1. ہوم
  2. کالمز
  3. ناصر عباس نیّر
  4. لوگ ہماری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟

لوگ ہماری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟

میں، رسول حمزہ توف، خود ہی لوگوں کو مخالفت کا موقع دیتا ہوں۔ میں شاعری لکھتا ہوں، سناتا ہوں، شاعری پر گفتگو کرتا ہوں، اپنی زبان کی مدح کرتا ہوں، اپنے ابا کا ذکر کرتا ہوں۔ میں لوگوں کو ایک سے زیادہ جگہوں پر دکھائی اور سنائی دیتا ہوں۔ کاغذ پر، ریڈیو پر، ٹی وی پر۔ جلسوں میں، تقریبات میں۔ سدا میں، داغستان میں، ماسکو، پورے روس، دنیا کے کئی شہروں میں۔

میں اس وقت بھی یہاں اپنے گاؤں میں، اپنے کمرے میں، کھڑکی کے پاس بیٹھا یہ لکھ رہا ہوں۔ کیا میں محض یہیں موجود ہوں؟ اگر یہیں موجود ہوتا تو کوئی میری مخالفت نہ کرتا۔ یہاں اس کمرے، اس گھر میں، اس کھڑکی کے سامنے موجود درختوں اور ان پر بیٹھے پرندوں، حشرات، سامنے آسمان کے نیلے ٹکڑے میں اڑتے بازوں اورا ن سے نیچے کووں میں سے، کوئی بھی میرا مخالف نہیں ہے۔

جو اس وقت مجھے یہاں دیکھ رہا ہے، یا محسوس کررہا ہے، وہ میرا مخالف نہیں ہے۔ میرے مخالف وہی ہیں، جو مجھے، ایک جیتے جاگتے وجود کے طور پر نہیں دیکھتے، رسول حمزہ توف کو جابجا محسوس کرتے ہیں۔ مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو میرے جسم وجاں کا دشمن ہو، جتنے مخالف ہیں، وہ اس ہیولے کے مخالف ہیں، جسے رسول حمزہ توف کہتے ہیں۔

میں یہاں بیٹھا ہوں، مگر وہ ہیولا کتنی ہی جگہوں پر موجود ہے۔ میرا یہی جابجا موجود ہونا ہی میری مخالفت کا سبب ہے۔ یہاں سدا کی گلیوں میں کتنے کسان، کتنے چرواہے رہتے ہیں، جن کا اس پورے داغستان میں کوئی مخالف نہیں ہے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنا کوئی ہیولا پیدا نہیں کیا۔

ان کے نام، سدا کی گلیوں سے آگے نہیں گئے۔ لوگوں کو میرے جسم وجاں سے نہیں، میرے نام اور اس نام سے لکھی گئی تحریروں کے پیدا کردہ ہیولے سے الجھن ہوتی ہے۔

میں جہاں جہاں، اپنے نام اور ہیولے کے ساتھ موجود ہوں، وہیں مجھے سراہنے والے بھی ہیں اور برا بھلا کہنے والے بھی۔ یہ نام اور ہیولا، دوسروں کے مضطرب دلوں کو راحت وجمال کے کئی لمحے بھی مہیا کرتا ہے، ان کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے، انھیں نئی دنیاؤں میں لے جاتا ہے اور کچھ کے لیے بے چینی وعدم تحفظ کے کئی اسباب مہیا کرتا ہے۔

وہ سب جن کے دل راحت وجمال کی آرزو سے زیادہ، اپنے نام اور ہیولے کو جابجا دیکھنے کے جنون میں مبتلا ہوتے ہیں، جب ان کا سامنا رسول حمزہ توف کے نام اور ہیولے سے ہوتا ہے تو ان کے دل ایک قدیمی خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنے خاتمے کا خوف۔ یہ سب سے قدیمی خوف ہے۔

لاکھوں سال پہلے آدمی کو لگتا تھا کہ جنگل میں کوئی چیز آئے گی اور اسے اچانک نگل لے گی۔ وہ ہر وقت چوکنا رہتا اور ذہن میں ایک دشمن مخلوق کا تصوّر قائم کیے رکھتا۔ میرے مخالفین نفسیاتی طور پر ابھی تک ایک جنگل میں ہیں، انھیں لگتا ہے کہ رسول حمزہ توف، ان کی شہرت کو نگل لے گا۔

وہ صرف میرے مخالف نہیں ہیں، وہ ان سب کے مخالف ہیں، جن کے نام اور ہیولے انھیں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہر وقت اس اندیشے کا شکار ہیں کہ کوئی انھیں نگل لے گا۔ وہ ان کی مخالفت کرکے، ان پر الزامات، بہتان، جھوٹ باندھ کر، دراصل خود انھیں نگلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ سب نامور لوگوں کی ناموری کو پرزے پرزے کردینا چاہتے ہیں۔

مضطرب اور خوف زدہ شخص کسی اخلاقی اصول کو نہیں مانتا۔ اسے جھوٹ، جھوٹ نہیں، اپنی بقا کا اصول نظر آتا ہے۔

میں، رسول حمزہ توف، اگر اپنی بستی کا ایک کسان یا چرواہا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ، ایک آدھ کسان یا چرواہا ہی میرا مخالف ہوتا۔ لیکن ایک چرواہے کی دوسرے چرواہے کی مخالفت اور ایک شاعر کی دوسرے شاعر کی مخالفت میں بہت فرق ہے۔

