وہی بدصورت شہر، ہمیشہ کی طرح فصیل بنا، مجھے گھیرے کھڑا تھا۔ روز کی طرح میں سڑک کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔ یہ سڑک مجھے روز ہی الجھن کا شکار کرتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم یہ کوی دماغی خلل ہے یا سڑک کی ساخت میں کچھ چھپا ہے۔ کچھ ایسا جو بے رحم جانوروں کی نہ نظر اتی خصلت میں موجود ہو۔ روز کی طرح، مجھ سے سڑک پار نہیں کی جا رہی تھی۔ بہت سی اشیاء کا ملاجلا شور، میری کنپٹی کے بہت قریب موجود ایسے پھڑپھڑاتا تھا جیسے ٹنڈ منڈ درخت پر بہت سے پرندے چیختے ہوں۔
اسی جان لیوا صورتحآل میں مجھے ایک عورت ملی، وہ راستہ بھول گی تھی اور راستے کی بابت پوچھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار لگتی تھی ویسے بھی کئی راستے تھے جن پر بے پناہ لوگ، ایسے چہروں اور اجسام کیساتھ موجود تھے جو کسی ذہنی، جنسی، معاشی یا پھر معاشرتی بیماریوں میں گھل رہےتھے۔ وہ ان سے خوفزدہ ہو کر ہی مجھ تک پہنچ پائی تھی کہ اسے میرا چہرا، بھی اسکے اپنے جیسے ہی خوف کے عیار غبار میں دھنسا نظر آتا تھا۔
عورت کا چہرا، کچھ عجیب و غریب سے نقوش کے ہاتھوں کسی ایسے خواب سے مشہابہت رکھتا تھا جو سوچنے پر یاد آے۔ کوئی کہر ذدہ خواب، جسے دیکھنے کے بعد بھول جانے کی ہر ممکن کوشش کی گی ہو لیکن وہ جم گیا ہو۔ دیکھنے میں کوی نیا چہرا نہیں تھا۔ ایسی افسردہ عورتیں، شہر کے کونوں کھدروں میں نظر آ ہی جاتی ہیں۔ اسکی آنکھوں کے ذخم، انتہائی بے بسی سے نوحہ کناں تھے، ہونٹ، بے موسم پھلوں سے، باقی چہرے کے نقوش سے الگ تھلگ تو تھے لیکن موجود تھے جن کی بدولت وہ بات کر سکتی تھی۔ شانے، حیرانی کی حد تک عریاں تھے۔ سینے کے ابھار، گونگے بچوں سے بے زبان لیکن اشاروں سے آشنا تھے۔
جب وہ بے انتہا بیماریوں میں الجھے، ہجوم سے بچتی بچاتی مجھ تک پہنچی تھی تو میں کسی اچانک سے آجانے والے خیال کے ہاتھوں ایک ایسے شخص سا نظر پڑتا تھا جو پاگل خانے کی سب سے الگ تھلگ کوٹھری میں قید ہو۔ ایسا خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی کسی قید سے رہای کی متمنی تھی۔ استعمال شدہ جسم کے پٹھوں کی خمیدگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بدن کی مشابہت، پھیلتے جاتے شہر سی تھی۔ بد صورت شہر کے بیمار لوگ، اس پھیلاو سے چھو جانے کی خواہش لیے اسکے ارد گرد موجود تھے۔ جب وہ مجھ سے مخاطب ہوی تو لگا وہ ڈری ہوئی کسی انجان راستے پر نکل ائی ہے اور واپسی اسکے کے بس میں نہیں اور یہ اسنے کہا بھی، میں نے ایسا سنا بھی!
