اچانک پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں میں، کسی بھی چیز کو ہتھیار بنایا جاسکتا ہے۔ صرف ہاتھوں ہی کو نہیں، کسی گملے، دروازے، کھڑکی کے کسی پٹ، شیشے، کرسی، میز، برتنوں سے لے کر پنسل، قلم، ٹائر، چائے کی پیالی، جوتوں تک کو ضرب و زخم پہنچانے کی چیز کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ خیال کہ ہر شے، ایک مخصوص مقصد و جوہر رکھتی ہے، ایک ہنگامہ اس خیال کی تنسیخ کر دیتا ہے اور ہمیں اس سچائی کے روبرو لاتا ہے کہ ہر شے میں، اپنے متعینہ مقصد ومقام سے، اچانک الگ ہوجانے اور کسی دوسرے مقصد و مقام کی طرف منتقل ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ سچائی، اشیا، رنگوں، الفاظ سب کے ضمن میں ہیں۔
اس کی ایک اہم مثال فرانسیسی فن کار مارسل ڈوشاں (Marcel Duchamp) کا فوارہ، ہے۔ اس نے 1917ء میں نیویارک میں فن پاروں کی ایک نمائش میں، پیشاب گاہ کو فوارے کے نام سے پیش کیا۔ اس نمائش کا اہتمام، خود مختار فن کاروں کی مجلس نے کیا تھا، جس نے یہ اصول طے کیا تھا کہ جو فن کار فیس جمع کروائے گا، اس کا فن پارہ، نمائش میں پیش کیا جائے گا۔
ڈوشاں نے فیس جمع کروائی تھی، مگر اس کے فن پارے، کو نمائش کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔ نمائش کے منتظمین کے لیے یہ خیال ہی کراہت انگیز تھا کہ پیشاب گاہ کو فن کی نمائش میں رکھا جاسکتا ہے۔ وہ فن کا اعلیٰ، اشرافی نہیں رکھتے تھے، مگر ابھی دادائیت کی اینٹی آرٹ تحریک کا ذوق پیدا نہیں کرسکے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے دنوں میں زیورخ میں چلنےو الی دادئیت کی تحریک، فن کے اشرافی تصور کو منسوخ کرنے والی تحریک تھی۔
اس سے وابستہ فن کار، اب تک جسے فن سمجھا جاتا تھا، اس کو منہدم کرنے پر کمربستہ رہتے تھے۔ وہ صدمہ پہنچاتے تھے، انگیخت کرتے تھے، غصہ دلاتے تھے، حقارت کے جذبات کو تحریک دیتے تھے۔ وہ لغویت کو فن کے پردے میں نہیں، فن ہی کو لغو بناکر پیش کرتے تھے۔ دادائیت، حقیقت میں فن کی کوئی نئی تحریک نہیں تھی، وہ فن کی بنیادی سچائی کو برہنہ انداز میں سامنے لانے والی تحریک تھی۔
یہ کہ فن میں کچھ ممنوع نہیں ہے۔ کوئی بھی شے، کسی بھی اسلوب میں بہ طور فن بروے کار لائی جاسکتی ہے۔ کبھی محض ایک چیز کو، ا س کے مقام سے ہٹا کر، کسی دوسرے مقام پر لے جانے سے فن پیدا ہوتا ہے۔
اسی تصور کو ایک صدی بعد اطالوی آرٹسٹ ماریزیوکیٹیلان (Maurizio Cattelan) نے آگے بڑھا یا۔ اس نے دسمبر 2019ء میں آرٹ بازل میامی بیچ (Art Basel Miami Beach) نامی ایک بین الاقوامی آرٹ نمائش میں ایک عام کیلے کو سفید دیوار پرڈکٹ ٹیپ سے چپکا کر، بہ طور فن پارہ پیش کیا۔
خاص بات یہ ہے کہ اس کے تین ایڈیشن (نئے ایڈیشن کے لیے گلے سڑے کیلے کو نئے، تازہ کیلے سے بدلنا ہوتا) ایک لاکھ بیس ہزار امریکی ڈالر میں فروخت ہوئے۔ کیٹیلان نے اس فن پارے، کا نام، کامیڈین رکھا۔ ان دونوں فن کاروں نے دراصل فن کی اصل ہی کو باور کرانے کی کوشش کی۔
فن کی اصل بنانا، ہے۔ کوئی بھی چیز، فن بنائی جاسکتی ہے۔ فن میں بنانے کا عمل مستقل ہے، بنانے کا کوئی طریقہ اور اسلوب مستقل نہیں ہے۔ تاہم کس مقام پر اور کس سیاق میں کوئی چیز بہ طور فن پیش کی جارہی ہے، اس کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔
مارسل ڈوشاں نے پہلی عالمی جنگ کے دنوں میں، اپنا فن پارہ، پیش کیا تھا۔ اس نے بس پیشاب گاہ کے پچھلے سوراخ کو آگے کردیا تھا۔ اس نے اسے فوارے کا نام دیا تھا اور اس پر فرضی دست خط کیے تھے۔ فوارہ، ایک نئے معنی کا حامل ہوگیا تھا۔
اسی طرح کیلے کے سلسلے میں کامیڈین کا لفظ بھی نئے معنی اختیار کر گیا تھا۔ یہ دونوں، اینٹی آرٹ کی مثالیں ہیں، یعنی آرٹ کی رائج صورتوں کو منہدم کرنے والی مثالیں۔ بایں ہمہ، ان کے ضمن میں، ایک سوال موجود رہتا ہے۔
یہ کہ فن، جب فن ہی کی اصل یعنی بنانے، کو صدمہ انگیز طریقے سے پیش کرتا ہے تو یہ کس سطح کا حامل ہوتا ہے؟
فن کی یہ سطح، سچائی اور معنی سے تعلق رکھتی ہے۔ فوارہ لغویت کے اور دیوار پر چپکا کیلامضحکہ خیزی کے معنی کی ترسیل کرتا ہے۔ لیکن ان معانی کی تخلیق، ہنگامی حالت میں کی گئی ہے۔
کم وبیش اسی طرح، جس طرح کسی ہنگامے میں، کسی کھڑکی کے ایک پٹ کو بہ طور ہتھیاراستعمال کیا جائے۔ ایک شے کو اس کے طے شدہ مقصد سے ہٹ کر استعمال کیا جائے۔ کھڑکی کے پٹ کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کے بعد حاصل، کیا ہوا؟ کیا محض توڑ پھوڑ ہوئی، یا ایک نئی تعمیر، ایک نیا نظم پیدا ہوا؟ ایک نئی گرہ کھلی اور ایک نیا راستہ وا ہوا؟ چناں چہ محض فن کی اصل کو باور کرانا، غیر اہم نہیں، مگر اہم فن کی تخلیق بھی ہے۔
فوارے اور کیلے میں صرف پہلا عمل ہے، دوسرا نہیں۔ پہلا عمل بھی بالکل ابتدائی سطح پر رونما ہوا۔
(ایک تازہ، غیر مطبوعہ مضمون سے اقتباس)۔