امر سندھو اور عرفانہ ملاح کا گیارھواں ایاز میلو کئی اعتبار سے اہم تھا۔ سب سے اہم بات اس میلے کا تسلسل ہے۔ تسلسل کا مطلب، ادبی میلے کے ذریعے پیدا کی گئی ایک متبادل سپیس کی حفاظت بھی ہے اور اسے وسیع کرنا بھی ہے۔
کوئی میلہ مثالی نہیں ہوسکتا، (ویسے تو کچھ بھی مثالی نہیں ہوتا) ہر میلے، کانفرنس، فیسٹول میں کئی اچھی چیزیں حاصل ہوتی اور کچھ بہت اچھی چیزیں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ اس کے باوجود یہ سب میلے اور کانفرنسیں ایک متبادل سپیس ہیں۔
یہاں سب نہ سہی کئی سیشنز میں ان سوالات، مسائل، کتب پر گفتگو ہوتی ہے جو کہیں اور ممکن نہیں ہوتی۔ پھر یہاں بڑی تعداد میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ شریک ہوتے ہیں، جنھیں عام طور پر سوال کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ یہ میلہ گفتگو کے سیشنز کے علاوہ، انتظامات، لوگوں کی شرکت کے اعتبار سے بھی اہم تھا۔
سندھ کے مختلف شہروں کے ادیبوں کے ساتھ بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد کے علاوہ سکردو سے بھی ادیبوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ امر کو دلی مبارک باد۔
مجھے خوشی ہے کہ اس میلے میں "میرا داغستان جدید" کی تقریب رونمائی ہوئی۔ امر سندھو نے میزبانی کی، جب کہ جامی چانڈیو اور اکبر لغاری نے گفتگو کی۔ اس کتاب پر ابتدائی گفتگو سندھ کے ممتاز ادیبوں نے کی۔ میں نے اس میلے میں مصنوعی ذہانت اور رحمان عباس کے ناول نژداں پر بھی گفتگو کی۔ ایک طویل گفتگو میر منصور کے ساتھ زاہدہ ابڑو کے رسالے کے لیے بھی کی۔
اس سب پر مستزاد جامی چاندیو کے سندھ فکری سکول کی نسشت میں "میرا داغستان جدید" پر گفتگو تھی، جو ان کے نو تعمیر شدہ "شانتی نکیتن" کے ایک کمرے میں منعقد ہوئی۔ میں نے اس وسیع، کتب اور دنیا بھر کے عجائب فن سے سجے کمرے کو دیکھ کر کہا کہ بورخیس نے جنت کا تصور لائبریری کی مانند کیا تھا۔ وہ اسی قسم کی لائبریری ہوگی۔
میں جامی صاحب کی دعوت پر، ان کے نئے گھر میں ٹھہرا۔ ان کے گھر کے مشرق میں جھیل، اس پر اڑتے اور اترتے بگلے ہیں، جن میں ایک تنہا خود اپنے آپ میں مستغرق بگلہ بھی ہے (جس پر کسی وقت لکھوں گا)، نہر ہے، درختوں کے جھنڈ اور ریل ہے جو رات کے آخری پہر اور صبح کے وقت گزرتی ہے۔ ریل یہاں کے سکون کو برہم نہیں کرتی، اس سکون میں ایک عجب آہنگ بھر دیتی ہے، کتنی ہی یادوں کو بیدار کرنے والا آہنگ۔
یہیں جامی صاحب نے 19 دسمبر کی رات احباب کی محفل سجائی اور میں نے دو صفحے "میرا داغستان جدید" سے پڑھ کر سنائے۔ ان احباب میں علی دوست عاجز، عزیز گوپانگ، احسان دانش، فیاض لطیف، رضوان گل کے علاوہ شہر کے متعدد ادب دوست شریک تھے۔
جامی صاحب سے مسلسل مکالمہ رہا۔ جامی صاحب سندھ کے صحیح معنوں میں عوامی دانشور ہیں۔ اگرچہ ان کا بنیادی فکری طریقہ مارکسی ہے مگر وہ آرتھوڈاکس مارکسیت کے قائل نہیں۔ وہ اسے تخلیقی طور پر متحرک نظام فکر سمجھتے محسوس ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے ہی سماج کے مثالیوں پر تنقید بھی کرتے ہیں مگر مدلل اور غیر جذباتی انداز میں۔ اس کی ایک وجہ ان کے مطالعے کی وسعت، تنوع اور گہرائی ہے۔ ان کے ساتھ یادگار وقت گزرا۔
یادگار وقت وہ ہوتا ہے جس کے گزرنے کا احساس، اس وقت کے گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔
منیر چانڈیو بھی مسلسل ہمراہ رہے۔ وہ ایک زندہ دل شخص ہیں۔
اکبر لغاری سے چند مختصر مگر گہری فکری نشستیں ہوئیں۔ فرنود عالم سے بھی کئی دل کی باتیں ہوئیں۔ نورالہدی شاہ، افضال احمد سید، تنویر انجم، کاشف رضا، انعام ندیم، ثمینہ نذیر، اسحاق سمیجو، خلیل کنبھار سمیت متعدد احباب سے ملاقاتیں اور نشستیں ہوئیں۔
نیز خود حیدر آباد شہر سے ملاقات ہوئی۔ ہر شہر کی اپنی زبان ہے جو رفتہ رفتہ ہمیں سمجھ آتی ہے۔ اس شہر میں چار پانچ مرتبہ آیا ہوں، اس بار قیام زیادہ تھا، اس لیے یہ شہر اپنی زبان میں کچھ کچھ بات کرتا محسوس ہوا۔
ایک دن بعد کراچی پہنچنا ہے۔ احمد شاہ صاحب اردو سمیت پاکستان کی دوسری زبانوں کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز کانفرنس منعقد کرنے جارہے ہیں۔ اس میں شریک ہونا ہے اور کراچی کی زبانی اس کے دل کا حال سننا ہے۔