میں راستہ بھول گئی ہوں۔
مجھے کہا گیا تھا کہ یہاں کوی پرانی عمارت ہے، جو ایک موڑ کے کنارے کھڑی نظر آتی ہے اور بہت سے لوگوں کو چھپاے لرزتی رہتی ہے۔
مجھے یہاں کام کے سلسلے میں بلایا گیا تھا لیکن دیکھتی ہوں یہاں ایسی کوئی جگہ نہیں نہ اس کی مملاثت سی۔
میں اپنے اس زہریلے، رینگتے خیال سے ٹھٹکا جو صبح ہی سے مجھے نوچ نوچ کے کھا رہا تھا اور دیکھا کوئی عورت ہے جسکی جلد، بڑی خاموشی سے، جاتی شام کے بعد آتے اندھیرے میں چھپ رہی ہے کچھ سیاہی نما مکوڑے اسکے ہاتھوں پر رینگتے ہیں جو عمر کی زیادتی کی دلیل ہیں۔ جہاں تک بازو، ننگے نظر آتے ہیں، وہاں تک ہلکے ہلکے بالوں کی موجودگی، اسکی نسوانیت میں خلل ڈال رہی ہے لیکن وہ بہر حال عورت ہے
یہاں تو کوئی ایسی عمارت نہیں۔ ویسے بھی بہت سی عمارتوں کو کسی غصیلے جتھےنے جلا دیا تھا جس میں یہ عمارت بھی تھی، جسکا ابھی تم نے ذکر کیا۔
دور دور تک حرارت اور جسمانی بو پھیلتی رہی تھی۔
نعرے لگتے رہے۔
بہت سے نعرے، جنہیں مکروح مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مکانوں کی درزوں سے خوفزدہ آنکھیں جھانکتی رہیں، میں نے ایک ہی سانس میں اسے جواب دیا شاید مجھے بھول جانے کا ڈر ہو۔ ایسا ڈر مجھے رہتا ہی ہے۔
تو مکین کہاں گیے؟ اس نے افسردگی سے بوجھل آواز سے پوچھا۔
جو جلنے سے بچ سکے وہ سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں، میں نے اس سے کہا جس کی آنکھوں کے اندرون میں، بجھے ہویے دیوں کی مملاثلت لیے کچھ جھانک رہا تھا۔
اچھا؟ اسے حیرت ہوی۔
مجھے تو کہا گیا تھا کسی بوڑھی عورت کو نرس کی ضرورت ہے۔
تم نرس ہو۔
ہاں میں نے نرسنگ کا ڈپلومہ لے رکھا ہے۔
آج کل میرے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں۔
وہ مجھے کہیں سے بھی نرس نہ لگتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی مجھے کسی جسم فروش عورت کا خیال آیا تھا کہ معاشی تنگ دستی کے ہاتھوں ایسی عورتوں کی تعداد میں اضآفہ کیا ہے۔ جو سڑکوں کے کونوں پر کھڑی نظر آتی ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا میرا وہم ہو۔ وہ جو بھی تھی ایک راستہ بھٹکی مجبور عورت تھی۔ میں نے اسکی بات سنی پھر سڑک کی جانب دیکھا کہ شاید راستہ بن جاے اور میں آسانی سے دوسری جانب جا سکوں لیکن وہ پھر بولنے لگی۔۔
پھر مجھے واپسی کا راستہ بتاو کہ میں اپنے گھر پہنچ سکوں۔
میں راسثہ بھول گئی ہوں۔
تمہارا گھر کہاں ہے۔
بہت سی گلیوں میں کہیں چھپا ہے، اس کا ذرد ہاتھ دوسری طرف اشارہ کر رہا تھا جہاں سزک کے ساتھ ساتھ گلیوں کا انبار لگا تھا۔ وہی گلیاں جن میں الجھنوں نے بسیرا کر رکھا تھا۔
مجھے گلیوں کی پیچیدگی ہمیشہ ہی فکرمند کر دیتی ہے۔ خود اپنے مکان کی تلاش بھی میرے لیے ایک معمہ سے کم نہیں ہے۔
