1. ہوم
  2. کالمز
  3. ناصر عباس نیّر
  4. پیوستہ رہ شجر سے

پیوستہ رہ شجر سے

عزیز دوست، ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی، پر نسپل، اسلامیہ کالج، سول لائنز، لاہور کی دعوت پر "پیوستہ رہ شجر سے۔۔ " کے عنوان سے گفتگو کی۔ یہ گفتگو، نیازی صاحب کی قائم کی گئی انجمن "خاموش بہار" کے ضمن میں تھی۔ وہ نہ صرف اردو میں ماحولیاتی تنقید کے کلامیے کے بنیاد گزار ہیں، بلکہ عملی طور پر ماحول کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ اپنے دفتر اور تقریبات میں پانی کے لیے پلاسٹک کی بوتل کا استعمال نہیں کرتے۔ انھوں نے "ایک پودا، ماں کے لیے" (اپنی اور دھرتی ماں) کے عنوان سے ایک مہم کا بھی آغاز کیا ہے۔ کالج میں، مجھے بھی یہ موقع دیا کہ میں اپنی اماں کے نام پر ایک پودا لگاؤں۔

میری گفتگو چالیس منٹ کے قریب تھی۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایک سرکاری کالج کے انٹر اور بی ایس کے طالب، علم بڑی تعداد میں، آخرتک ہال میں موجود رہے۔

میری گفتگو کے چند نکات۔

میں نے اقبال کی نظم سے ٹکڑا: "پیوستہ رہ شجر سے۔۔ " منتخب کیا تھا۔ اقبال نے شجر کو ملت کا استعارہ بنایا تھا: "ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ/ پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ" جب کہ میں نے گزارش کی کہ شجر کواس کے لغوی معنی میں بھی لیا جانا چاہیے۔ زمین کے درختوں سے وابستہ رہ کر ہم، زمین پر بہار کی امید رکھ سکتے ہیں۔ بہار، جو موسموں کے گلدستے میں، گل سرسبد ہے۔

لیکن اب اسی گل سرسبد پر خزاں کی خاموشی مسلط ہوتی جارہی ہے۔

ریچل کارسن، امریکی بحری حیاتیات کی ماہر تھیں اور اسی سے متعلق کتب لکھتی تھیں۔ 1962ء میں اس نے ایک کتاب شائع کی۔ خاموش بہار(Silent Spring)۔ اس کی مراد، ایک ایسی بہار سے تھی، جس میں پھول تھے نہ طیور کے نغمے۔ یہ کتاب، ڈی ڈی ٹی کے سپرے سے ماحول کو پہنچنے والے نقصانات سے متعلق تھی۔

اس کتاب کا مرکزی نکتہ یہ تھا: ہر شے، دوسری سے جڑی ہے۔

انسانی صحت کے لیے مضر کیڑوں، مچھروں کے لیے کیا جانے والا سپرے، بہار کا بھی قاتل تھا۔ کیسے؟

امریکی دیودار کے درخت کے تنے پر لگنے والی پھپھوندی پر کچھ بھنورے آیا کرتے جو انسانوں کے لیے ضرررساں تھیں۔ ان پر سپرے کیا جاتا۔ یہ سپرے پتوں پر جم جاتا۔ پتے خزاں میں زمیں پر گرتے۔ گل سڑ کر زمین کا حصہ بنتے تو سپرے کے زہریلے مادے زمین میں پہنچتے۔ زمین میں رہنے والے کیچوے، اسے جذب کرتے۔ بہار میں گانے والی چڑیا رابن ان کیچووں کو کھاتی تو مر جاتی۔

جہاں یہ سپرے کیا گیا ہوتا، وہاں بہار کے موسم میں بولنے والی چڑیا، غائب ہوتی۔ یوں بہار خاموش ہوتی۔

بہار کی یہ خاموشی گویا نغمے کی موت ہے۔ دنیا میں رنگ اور صوت کی موت ہے۔

یہی سپرے، جب فصلوں پر کیا جاتا تو ہماری خوراک میں شامل ہوکر، ہماری ہڈیوں میں شامل ہوجاتا ہے۔

دیکھیے، کس طرح پھپھوندی، پتے، کیچوے، چڑیاں، آپس میں جڑے ہیں۔

ایک نامعلوم شاعر کا شعر ہمیں سکولوں میں پڑھایا جاتا تھا۔

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

ہمیں مگس یعنی شہد کی مکھی اور پروانے میں تعلق تلاش کرنا مشکل محسوس ہوتا، مگر اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ کس طرح شہد کی مکھی پھول کے رس سے شہد بناتی، شہد سے موم بنتا ہے، موم جلتا ہے تو پروانہ آتا ہے اور جل مرتا ہے۔ کس طرح پھول کا رس، کئی سلسلوں سے گزرتا ہوا، پروانے کی سانس کی ڈوری تک پہنچتا ہے۔ یہ شاعرانہ بات تو ہے، مگر اب سائنسی صداقت بھی ہے کہ ہر شے، دوسری سے جڑی ہے۔