ایک چرواہا، کسی چراگاہ پر حق ملکیت کے سبب، دوسرے چرواہے کا مخالف ہوسکتا ہے، جب یہ جھگڑا نپٹ جاتا ہے تو مخالفت ختم ہوجاتی ہے، لیکن ناموری کے طالب ایک شاعر کی، دوسرے شاعروں کی مخالفت ختم نہیں ہوتی۔

ناموری کی حرص کی کوئی آخری منزل نہیں ہے۔ ناموری کا طالب، ہر دوسرے نامور کو نگل جانا چاہتا ہے۔

جب کوئی شخص، تہذیب، اخلاق، شائستگی، نرمی، مروّت اور ہمدردی کو ترک کردیتا ہے تو ان کی طرف لوٹا نہیں کرتا۔ وہ تہذیب وشائستگی سے عاری زبان اور لہجے کو سدا برقرار رکھتا ہے۔

رسول حمزہ توف، جب یہ سمجھ گیا کہ اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے تو اس کے پاس دو راستے تھے۔

پہلا ابوطالب کا اختیار کردہ راستہ تھا۔ میں بھی مخالفین کے منھ بند کرنے کے بجائے، انھیں توڑنے کی کوشش کرتا۔ تب کیا ہوتا؟ میں ایک ایسا شخص بن جاتا ہے، جو ہاتھ پر دستانے چڑھائے، کوئی بڑی سی لاٹھی پکڑے، یا بندوق تھامے پھرتا۔

جہاں مخالف نظر آتا، اسے دعوتِ مبارزت دیتا۔ میں ایک جنگجو بن کررہ جاتا۔ پہلے حقیقی مخالفین سے لڑتا، پھر خیالی مخالفین سے دنگل کرتا۔ نفرت، بدلہ، سبق سکھاناجیسے جذبات مجھ پر طاری رہتے۔

رسول کا دل، جو عالم کے سب دکھوں پر رویا کرتا ہے، وہ محض اپنی مصیبت محسوس کرنے پر کیسے اکتفا کر لیتا؟

اپنی مصیبت کو محسوس کرنا جائز ہے، اس کے سبب جنگ کرنا بھی برا نہیں، مگر کئی جائز، مباح اور روا باتوں کی بھی ایک قیمت ہے، کئی بارتو بھاری قیمت ہے۔

اپنے دل میں حقیقی مخالفین کی نفرت کو بھرلینا، گویا اپنے پورے وجود میں ایک زہر بھر لینا ہے۔ ایک زہر بھرا وجود، مثالی انتقام تو لے سکتا ہے، بے مثل شعر تخلیق نہیں کرسکتا۔

نفرت اور دشمنی پر شاعری لکھی جاسکتی ہے، اوّل درجےکا فکشن بھی، مگر ان کی زد پر آیا ہوا دل، ایک زندہ مصرع موزوں نہیں کرسکتا۔ رسول، اپنی زمین، اپنے لوگوں، اپنی زبان، اپنی شاعری اور اپنی روح سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔ اپنی رو ح میں دنیا کی سب مخلوقات کے لیے حقیقی رحم اور سچی، بے ریا محبت پیدا کیے بغیر، نظم کی ایک سطر نہیں لکھی جاسکتی۔

میرے مخالفین کے قلم سے میرے لیے بہتان ٹپکتا ہے، کسی نظم کا کوئی دل پذیر ٹکڑا کبھی سرزد نہیں ہوا۔

آدمی کئی بار خود کو اپنے اندر پھانسی لگایا کرتا ہے۔

خود کو پھانسی لگانے کے بعد، آدمی اپنا مرثیہ بھی نہیں لکھ سکتا!

دوسرا راستہ، رسول نے خود دریافت کیا۔ یہ راستہ خاموشی کا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت خاموشی پر بزدلی کا شائبہ ہو، مگر رسول سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ وہ بزدل نہیں ہے۔

بزدل اور راست دل میں فرق ہوتا ہے۔ راست دل کی ایک اپنی طاقت ہوا کرتی ہے، جو کسی کو متاثر کرنے، انتقام لینے یا کسی کا استحصال کرنے کے لیے نہیں، خود کو باوقار انداز میں برقرار رکھنے کے کام آیا کرتی ہے۔ سب سے باوقار انداز تخلیقی طور پر زندہ ہونا ہوا کرتا ہے۔

بزدل شخص، اپنے غصے پر قابو نہیں پاسکتا، مصائب کو نہیں جھیل سکتا، کئی دہائیوں تک اپنی روح کی افسردگی کے ساتھ جی نہیں سکتا، بار بار کی شکستگی کے باوجود، نئے دن، نئے لوگوں، نئی کتابوں، نئے خیالات کے استقبال کے لیے کشادہ نہیں ہوسکتا۔

بزدل، اپنی کوئی بڑی کامیابی سہار سکتا ہے، نہ کوئی بڑی ناکامی۔

رسول کا دل، ان دونوں کو سہارتا رہا ہے۔

رسول کے دل میں دشمنوں کے تیر پیوست ہوتے رہے ہیں، اس نے تقدیر کے خنجر کو بھی اپنی روح کی گہرائی میں اترا ہوا محسوس کیا ہے، ان کا درد پوری شدت سے محسوس کیا ہے، اس نے شکوہ ضرور کیا ہے، وہ گہری افسردگی کا شکار بھی ہوا، مگر اس سب کو لکھنے کی جرأت بھی کرتا رہا ہے۔

(زیر طبع میراداغستانِ جدید، سے اقتباس)