تم سانس لینا چاہو تو میرے گھر چل سکتی ہو کہ مجھے گمان ہے میں اسےآج باآسانی ڈھونڈ لوں لگا، میں نے اسے کہا یہ جانے بغیر کہ یہ بات اس سے کہنی بھی چاہیے تھی یا نہیں لیکن یہ بات بہرحال میں کہہ چکا تھا، جسے اس نے نظر انداز کیا تھا۔۔
تمہیں اپنا گھر یاد نہیں تو میری مدد کیا کر سکو گے اور مجھے گلی گلی بھٹکاتے پھرو گے۔
مجھے اپنا گھر یاد ہے لیکن گلیوں کی پیچیدگیاں مجھے الجھاو کاشکار کرتی ہیں۔
وہ مجھے دیکھتی رہی اور نجانے کیا سوچتی رہی۔ ہو سکتا ہے وہ جو راستوں کی بے انتہا بھل بھلیوں سے پریشان تھی، میری یادداشت کی کمزوری سے سراسیمگی کا شکار ہوگئی ہو۔
تو تمہیں گلیاں پریشان کرتی ہیں؟ تبھی اس نے پوچھا لیکن میں خاموش رہا کہ مجھے بات کرنے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی اور کافی خاموش سا گونگا وقت ہمارے درمیان کسی خونخوار جانور سا ہانپتا رہا تھا۔
پھر اچانک میں نے اسے کچھ کہا جو میں یاد کر پایا تھا۔
کل واپسی پر تیز ہوا چل رہی تھی۔ شام نے آخری سانس لیا تھا تو دیکھا گلیاں اندھیرا اوڑھے کھڑی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح سیدھی گلی تھی، جس سے جڑی پانچ گلیاں ہیں۔ جن کی ایک کسی گلی میں گہرے دھبوں والی بلیاں، اداس بیٹھی تھیں۔ مجھے یاد تھا آخری گلی، جو پانچویں گلی ہے، وہیں تیسرا مکان ہے، جسکی دیواریں بے شرمی کی حد تک بے پردہ ہیں۔ تو میں وہاں پہنچا جہاں کوئی اور مکان کھڑا تھا۔ درو دیوار کسی ایسے رنگ میں چھپے تھے جو آنکھوں کو بوجھل کرتا ہے۔ چھت موتیے کی خوشبو سے مہکتی تھی غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کوی عورت ہے، جس کے سرخ ہونٹ اندھیرے میں بھی چمکتے ہیں۔ بدن کسی گھنے درخت سا، ہوا سے ہمکلام ہے۔
مطلب وہ تمہارا گھر نہیں تھا؟
ہاں کیونکہ وہ پانچویں گلی نہیں تھی کوئی اور گلی تھی۔ لگتا تھا بلیوں نے جگہ بدل لی تھی۔ ورنہ تو وہ وہیں موجود رہا کرتی ہیں جہاں ایک شخص انہیں مرغیوں کی گردنیں ڈالتا ہے اور وہ پیٹ بھر کر وہیں پڑی اونگھتی رہتی ہیں۔
اور وہ عورت؟
وہ کسی اور کی عورت تھی۔ میری عورت کم ہی چھت پر آتی ہے اسے چھت کی تنہائی سے خوف آتا ہے۔ پھر اسکے بدن میں موتیے نہیں کھلتے، سیاہ رنگی گلاب ہیں، جو جگہ جگہ منہ نکالتے نظر آتے ہیں۔
میں نے دیکھا وہ عجیب آنکھوں سے دیکھ رہی ہےجیسے راستہ بھولے پرندے دیکھتے ہونگے اور اندازہ کر چکی ہے کہ اس نے ایک غلط شخص کا انتخاب کیا ہے جسے اپنےگھر کا بھی علم نہیں چنانچہ وہ اب کسی اور شخص کی تلاش میں ہے۔ ہجوم میں کوئی نظر تو آتا ہے۔ سب سے جدا، لیکن کون ہے؟ معلوم نہیں پڑتا تھا لیکن اچانک سے کوئی نظر اتا تھا جہاں تک شہر کا تعلق تھا وہ اسی بد صورتی کا شکار تھا، جیسا اسے ہمیشہ سے ہی محسوس کیا گیا تھا۔ کچھ جھریاں اوڑھے چہرے، جو موت کے بہت قریب تھے ایسا بتاتے ہیں کہ یہ دیکھتے دیکھتے بدصورت ہوا تھا جیسے پانی گدلانے لگے۔