زمین پر زندگی کی ایک زنجیر ہے۔ ایک کڑی ٹوٹتی ہے تو پوری زنجیر متاثر ہوتی ہے۔

مشہور مثال، امریکا کے Yellowstone National Park کی ہے۔ جہاں 1900 کے ابتدائی سالوں میں، بھیڑیے ختم کردیے گئے تھے۔ بھیڑیے، ہرن اور ایلک کا شکار کرتے تھے۔ ان کی تعداد بڑھ گئی۔ انھوں نے وِلو اور ایپسن درختوں کے پتے زیادہ کھائے، درخت کم پڑگئے۔ پرندوں کو گھونسلے بنانے کے لیے درخت میسر نہیں آئے۔ درخت کم ہوئے تو سگ آبی (Beavers) نے اپنے رہنےکے لیے، چھوٹے چھوٹے بند نہیں بنائے جو عام طور پر کسی تالاب کے بیچ میں ہوتے ہیں۔ نئے تالاب نہیں بنے، جہاں مزید درخت، جھاڑیاں اور پودے اگتے۔ پانی اور پودے، حشرات، مینڈکوں اور مچھلیوں کو دعوت دیتے ہیں۔ سگِ آبی کم ہوئے تو پانی کے تالاب کم ہوئے، مچھلیاں، مینڈک، حشرات کم ہوئے۔ گویا پورا ماحول متاثر ہوا۔ یہاں تک کہ بھیڑیے دوبارہ وہاں لائے گئے۔

کائنات میں بھی ایک زنجیر ہے۔ ہر وجود، دوسرے وجود سے جڑا ہے۔ کارل ساگاں نے کہا تھا: We are made of star dust

یہ محض شاعرانہ بات نہیں ہے۔ سائنسی سچائی ہے۔ ہم سب انسان اپنی ترکیب میں، کاربن، آکسیجن، نایٹروجن، کیلشیم، آئرن رکھتے ہیں۔ یہ سب عناصر، ستاروں میں موجود ہیں۔ جب یہ ستارے بوڑھے ہوگئے اور سپر نووا کی صورت فضا میں بکھر گئے۔ ان کے ساتھ یہ عناصر فضا میں بکھر گئے۔ انھی کی راکھ سے نئے ستارے، نباتات اور ہم بنے ہیں۔ ہمارے خون اور ہڈیوں میں انھی ستاروں کی راکھ ہے۔ ہماری عمریں اربوں سال ہیں۔ ہم اپنی پیدائش کے اوّلین لمحے میں بوڑھے ہوتے ہیں۔

جمال احسانی نے کہا تھا:

جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے سے آیا ہے

المیہ یہ ہے کہ فطرت سے انسان کے اس گہرے اور کثیر اطراف تعلق میں دراڑ پیدا ہوئی ہے، خود انسان ہی کے ہاتھوں۔ جدید انسان نے (جدیدیت، سرمایہ داریت، سائنس پرستی (جو سائنس سے مختلف) کے سبب) ماحول کے ساتھ جینے کے بجائے، اسے تسخیر کرنا شروع کیا۔ اسے کولونائز کیا۔ اس کا بدترین استحصال شروع کیا۔ اس سے بیگانگی اختیار کی۔ اس کے نظم میں خلل ڈالا۔ مسلسل ترقی کا واویلا کیا۔ زمین کی تہ میں ایٹمی دھماکوں سے تبدیلیاں کیں۔ اب زمین کا سینہ پھٹنے کے قریب ہے۔

زندگی کو برقرار رکھنے میں درخت، سب سے اہم مگر سب سے خاموش کردار ادا کرتے ہیں۔

درخت زمین کے پھیپھڑے ہیں، مگر ان کا قتلام ہر لمحہ ہورہا ہے۔ برساتی جنگل ہر منٹ میں چالیس فٹ بال میدانوں کے برابر رقبہ کھورہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے سے درخت کاٹے جارہے ہیں۔ پاکستان ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ موسم میں حدت، گلیشر کا پگھلنا، بدترین سیلاب، بادلوں کا پھٹنا۔ بستیوں، فصلوں کا اجڑ جانا۔

مجید امجد نے توسیع شہر میں درختوں کے قتلام کا نوحہ لکھا تھا۔

خلیل جبران نے لکھا ہے کہ:

درخت وہ نظمیں جنھیں زمین آسمان پر لکھتی ہے۔

ہم انھیں کاٹتے ہیں اور کاغذ میں بدل دیتے ہیں۔

اس طرح ہم اپنے خالی پن کی تاریخ رقم کرتے ہیں۔

اس سے بڑا تناقض کیا ہوگا کہ ہم اپنے خالی پن کو لکھنے کے لیے زمین کی لکھی نظموں کا قتلام کرتے ہیں۔

مایا انجلو نے عظیم درختوں کے گرنے پر ایک لازوال نظم لکھی ہے۔

جب عظیم درخت گرتے ہیں، تو دور دراز پہاڑیوں پر چٹانیں لرز اٹھتی ہیں

شیر دبک جاتے ہیں اونچی گھاس میں

اور ہاتھی بھی تحفظ کی تلاش میں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں

جب عظیم درخت گرتے ہیں جنگلوں میں، تو چھوٹی مخلوقات سہم کر خاموش ہو جاتی ہیں

درختوں کے کٹنے، گرنے کا صدمہ چٹانوں سے لے کر شیراور ہاتھی جیسی بڑی اور چھوٹی مخلوقات تک محسوس کرتی ہیں، مگر انسان؟

تقریب کے آخر میں اس تاریخی کالج کے کچھ تاریخی مقامات بھی دیکھے۔ رنجیت سنگھ کے اہل خانہ کی تین سمادھیاں اور بھگت سنگھ سے منسوب کچھ جگہیں۔

آخر میں نیازی صاحب کے لیے ڈھیر ساری داد۔