تاریخ کے کسی بھی دوراہے پر جب ریاست اور انا، کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو وہاں منطق اکثر جذبات کی دھند میں گم ہو جاتی ہے لیکن قوموں کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو محض خبر نہیں ہوتے بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 5 دسمبر 2025 کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا ایک ایسا ہی سنگِ میل ہے جسے محض ایک پریس بریفنگ کہنا تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔
یہ دو مختلف دنیاؤں کا ٹکراؤ ہے ایک طرف ریاست کی بقا کا ضامن ادارہ ہے اور دوسری طرف ایک "دلیوجنل مائنڈسیٹ" (Delusional Mindset) کا سحر، جو اپنی ذات کے حصار میں قوم کی سلامتی کو داؤ پر لگانے سے دریغ نہیں کر رہا۔ اس پریس کانفرنس کا پس منظر سمجھنے کے لیے ہمیں گہرائی میں جھانکنا ہوگا۔
حال ہی میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بطور پاکستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز، (CDF) تقرری اور تینوں مسلح افواج کے مربوط آپریشنز کے لیے نئے اسٹرکچر کا قیام حقیقت میں ریاست کے دفاعی نظام میں ایک اہم تبدیلی ہے۔ یہ تقرری دراصل اس عزم کا اعادہ ہے کہ ریاست اداروں کی مضبوطی اور ملکی سالمیت کی طرف تیزی سےگامزن ہے لیکن عین اسی وقت جب ریاست اپنی صفیں درست کر رہی ہے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اور سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑوں کے ذریعے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا جسے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور پر "نیشنل سیکیورٹی تھریٹ" قرار دیا۔ یہ محض سیاسی مخالفت نہیں تھی یہ ایک منظم مہم تھی جس کا مقصد فوج کی کمانڈ اور عوام کے درمیان وہ خلیج پیدا کرنا ہے جس کے لیے دشمن دہائیوں سے منتظر بیٹھا ہے۔
کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے عمران خان کے لیے "ذہنی مریض" اور "دلیوجنل" جیسے سخت الفاظ استعمال کیے۔ بظاہر یہ الفاظ ذاتی حملہ محسوس ہو سکتے ہیں لیکن اگر ہم فلسفۂ نفسیات اور سیاسی حرکیات کا مطالعہ کریں تو یہ ایک خوفناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب کوئی لیڈر اپنی ذات کو ریاست سے بالا تر سمجھنے لگے اور یہ گمان کر لے کہ "میرے بغیر دنیا ختم ہو جائے گی" تو وہ سیاسی رہنما نہیں رہتا بلکہ نرگسیت (Narcissism) کا شکار ایک ایسا کردار بن جاتا ہے جو اپنی انا کی تسکین کے لیے پورے نظام کو آگ لگانے پر تیار ہو۔
یہ بیانیہ 9 مئی 2023 کے سانحات سے شروع ہو کر بجلی کے بل نہ دینے، ترسیلاتِ زر روکنے، ملکی انتشار اور سول نافرمانی کی کالز تک پہنچ چکا ہے۔ یہاں منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا کوئی محبِ وطن لیڈر اپنی فوج کو کمزور کرکے، معیشت کا گلا گھونٹ کر اور عالمی سطح پر اپنے ملک کے اداروں کو بدنام کرکے اقتدار کا حقدار ہو سکتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ استدلال وزن رکھتا ہے کہ یہ بیانیہ اب آرٹیکل 17 اور 19 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔
