1. ہوم
  2. کالمز
  3. عمران امین
  4. احتساب کا نیا موسم

احتساب کا نیا موسم

تاریخ کا ایک بے رحم اور اٹل اصول ہے جسے اکثر طاقت کے ایوانوں کے مکین فراموش کر دیتے ہیں۔ "اختیار جب اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہیں سے اپنے زوال کا بیج بھی بو دیتا ہے"۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری تاریخ میں طویل عرصے تک یہ تاثر قائم رہا کہ طاقتور حلقوں بالخصوص عسکری ادارے کے اندر احتساب کا عمل یا تو سرے سے مفقود ہے یا پھر عوام کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہے لیکن معروضی حالات اور حالیہ واقعات نے اس تاثر پر کاری ضرب لگائی ہے۔

آج پاکستان میں فوجی عدالتوں کے فیصلے عوامی اور سیاسی بحث کے مرکز میں ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ وہی ادارہ جسے ماضی میں سیاست کو پس پردہ چلانے کے الزامات کا محور سمجھا جاتا تھا اب خود اپنے ہی سابقہ طاقتور ترین "بتوں" کو پاش پاش کر رہا ہے۔ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کا حالیہ کورٹ مارشل اور انہیں سنائی جانے والی 14 سال قید بامشقت کی سزا محض ایک عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ ہے جس کی گونج دہائیوں تک سنی جائے گی۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت ادارے کا ایک سخت گیر داخلی نظامِ احتساب ہمیشہ سے متحرک رہا ہے مگر اس کی شدت اور نوعیت وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے اگر ہم ماضی کوکھنگالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ادارے نے ڈسپلن کی "ریڈ لائن" عبور کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں 2016 میں ایک غیر معمولی اقدام کے تحت ایک لیفٹیننٹ جنرل اور ایک میجر جنرل سمیت 11 اعلیٰ فوجی افسران کو کرپشن کے الزامات پر برطرف کیا گیا۔

بعد ازاں جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں مئی 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو جاسوسی کے الزام میں 14 سال قید اور بریگیڈیئر راجہ رضوان کو سزائے موت سنائی گئی۔ تاہم حالیہ لہر زیادہ شدید ہے۔ مئی 2023 کے سانحے (9 مئی) کے بعد سے فوجی عدالتوں کا دائرہ کار وسیع ہوا ہے۔ دسمبر 2024 میں اعلان ہونے والی فہرست میں 60 افراد کو سزائیں سنائی گئیں جن میں دو ریٹائرڈ افسران شامل تھےجبکہ اس سے قبل 25 افراد کو سزا دی جا چکی ہے لہذا یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ ادارہ ہمیشہ کی طرح اپنی صفوں کے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف "زیرو ٹالرنس" کی پالیسی پر گامزن ہے۔

ٹاپ سٹی سے سیاسی جوڑ توڑ تک جنرل فیض حمید کا مقدمہ محض مالی بدعنوانی کا نہیں بلکہ یہ "اختیار کے نشے" اور "حلف سے روگردانی" کی داستان ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (FGCM) نے انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس مقدمے کا پس منظر انتہائی دلچسپ اور چشم کشا ہے۔ یہ معاملہ "ٹاپ سٹی" نامی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست سے شروع ہوا۔ ان کا الزام تھا کہ 2017 میں جب فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ان کے گھر اور دفتر پر چھاپے کے دوران وہاں سے سونا، ہیرے اور کروڑوں روپے نقدی غیر قانونی طور پر اٹھائے گئے اور بعد ازاں بلیک میلنگ کی گئی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر فوج نے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے الزامات کو درست پایا۔ لیکن معاملہ یہیں نہیں رکتا۔ چارج شیٹ میں صرف کرپشن نہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی "سیاسی جوڑ توڑ"، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی اور ریاست مخالف بیانیہ بنانے میں کردار ادا کرنے کے سنگین الزامات بھی شامل ہیں۔ مقدمہ تقریباً 15 ماہ تک چلا اور فوجی ذرائع کے مطابق ملزم کو دفاع کا مکمل موقع دیا گیا جبکہ سزا کے خلاف اپیل کا حق بھی محفوظ ہے۔ دوسری طرف اس فیصلے کے سیاسی اثرات اتنے گہرے ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔

جنرل فیض حمید کو تجزیہ کار سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت کا "آرکیٹیکٹ" قرار دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا بیانیہ طویل عرصے تک یہ رہا کہ وہ اور اسٹیبلشمنٹ "ایک پیج" پر ہیں اگر "سہولت کار" مجرم قرار پاتا ہے اور اسے اپنے حلف سے غداری کی سزا ملتی ہے تو جس کے لیے سہولت کاری کی گئی وہ کیسے بری الذمہ ہو سکتا ہے؟ گویا عمران خان کے لیے یہ فیصلہ دوہرے عذاب کی مانند ہے۔ وہ حلقے اور افسران جو فوج کے اندرونی نیٹ ورک میں عمران خان کے ہمدرد سمجھے جاتے تھے اس فیصلے کے بعد خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ ویسے بھی"اندر کی حمایت" کا تاثر اب دم توڑ رہا ہے۔

تحقیقات کا دائرہ کار 9 مئی کے واقعات سے بھی جڑتا ہے۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنرل فیض نے ادارے میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ عمران خان کو سیاسی فائدہ ہو تو یہ عمران خان پر بغاوت پر اکسانے کے مقدمات کو مزید مضبوط کر دے گا اگرچہ عمران خان کے حامی اس سزا کو سیاسی انتقام اور ریاستی جبر کا نام دے کر احتجاج کا مواد حاصل کر سکتے ہیں جیسا کہ 'فنانشل ٹائمز' اور دیگر بین الاقوامی ادارے لکھ رہے ہیں کہ اس کے پس پردہ فوجی اندرونی قوتوں کے تصادم کا امکان نظر آتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاسی بیساکھیاں ٹوٹ چکی ہیں۔

قانونی نقطۂ نظر سے یہ معاملات پیچیدہ بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز یا ریٹائرڈ افسران کے ٹرائل پر سپریم کورٹ اور سول سوسائٹی کی جانب سے اکثر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان عدالتوں کی شفافیت پر تنقید کرتی ہیں تاہم موجودہ عسکری قیادت کا پیغام واضح ہے: "احتساب گھر سے شروع ہوگا اور بلا امتیاز ہوگا"۔ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں اب "ریاست" نے "شخصیات" کے بتوں کی پرستش ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ واقعہ موجودہ اور آنے والے فوجی افسران کے لیے ایک سخت اور واضح پیغام ہے کہ وردی کی عزت اور تقدس اسی وقت تک قائم ہے جب تک وہ آئین اور حلف کے تابع ہیں۔ جب وردی پہن کر سیاست کی جائے گی تو انجام "کوٹ لکھپت" یا "اڈیالہ" نہیں بلکہ فوجی بیرک کی قید ہوگا۔

سیاسی جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ قوتیں جن کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی جاتی تھی اب وہ خود احتساب کی بھٹی میں جل رہی ہیں۔ پاکستان کا مستقبل اب نہ کسی "فیض" میں ہے اور نہ کسی "نجات دہندہ" میں بلکہ صرف اور صرف آئین کی بالادستی اور خود احتساب کے شفاف نظام میں ہے۔

عمران خان سمیت سیاسی میدان کے تمام کھلاڑیوں کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پرانے اسکرپٹ اب نہیں چلیں گے۔ یہ فیصلہ یہی بتاتا ہے کہ فرد چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ریاست اور قانون کا ہاتھ بالآخر اس کے گریبان تک پہنچ ہی جاتا ہے۔