1. ہوم
  2. کالمز
  3. ناصر عباس نیّر
  4. جنگ کی حقیقی لغویت اور مقتدر اشرافیہ کی رومان پسندی

جنگ کی حقیقی لغویت اور مقتدر اشرافیہ کی رومان پسندی

کیا جنگ واقعی ختم ہوگئی ہے؟ کیا ایک بار شروع ہونے والی جنگ ختم ہوجایا کرتی ہے؟ کسی جنگ کے خاتمے کا ٹھیک ٹھیک مطلب کیا ہوتا ہے؟ کیا محض توپوں کے خاموش ہونے کا مطلب، جنگ کا خاتمہ ہے؟ کیا جنگ کا میدان صرف سرحد یا سرحد پار ہوا کرتا ہے؟ آج اس قسم کے سوالات ذہن میں گردش کرتے رہے۔ توپیں تو واقعی خاموش ہیں، مگر زبانیں نہیں۔ جنگ کے لیے وقف زبانیں، جنگی توپوں سے کم خطرناک نہیں ہوا کرتیں۔

توپ کا گولہ ایک جگہ گرتا ہے اور اپنی بارودی طاقت کے لحاظ سے، ایک مقام پر قہر برساتا ہے، مگر حربی زبان تو کئی نازک مقامات کو بہ یک وقت نشانہ بناتی ہے: دل وذہن سے لے کر بحث و کلام کی مہذب قلم رو تک اور اس سے آگے عزیز تر تصورات و اقدار تک کو۔

کیا کوئی طاقتور حکمران حقیقت پسند ہوسکتا ہے؟ ایک معنی میں ہوسکتا ہے، مگر صحیح معنوں میں کبھی نہیں۔

وہ اس معنی میں حقیقت پسند ہوسکتا ہے کہ وہ بجٹ کا بڑا حصہ، جنگی ٹیکنالوجی اور تیاریوں پر، پورے حساب کتاب کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ وہ دشمن کی طاقت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتا ہے اور اس کے لیے بااعتماد اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل جاسوسوں پر انحصار کرتا ہے۔

وہ جنگ کے لیے موقع اور وقت کے انتخاب میں بھی حقیقت پسند ہونے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ وہ جنگ کے مقاصد کے تعین میں بھی حقیقت پسند ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جنگ محض، ایک ملک کو دوسرے ملک پربرتری نہیں دلاتی، اسے سیاسی فائدے بھی پہنچاتی ہے۔ وقتی سیاسی فائدے سے لے کر، طویل مدتی فائدوں تک۔

لیکن ایک جنگ کے اثرات: سماج، افراد کی نفسیات، زمین، ماحول، تاریخ اور انسانی تہذیب پر کیا ہوتے ہیں؟ اس کے سلسلے میں کوئی مقتدر حکمران حقیقت پسند نہیں ہوتا۔ وہ اس ناگزیر حقیقت سے آنکھیں چراتا ہے کہ جنگ، دوسروں اور خاص طور پر عام لوگوں کے لیے ایک دوزخ برپا کرنے کا نام ہے۔

اس دوزخ کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ نیز یہ مرحلہ وار ظاہر ہوتا ہے اور کئی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ جنگ کے عروج کے دنوں میں یہ آتش وآہن وبارود ہوتا ہے۔ یہ بھسم کرتا اور راکھ کرتا ہے۔ اس کا ایندھن لوگ، شہر، گھر، تاریخٰی جگہیں، درخت، فصلیں چرند پرندہوتے ہیں۔

اس کے بعد یہ ایک مستقل دکھ کی آتشِ رواں کی صورت لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں اور تاریخ کے اوارق میں ظاہر ہوتا ہے۔

ایک جنگ، ایک پوری نسل کو ناقابلِ برداشت، صدمے کے سپرد کردجاتی ہے اور یہ صدمہ کہانیوں کی صورت، اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یوں جنگ کے دوزخ کا ایندھن وہ لوگ بھی بنتے ہیں، جو کسی جنگ سے صدیوں بعد جنم لیتے ہیں۔ وہ اس سزا کو جھیلتے ہیں، جس کے لیے انھوں نے کوئی جرم کیا ہوتا ہے، نہ شریک جرم رہے ہوتے ہیں۔

