1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ناصر عباس نیّر/
  4. منٹو، حاشیائی کردار اور غالب

منٹو، حاشیائی کردار اور غالب

منٹو سماج کے حاشیائی کرداروں کو افسانے کے کبیری کردار بناتے اور ان کے عزائم و طرزِحیات کو افسانے کا نقطہء ارتکاز (Focalisation) بناتے ہیں۔ یہ عمل بجاے خود مرکز سے بغاوت کا دوسرا نام ہے۔

مرکز کی مسلسل کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان مواقع کو مسدود کرتا چلا جائے جن کی مدد سے سماج کے حاشیے پر سسکتے، ٹھوکریں کھاتے لوگ اپنی زندگی، اپنی مرضی سے جی سکیں۔ مرکز کی اس سعی مسلسل کا نشانہ مصنف بھی بنتے ہیں۔ زیادہ تر تعزیری قوانین کی مدد سے اور بعض اوقات ثقافتی اداروں اور ابلاغ و ترسیل کے ضابطہء اخلاق کے ذریعے مرکز، لکھنے والوں کو خاص موضوعات پر خاص انداز میں لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ سب سے خاص موضوع خود مرکز، ہوتا ہے۔

"مرکز، خود کو اپنی نظر اور زاویے سے لکھوانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ ایک شدید قسم کی نرگسیت مرکز، میں ہوتی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد موجود تمام چیزوں اور تمام سرگرمیوں میں خود کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کہیں وہ براہ راست اپنا نظارہ نہیں کرپاتا تو یہ خواہش کرتا ہے کہ سب نظریں دنیا کو اس زاویے سے دیکھیں جو مرکز، کا زاویہ ہے۔

لہٰذا اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ حاشیے پر موجود لوگوں کے وہی بیانیے تحریروں میں سامنے آتے ہیں جنھیں مرکز کی تائید یا اشیر باد حاصل ہوتی ہے۔ اس امر کی قوی شہادت ہمیں نو آبادیاتی اور تانیثی بیانیوں میں ملتی ہے۔ نو آبادیاتی مرکز، تعلیمی، اخلاقی اور اصلاحی منصوبوں کے ذریعے خود کو لکھوانے کی کوشش کا اسیر رہتا ہے۔ مذکورہ منصوبوں سے متعلق تحریروں کے ذریعے، وہ سماج کے ان سب طبقات کی تخیلی دنیا میں، ایک قیادتی قوت کے طور پر سرایت کرتا ہے جو پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

منٹو کے زمانے میں ترقی پسند تحریک نے حاشیائی طبقات کی خاموشی کو زبان دینا شروع کردی تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ منٹو نے ترقی پسندی سے اثر قبول کیا تھا، مگر یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ منٹو کا حاشیے کا تصور، ترقی پسندی کے پرولتاری طبقے کے تصور سے کہیں وسیع اور بعض صورتوں میں مختلف تھا۔

منٹو کے لیے حاشیائی وجود کا تصور حیرت انگیز طور پر غالب کے تصور سے مماثل تھا۔ منٹو اپنی تحریروں میں بار بار غالب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ فحاشی کے مقدمات میں اپنا دفاعیے سے لے کر اپنے افسانوں میں غالب کے خطوں اور اشعار سے مدد لیتے ہیں۔ (غالب پر ہلکے پھلکے مضامین الگ ہیں)۔ منٹو نے اپنے افسانوی مجموعے یزید، کا دیباچہ جیب کفن، کے عنوان سے لکھا ہے۔ جیبِ کفن کی ترکیب غالب کے اس شعر سے لی ہے:

فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح مہر

ہے داغِ عشق زینتِ جیبِ کفن ہنوز

جیبِ کفن پر داغِ عشق انسان کی جس وجودی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہی منٹو کے کرداروں کی صورتِ حال ہے۔

یعنی انھیں اپنے وجود کے بعض انتہائی بنیادی سوالوں کا سامنا ہے۔ مرکز، اپنے ضمن میں جس اقتدار پسندانہ تصور کو فروغ دیتا ہے، اس میں یہ گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ حاشیائی وجود کو بنیادی سوالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان سوالات کو عام طور پر اشرافیہ یعنی مرکز ہی کی ملک سمجھا جاتا ہے۔

اس لحاظ سے دیکھیے تو منٹو نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا۔ تاہم واضح رہے کہ منٹو نے انسانی وجود سے متعلق بنیادی سولات کا وہ تصور سامنے نہیں رکھا جو اشرافیہ سے منسوب ہے۔ دوسرے لفظوں میں منٹو مرکز کو حاشیے کی طرف منتقل نہیں کرتے، حاشیے کے باطن ہی میں اس کا مرکز، بنیادی انسانی وجود دریافت کرتے ہیں۔ نیز ا س وجود کی دریافت، حاشیائی کرداروں کی اپنی صورتِ حال کے تحت کرتے ہیں۔

منٹو کے افسانے، کسی بھی واحد تصورکے اجارے کو بے دخل، کرنے میں خاصی بے دردی سے کام لیتے ہیں، خواہ یہ اخلاقیات کا واحد تصور ہو، سیاست کا ہو، زندگی کرنے کا ہو یا لکھنے لکھانے سے متعلق ہو۔ واحد تصور طاقت کو اپنے اندر مرتکز کرنے اور پھر اجارہ قائم کرنے میں مسلسل کوشاں رہتا ہے۔ اپنی اس کوشش میں واحد تصور، دوسرے اور مختلف تصورات کی بیخ کنی کا نظام قائم کرتا ہے جس میں اخلاقی تعزیرات، ممنوعات، سزا و جزا کے قوانین شامل ہوتے ہیں۔

ہر واحد تصور خود کو مقدس بنا کر پیش کرتا ہے، وہ انسانوں کے لیے سماجی فلاح سے لے کر ان کی روحانی رفعت کے دعووں کا منظم و مربوط بیانیہ گھڑتا ہے۔ منٹو کا افسانہ واحد تصور کے ان تمام دعووں سے وابستہ تجلیل(کی سیاست) کا پردہ چاک کرتا ہے۔