فریبِ بخیہ گری سے بھی کچھ ہوا کہ نہیں
ہمارا سینہِ صد چاک ابھی سلا کہ نہیں
کمال دن تھے کہ وہ مجھ سے پوچھا کرتی تھی
بتاؤ اچھی لگی ہاتھ پر حنا کہ نہیں
یہ دیکھنا ہے کہ باغوں میں تتلیاں اب کے
قبول کرتیں ہیں پھولوں کی التجا کہ نہیں
بس اس کی آنکھ میں آنسو نہ آنے پائے کبھی
بھلے تُو میرے لیے زندگی بنا کہ نہیں
جو قفلِ حبسِ زمانہ کی نذر رہتا تھا
وہ موجِ بادِ صبا سے بھی در کھلا کہ نہیں
جو دشت دشت بھٹکتے پھرے خدایا انہیں
ثباتِ سایہِ سرو و سمن ملا کہ نہیں