1. ہوم
  2. کالمز
  3. ناصر عباس نیّر
  4. کیا گھوڑے خطا نہیں کرتے؟

کیا گھوڑے خطا نہیں کرتے؟

تنقید ادب ہی کے لیے نہیں ادیب، قاری، سماج سب کے لیے بے حد اہم ہے۔

بعض تخلیق کار کہتے ہیں کہ انھیں تنقیدی نظریات کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہوتا ہے کہ وہ تو براہ راست رحمان کے شاگرد، یعنی تلمیذ الرحمٰن ہیں، اس لیے انھی کسی بندے بشر کی لکھی ہوئی تنقید کیا فائدہ دے سکتی ہے، بندہ بشر بھی وہ جو خود تخلیقی تجربے سے نہیں گزرا۔

ہر تخلیق کار کے یہاں اپنی عظمتِ ذات کا تصور ہوتا ہے، کسی کے یہاں کم، کسی کے یہاں زیادہ۔ کچھ باقاعدہ اپنی عظمت کے جنون میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ ویسے، عظمت اور جنون میں گہرا نفسیاتی رشتہ ہے۔ اپنے "فرمائے" کو مستند سمجھنے کی روش، اکثر لکھنے والوں کے یہاں ملے گی، خواہ وہ اس کا میر کی طرح اعلان کریں یا نہ کریں۔

اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی عظمت کا تصور، کہیں باہر سے نہیں، خود اپنے تخلیقی تجربے سے اخذ کرتا ہے۔ تخلیق کاروں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیقی تجربہ، حسیات، مشاہدے، تجربے، معلوم کی حدوں کو پگھلادیتا ہے اور ایک انوکھی، نئی، طلسماتی دنیا کا در کھولتا ہے۔

اس دنیا کو میوزز کی دنیا دیوی دیوتائوں کی دنیا یا ماورائی دنیا کہا گیا ہے۔ تنقید اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے کہ کیا تخلیق کار، جس ساتویں در کو کھولنے کا دعویٰ کرتا ہے، یہ در کیا واقعی ہماری معلوم دنیا سے باہر ہے یا صرف ہمارے علم سے باہر ہے؟

نیز یہ کہ نامعلوم دنیا سے تخلیق کار کے عارضی تعارف کا اثر اس کی اپنی ذات یا انا پر کیا پڑتا ہے؟ کیا وہ اس تجربے کو اپنی انا کی کبریائی کا ذریعہ بناتا ہے یا انا شکنی کا۔ زیادہ تر پہلی صورت دکھائی دیتی ہے۔ کبریائی انا، تنقید ہی نہیں کسی بھی علم۔۔ یہاں تک کہ عام لوگوں اور معاصر تخلیق کاروں کو بھی حقیر سمجھتی ہے۔ کبریائی انا مدح پسند کرتی ہے، نقد نہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مدح کرنے والے کے لیے یہ شرط نہیں کہ وہ تخلیقی تجربے سے گزرا ہے کہ نہیں۔

سب نہیں، اردو کے بیش تر تخلیق کار (اور ان میں بھی شعرا عموماً) کسی بھی طرح کا مطالعہ کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایک اس لیے کہ وہ اس یقین کے حامل ہوتے ہیں کہ انھیں شعر عطا ہوتا ہے۔ دو یہ کہ وہ مطالعے کو وہ اپنی اورجنیلٹی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

آپ رومی، حافظ، فردوسی، کالی داس ورجل، کبیر، غالب، اقبال، بلھے شاہ، بھٹائی سے لے کر ملٹن، ڈانٹے، شیکسپیئر، گوئٹے، بادلیغ، ایلیٹ، بورخیس، مارکیز، کنڈیرا، چنو اچیبے، ناظم حکمت، نرودا، سارتر، کامیو، کافکادنیا کے کسی بڑے ادیب و شاعر کو دیکھیں وہ سب اپنے زمانے کے بیشتر علوم کے فاضل تھے۔ بیشتر نے خود بھی تنقیدی تحریریں لکھیں۔

تنقید ایک سرگرمی کے طور پر عقلی ہے، محدود سطح پر اس کا مطالعہ فنی اصولوں سے روشناس کراتا ہے، مگر بڑی سطح پر آپ کے تخیل میں بھی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ تخیل ایک بشری صلاحیت ہے۔ بلاشبہ اسی کی مدد سے تخلیق کار نئی دنیا سے متعارف ہوتا ہے یا اسے اختراع کرتا ہے، لیکن یہ کوئی اپنے آپ میں محصور صلاحیت نہیں۔

یہ ایسی صلاحیت نہیں کہ جس میں نمو کا میلان نہ ہو یا جو باہر کے تجربات، علم وغیرہ کے لیے اپنے دروازے بند رکھتی ہو۔ مطالعے کی وسعت تخیل کی اساس میں گہرائی اور اس کی نمو کا اہتمام کرتی ہے۔

اسی طرح ادب کے قارئین کے یہاں تنقید کے مطالعے سے، ادب کو وسیع تاریخی، نفسیاتی، ثقافتی تناظر میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ قارئین کا ایک گروہ ادب کو محض مسرت کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ تسلیم کہ یہ مسرت بہت اہم ہے، کیوں کہ یہ بے غرض اور بے لوث ہے اور ہمیں انسانی سطح پر زندگی بسر کرنے کے لیے آرٹ سے ملنے والی مسرت کی از حد ضرورت ہے مگر ادب کو محض اس مسرت تک محدود کرنا، ادب کے سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی کردار کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔

اچھی تنقید ادب کے کردار کا وسیع تصور دیتی ہے۔ اچھے، کم اچھے، بہت اچھے اور بہترین ادب کے معیارات وضع کرتی ہے اور انھیں دلائل سے واضح کرتی ہے۔ نیز ادب میں ان کہی، استعارے اور سمبل ہوتے ہیں، جنھیں تنقید کے بغیر واضح کیا ہی نہیں جاسکتا اور ان کا غیر واضح رہنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کے گھر میں خزانہ ہو مگر آپ اس سے آگاہ نہ ہوں۔ ادب اپنی خاموشی و ان کہی اور اپنے سمبل کی مدد سے انسانی ہستی، سماج، تاریخ، عصر کے بارے میں ایک ایسی بصیرت پیش کرتا ہے جو تاریخ، فلسفے، نفسیات کی کتابوں میں بھی نہیں ملتی۔

اس بصیرت کو تنقید نہ صرف واضح کرتی ہے، بلکہ اس کی اہمیت ومعنویت بھی سامنے لاتی ہے اور کبھی کبھی اس بصیرت کو چیلنج بھی کرتی ہے۔ یہ بات تخلیق کاروں اور ان کے مداحوں کو ناگوار گزرتی ہے اور وہ تنقید کو اس مکھی سے تشبیہ دیتے ہیں جو گھوڑے کوپریشان کرتی ہے۔ گھوڑا اسی زمین کی مخلوق ہے، اسے ماننے میں کیا حرج ہے کہ اس سے بھی خطا ہوسکتی ہے اور کوئی اس خطا پر گرفت کرسکتا ہے، خواہ وہ مکھی کی مانند حقیر ہی کیوں نہ ہو۔