جہاں تک مکانوں کی چھتوں کی بات ہے وہاں خوشبو ہمکلام تھی یہ ان عورتوں کے بدن کی مہکار تھی جن کے مرد گلیوں کی پیچیگیوں میں کھو جاتے اور وہ راستہ تک تک کر تھک جاتیں لیکن جن چھتوں کی دیواریں اونچی تھیں، وہ کمروں کی تنہائی میں اپنے بے جان ہوئے جاتے بدن دیکھ دیکھ کر روتیں، جو بلیوں کی آوازوں سی مشابہت لیے، اس شخص کو فکر مند کرتیں، جو مرغیوں کی گردنیں لیے گلیوں گلیوں گھومتا رہتا ہے۔
یہ شخص کہاں سے آتا ہے کسی کو علم نہیں۔ کبھی کسی نے اسے آتے نہیں دیکھا۔ بس اچانک، ہاتھ میں تھیلا لیے نمودار ہوتا ہے جو قرمزی رنگ سے بلیوں میں جذبی احساس پیدا کرتا ہے۔ شاید میں کچھ گہرے خیالوں میں رینگ گیا تھا تبھی وہ عورت، جو مجھ سے ہمکلام رہی تھی، بیزار ہوگی تھی اور اب اس مرد سے ہمکلام تھی، جو اسے اس کے گھر کی طرف جاتے راستے کے بارے بتا رہا تھا۔ وہ وہی شخص تھا جسے ہجوم کی افراتفری میں کچھ مختلف سا محسوس کیا گیا تھا، جسے سب راستے یاد تھے اور اسکے چہرے پر وہی پرانا اطمینان تھا جو کبھی اس شہر کے خوبصورت ہونے کی وجہ سے چہروں پر ہوا کرتا تھا۔
میں نے دیکھا وہ عورت، جسکا نام، میں نہیں پوچھ پایا تھا، ایک راستے پر تیز تیز چلتی ہوی اتنی دور چلی گئی کہ اوجھل ہوگی۔ میں نے اسے گلیوں کے الجھاو میں دفن ہوتے دیکھا پھر مٹی سے بھری فضا اسے نگل گئی ہو سکتا ہے وہ اسے گھر کے دروازے کے پاس اگل دے۔ میں نے اسکی ختم ہوئی پریشانی پر سکھ کا سانس لیا کہ وہ مجھے زچ کئیے دیتی تھی۔ وہ شخص میرے پاس سے بھی گزرا تو کیا دیکھتا ہوں وہ یہاں کا ہے ہی نہیں کہیں اور کا ہے۔ تبھی اس کی آنکھوں میں ایسا اطمینان ہے جو کسی کو میسر نہیں ہے۔
مجھے خود اپنے گھر کی تلاش تھی۔ سڑک کے پار جو پراسرار سی عمارت نظر پڑتی ہے، جسکی بے ذبان بالکونیوں سے، چیختے چلاتے چہرے، خودکشی کی خواہش لیے، مر جانے کی حسرت میں سڑک کی طرف منہ کیے جھانکھتے ہیں۔ اسی عمارت کے پیچھے چھپی گلیوں کی تاریکی میں میرا گھر ہے، جس کا رستہ میں روذ بھول جاتا ہوں۔ اسی تلاش کی خاطر میں اس سے مخاطب ہوا۔ اسے قریب سے دیکھ کر کہا جا سکتا تھا کہ وہ کسی کم دیکھای دیتے سیارے سے اترا ہے۔ چہرے پر براجمان نقوش دیکھے بھالے نہیں تھے۔
کیا تم میرے گھر کا پتہ بتا سکتے ہو، میں نے محسوس کیا میری ذبان میں لکنت ہے اور کہے گیے لفظ، شور میں بہتے دور نکل گیے ہیں لیکن وہ شخص رک گیا کہ اسے لگا میں کچھ کہہ رہا ہوں اور مجھے سمجھانے لگا۔ اس نے ایک ایسا راستہ بتایا جو شیشے سا صاف اور ہیرے سا چمکدار تھا اسکے سمجھانے سے سب کچھ واضح تھا۔ روشنی کی لکیر، کسی واضح خیال سی، گھر کی موجودگی کو منور کر رہی تھی۔ وہ روز، یادداشت سے محو ہوتا گھر، سامنے کھڑا تھا۔ ہو سکتا ہےکوئی خواب ہو، کوی معجزہ ہو جو عام طور پر، محروم لوگوں کو سرشار کر جاتا ہے۔ عافیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا، میں گھر پہنچا تو دیکھتا ہوں، بلیاں بھو ک سےغرا رہیں ہیں۔۔
وہی سنسان کیاری ہے چہاں سیاہ رنگی گلاب منہ، نکالے جھانکھ رہے ہیں۔