔ حالاں کہ وہ بہرہ تھا۔
گوگی کا پہلا انگریزی ناول: "مت رو، بچے" جب شائع ہوا تو اس کی عمر صرف چھبیس برس تھی۔ اس ناول کا مسودہ چنو اچیبے نے دیکھا تھا اور پسند کیا تھا۔
گوگی نے پہلے برطانوی استعماریت کے خلاف ناول لکھے، پھر مقامی آمریت کے خلاف۔
گوگی کی تحریریں بتاتی ہیں کہ استعماریت کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ بیرونی، صاف دکھائی دینے والی استعماریت کے رخصت ہوجانے کے بعد، اندرونی، مبہم استعماریت قائم ہوجایا کرتی ہے۔ پہلی استعماریت نے گوگی کا گھر تباہ کیا اور اس کے بھائی قتل کیے، دوسری استعماریت نے اسے قید کیا اور تشدد کا نشانہ اور جلاوطنی پر مجبور کیا۔ وہ آمر دانیال آراپ موئی (Daniel arap Moi) کے ہاتھوں چار سال جیل میں رہا۔ قید کے دوارن، اس نے کچھ اہم فیصلے کیے۔
قید ہی میں، اس نے طے کیا کہ وہ آئندہ صرف اپنی مقامی زبان گیکوا میں لکھے گا۔
اس نے جیل ہی میں، گیکوا زبان میں، اپنا پہلا ناول ٹائلٹ پیپر پر لکھا۔
یہیں جیل میں اس نے اپنے نام سے جیمز کو ہٹا دیا۔ لفظ جیمز، استعمار کی نشانی تھا۔ استعمار کی دوسری بڑی علامت انگریزی تھی، جس میں ناول لکھنے کے باعث اس نے عالمی شہرت حاصل کی تھی، گوگی اس سے بھی دست بردار ہوگیا۔ اس نے بعد میں صرف گیکوا میں لکھا، یہ الگ بات کہ اپنی ہی تحریروں کے انگریزی تراجم خود کیے۔
وہ 2004 میں لندن سے واپس آیا تو کینیا کے شہری اس کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر امڈ پڑے تھے۔ وہ گھر میں ابھی، اپنے استقبال کے خمار ہی میں تھا کہ کچھ لوگ اس کے اپارٹمنٹ میں گھس آئے۔ اس کی بیوی جیرا کی عصمت دری کی گئی اور اسے مارا پیٹا گیا۔ جسمانی اور ذہنی تشدد کی یہ انتہا تھی۔
ایک مصنف کو اپنی تحریروں کی اتنی بھاری قیمت شاید ہی ادا کر نی پڑی ہو۔
گوگی نے ناول، تھیئٹر، مضامین، گفتگو کے ذریعے، کینیا اور افریقہ کا مقدمہ لڑا۔ بیرونی اور مقامی استعماریت، دونوں کے آگے۔
پہلے فرانز فیین اور ان کے بعد گوگی واتھیونگ نے زبان اور استعماریت کے تعلق پر نہایت گہرائی سے غور کیا۔
گوگی نے اپنی کتاب Decolonising the Mind میں لکھا ہے کہ استعمار کار میدانِ جنگ کے جسمانی تشدد کے بعد کمرہ جماعت کے نفسیاتی تشدد کا آغاز کرتے ہیں۔
پہلا تشدد جہاں واضح طور پر ظالمانہ ہوتا ہے، کمرہ جماعت کا تشدد، نرم ہوتا ہے۔۔ میرے خیال میں زبان، سب سے اہم ہتھیار تھا، جس کے ذریعے استعماری طاقت نے سحر طاری کیا اور روح کو قیدی بنایا۔ گولی، جسمانی غلامی کا ذریعہ تھی، زبان، روحانی غلامی کا وسیلہ تھی۔ گوگی ہی وہ شخص تھا جس نے پہلی بار یہ کہا کہ انگریزی کے شعبے ختم کردینے چاہییں اور ان کی جگہ عالمی ادبیات کے شعبے ہونے چاہییں۔
یہی بات انیسویں صدی میں اکبر الہٰ آبادی کہہ چکے تھے:
توپ کھسکی، پروفیسر پہنچے جب بسولہ ہٹا تو رندہ ہے
گوگی نے اپنی کتاب Writers in Politics میں ایک قول نقل کیا ہے کہ زبان کا انتخاب، دنیا کاانتخاب ہے۔
گوگی سوال اٹھاتا ہے کہ ایک ادیب آخر کس کے لیے لکھتا ہے؟ وہ اپنی کسی تحریر میں سے اپنے قارئین کا سوال حذف نہیں کرسکتا۔
اگر وہ فرانسیسی یا انگریزی میں لکھتا ہے تو وہ یہ زبانیں بولنے والے غیر ملکی اور مقامی قارئین کے لیے لکھتا ہے اور اس کے قارئین کے فہرست سے، مقامی زبان بولنے والے قارئین خارج ہوجاتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ لکھتا کیا ہے؟ اس کا موقف کیا ہے؟ گویا اپنے لوگوں کے لیے، اپنے لوگوں کی زبان میں بھی کسی اور کاموقف لکھا جاسکتا ہے۔
گوگی نے اپنی پہلی کتاب میں چنو اچیبے (جو اس کے محسن بھی تھے) کی اس رائے پر بھی سوال اٹھایا کہ وہ انگریزی زبان میں افریقی تجربہ لکھ کر، افریقی انگریزی پیدا کرنے جارہا ہے۔ اس کے بعد، ان دونوں افریقی ادیبوں کے تعلقات ناخوشگوار رہے۔
گوگی کے مطابق، اس صورت میں بھی، اچیبے کے قارئین میں سے مقامی افریقی قارئین جو انگریزی نہیں جانتے، وہ خارج رہیں گے۔
ایک سوال اور بھی ہے کہ کیا امپائر کی زبان میں مقامی تجربہ لکھاجاسکتا ہے؟ گوگی کا قطعی جواب تھا کہ نہیں۔
ایک سوال کا جواب، گوگی نے خود اپنے تجربے کی روشنی میں بھی تھا۔ اس نے پہلے انگریزی میں لکھا اور اس کے بعد اپنی مقامی زبان گیگویو میں، اپنے لوگوں کے لیے لکھا اور ردّ استعماری موقف کے ساتھ لکھا۔
اس سیارے کے ایک بڑے آدمی کو الوداع!