عمران خان کے حامی اور دانشور اکثر اپنے موقف کی حمایت میں میانمار، ترکی، مصر یا سوڈان کی تحریکوں کی مثالیں دیتے ہیں جو ایک "فکری بددیانتی" ہے۔ آئیے اس موقف کا تحقیقی اور منصفانہ تقابل کریں۔ میانمار میں 2021 کی "سول ڈس اوبیڈینس موومنٹ" (CDM) یا مصر کی تحریر اسکوائر کی جدوجہد براہِ راست "فوجی آمریت" کے خلاف تھی جہاں فوج ملک کی حکمران تھی اور عوام جمہوریت کی بحالی مانگ رہے تھے۔ اس کے برعکس پاکستان میں فوج حکمران نہیں بلکہ ایک آئینی اور دفاعی ادارہ ہے جو 2025 میں ہی 13 ہزار سے زائد انٹیلی جنس آپریشنز کر چکا ہے اور جس کے افسر اور جوان روزانہ سرحدوں پر خون کا نذرانہ دے رہے ہیں۔ جب آپ پاکستان کی فوج کا موازنہ میانمار کی فوج سے کرتے ہیں تو آپ دراصل اپنے محافظ کو "غاصب" بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں یہ وہی بیانیہ ہے جو ہندوستان اور افغانستان والے چاہتے ہیں جیسا کہ پریس کانفرنس میں شواہد کے ساتھ دکھایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے نکلنے والا جھوٹ منٹوں میں انڈین اور افغان میڈیا کی سرخی بن جاتا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ ملی بھگت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی سیاسی تحریکیں دشمن ملک کے بیانیے کو تقویت دے کر کامیاب نہیں ہوتی ہیں۔ افسوس پی ٹی آئی کا بیانیہ قوم کو توڑ رہا ہے اور اسے ملکی سلامتی کے لیے خطرناک بناتا ہے۔ عالمی تحریکوں سے جو سبق سیکھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ فوج اور عوام کا ٹکراؤ ہمیشہ ریاست کو کمزور کرتا ہے۔ میانمار میں خانہ جنگی ہوئی، سوڈان تباہی کے دہانے پر پہنچا۔ پاکستان جو پہلے ہی معاشی چیلنجز اور دہشت گردی سے نبردآزما ہے ایسے کسی ایڈونچر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اب ہم ملکی حالات کی بات کریں تو خیبر پختونخوا کی صورتحال اس بیانیے کی سب سے تلخ حقیقت بیان کرتی ہے یہاں پی ٹی آئی پچھلے 12 سال سے حکمران ہے وہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کو روکنے کے مطالبات کرنا اور "خارجی فتنے" سے نرم رویہ رکھنا، کیا معنی رکھتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے درست نشاندہی کی کہ یہ ایک "کرائم، دہشت، سیاست نیکسس" ہے جو سمگلنگ، منشیات اور مختلف مافیاز کو تحفظ دیتا ہے۔ جب ایک سیاسی جماعت دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو "اپنے لوگوں کا قتل" کہے تو وہ دراصل ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہی ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس تمام صورتحال کا منطقی اور فکری نچوڑ کیا ہے؟ یاد رکھیں ریاست سپریم ہوتی ہے۔ کوئی بھی بیانیہ خواہ وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو اگر وہ ریاست کی بنیادوں (آئین اور سیکیورٹی) کو کھوکھلا کرے تو اسے روکنا ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنا یا ملاقاتوں پر پابندی اسی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے جسے "ڈیجیٹل دہشت گردی" کا سدِباب کہا جا سکتا ہے۔
بطور پاکستانی ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ "فرد" فانی ہے اور "ریاست" باقی رہنے والی حقیقت۔ عمران خان کا موجودہ بیانیہ مایوسی، سیاسی انتقام اور حقیقت سے انکار کا ایک خطرناک امتزاج ہے جو نوجوان ذہنوں کو زہر آلود کر رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے لکیر کھینچ دی ہے اب گرے ایریا کی گنجائش نہیں رہی۔ یا تو آپ ریاست اور اس کے محافظوں کے ساتھ ہیں یا پھر آپ اس بیانیے کے ساتھ ہیں جو دشمن کی زبان بول رہا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے حقائق کی روشنی میں فیصلہ کریں۔ جوش کو ہمیشہ حکمت کے تابع ہونا چاہیے کیونکہ جو قومیں اپنے محافظوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالتی ہیں تاریخ گواہ ہے کہ پھر ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں بچتا۔