چناں چہ ایک مقتدر حکمران صحیح معنوں میں کبھی حقیقت پسند نہیں ہوا کرتا۔

صحیح معنوں میں حقیقت پسندی سے محرومی، حکمرانوں کے ذہن میں ایک خلا کو جنم دیتی ہے۔ اسے رومان پسندی سے پر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو حقیقت پسند نہیں، وہ لازمی طور پر رومان پسند ہوتا ہے۔ سامنے منھ پھاڑے کھڑی حقیقتوں کو اپنی جانب بڑھنے سے روکنے کی خاطر، رومان کو ایک عظیم الشان آڑ بنایا جاتا ہے۔

انتہائی کریہہ چیزوں کو نظروں سے اوجھل کرنے کی خاطر کئی دل چسپ، سنسنی خیز، امیدافزا قسم کی آئیڈیالوجیاں گھڑ لی جاتی ہیں۔ لوگ حقیقت میں انتہائی دل دوز مصیبت اٹھاتے ہیں، وہ اپنی ہڈیوں کے گودے تک مایوس اور دل گرفتہ ہوتے ہیں اور وہ اس کے ذمہ داروں کو بھی کچھ کچھ پہچانتے ہیں، مگر انھیں کئی رومانی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔

انھیں ایک سچی مایوسی کے مقابل، ایک غیر حقیقی امید دلائی جاتی ہیں۔ انھیں کسی مستقبل بعید کی کوئی خوش خبری سنائی جاتی ہے۔ انھیں کسی مقتدر ہستی، تصور یا نظریے کے نام پر، کسی انعام واعزا ز کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ جنگ کریہہ، سفاک، تباہ کن ہوا کرتی ہے، ایک سچی، ناقابل برداشت، انسانی روح کی عمیق سطحوں کو اپنے جبڑے میں کسنےو الی لغویت کی حامل ہوتی ہے۔

کوئی حکمران اشرافیہ اس حقیقت کو سامنے نہیں آنے دینا چاہتی۔ اس لغویت پر کئی رومانی پردے ڈالنے کی خاطر اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ایک معروف اقدام، جنگ کے ہیرو کی تلاش اور اس کے بعد ا س کی تحسینِ بے پایاں ہوا کرتی ہے۔

جنگ کی حقیقی لغویت کو شاعروں نے کچھ کچھ گرفت میں لیا ہے۔

اگر تم سن سکتے ہر جھٹکے پر خون کی بلغمی آواز۔
پھیپھڑوں سے ابلتا ہوا، کینسر کی طرح مکروہ۔

بےقصور زبانوں پر ناسوروں کی طرح کڑوا۔
اے دوست! تم بچوں کو یہ پرانی جھوٹی بات نہ سناتے کہ

"وطن کے لیے مرنا، شیریں اور باعزت ہے"۔

(ولفرڈ اون، Wilfred Owen، برطانوی شاعر)

غزہ میں فاختہ زیتون کی ٹہنی نہیں لاتی
بلکہ بم لاتی ہے

غزہ میں
لومڑیاں مرغیاں نہیں چرتیں

بلکہ قبریں چرتی ہیں
غزہ میں

درخت پتے نہیں اُگاتے
بلکہ شہید اُگاتے ہیں

غزہ میں
یہاں تک کہ پتھر بھی

جنم دیتے ہیں

(ابراہیم نصراللہ، فلسطینی شاعر)

جنگ پسند اشرافیہ، ان حقائق کے آگے، اپنے رومان کی آڑ بنائے رکھتی ہے۔ سب جنگیں رومانی ہوا کرتی ہیں۔ وہ ایک عظیم تصور، ایک برتر نظریے، ایک پرشکوہ آئیڈیالوجی کے تحت لڑی جاتی ہیں۔ جنگ کا محرک بننے والے، جنگ کی دلیل بننے والے اور جنگ کو جائز و برحق سمجھنے والے، سارے تصورات، نظریے، آئیڈیالوجیاں، رومانی ہوا کرتی ہیں۔

اسی لیے وہ لوگوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ آدمی، ان چیزوں کی جانب زیادہ کھنچتا ہے جنھیں مثالی اور برتر بنا کر پیش کیا گیا ہو اور جن میں عظیم ہستیوں کے کچھ قدیمی وعدے ہوں۔

مثالی، برتر، قدیمی وعدوں میں سحر اور طاقت ہوا کرتی ہے۔ جنگی تخیل ہرا س شے کی جانب وارفتگی سے بڑھتا ہے، جو اس کی طاقت کو جائز قرار دے اور اسے مزید طاقتور بنانے کا وعدہ کرے۔

نوٹ: یہ تحریر، پاک بھارت جنگ کےخاتمے کے بعد لکھی گئی تھی۔