نجانے مجھے اس بارے لکھنا بھی چاہیے، یہی، جو کچھ بہت دنوں سے میرے ساتھ ہو رہا ہے یااپنے ساتھ ہونے والے ان واقعات کو خود ہی تک محدود رکھوں، یہاں تک کے ان لوگوں سا ہو جاوں جن کے ساتھ کب سے رہ رہا ہوں۔ وہی مردہ آنکھوں کو سجائے ہوے، جیسے سردیوں کی دوپہر ہو اور دھوپ سینکتے ہوں۔
ویسے کچھ دنوں سے بہت کچھ بھولنے بھی لگا ہوں۔ ڈر بھی لگتا ہے اگر سب کچھ بھول گیا تو کسی کو کچھ بتانے کے قابل نہیں رہوں گا حالانکہ یہ ضروری بھی نہیں کہ سب کچھ بتایا جائے کہ کتنی باتیں مجھ تک بھی نہیں پہنچ پاییں اور کوی فرق نہیں پڑا۔ بہت دنوں سے گھر کی مختلف شرارتی اشیاء وہاں، موجود نہیں ہوتیں جہاں انہیں رکھا گیا تھا یا میں انہیں رکھ کر بھول گیا تھا۔ ان کے کون سے پیر ہیں جو یہاں سے وہاں پھدکتی پھریں گی۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ان محسوس کیے گیے قصوں کے بارے لکھا بھی جائے تو پڑھنے والے میری ذہنی و قلبی حالت پر شک کریں گے۔
یہ حالت، گہری کھدی کھائی سی ہے جسکو عبور کرنا کم از کم میرے بس میں نہیں ہے۔ ایسی، اچانک آ جانے والی گھاٹیاں، ان کے اندر کی گہری، خاموش تنہائی، نہ جانتے ہوئے بھی پیدا ہوے بھورے بھورے رنگ لیے نبادات، کس قدر ڈرا دینے والی خاصیت لیے موجود ہوتے ہیں۔ پھر جب سے میرے اپنے چہرے نے کچھ رنگ اوڑھنے شروع کیے ہیں، بہت سے لوگ، ساتھ رہنے لگے ہیں۔ یہ لوگ بہت عرصہ غائب رہے اب اچانک نظر آنے لگے۔
ایسا کچھ دنوں سے ہو رہا ہے کہ یادوں کی دھند میں لپٹے کچھ لوگ ہیں جو مجھے نظر آتے ہیں۔ وہ اتنا قریب ہوتے ہیں کہ ان کے جسم کی پرانی ہوئی جاتی مہک، پوری رفتار سے میرا پیچھا کرتی ہے۔ خواب میں یوں باتیں کرتے ہیں کہ موجود ہوں۔ ان کے چہرے کسقدر زندہ نظر اتے ہیں انکھ کھلنے پر یاد اتا ہے وہ تو کب کے مر چکے ہیں۔ مختلف اوقات میں، مختلف جگہوں پر مٹی برد ہوئے۔ جہاں ان کے بہت سے عزیز، اسودہ خاک تھے۔ ویسے مٹی سب کچھ کھا جاتی ہے۔ کچھ بھی نہیں چھوڑتی۔
مکان، مکین، ان کی اشیاء، سب کچھ ختم ہو جاتا ہے لیکن کہیں ایک اور دنیا بھی ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے جیسے کہ یادیں، لمس، خواب، تجسس، خوف اور بھی بہت کچھ جیسے ایک الگ تھلگ دنیا، کسی دھند کی سرمئی سی چادر میں لپٹی، جس کی تہہ در تہہ میں وہ سب موجود ہیں جو بظاہر نہیں رہے۔ جیسے گدلے سے پانی میں کوئی آبی مخلوق متواتر ہلتی ہوئی، جیسے دو متحرک آنکھیں، دیکھنے والے کو مصروف رکھے ہوئے کہ اگر سرگوشی بھی کی گئی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا اور آسمان کا ہونا بیکار جائے گا۔ آسمان بہر حال موجود ہے، کچھ نیلی سی بڑی سی، جامد تصویر سا، جسے مصور نے بڑی فرصت سے بنایا اور گہری نیند سو گیا۔ اب آسمان مختلف اشیاء سے کھیلتا رہتا ہے یا بادلوں کی ردا میں خود کو چھپا لیتا ہے۔
اس دن، جو تنہا سا دن تھا اور آسمان برہنہ تھا، میں گھر کے بہت دنوں سے بند کمرے میں گیا جہاں پرانے کاغذات رکھے گئے تھے۔ مجھے کسی کتاب کی تلاش تھی۔ وہیں کرسی پر میں نے انہیں بیٹھے دیکھا۔ وہ سگریٹ سلگائے، اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہی ان کا پسندیدہ سگریٹ مارلبرو، جس کی تیز مہک پھیلی تھی لیکن مجھے دیکھتے ہی وہ غائب ہو گئے لیکن مہک موجود رہی۔ وہ ویسے ہی تھے، جیسے آخری دنوں میں ہو گئے تھے۔ بوجھل، تھکے تھکے اور شدید اداس، وہ بے حد مٹی کا سا چہرا لئیے مضحمل لگ رہے تھے۔ اس دن میں نے کمرے کی فضاء میں بھی کچھ ایسا محسوس کیا جیسا موت سے پہلے ان کے کمزور ہوئے جاتے جسم اور جلد پر دیکھا تھا۔ وہ ویسے ہی تھے۔ الماری میں ان کی کتابیں موجود تھیں، جن پر انکا نام اور تواریخ درج تھیں۔ ان کا طرز تحریر کس قدر شفاف تھا۔ وہی طرز تحریر جسے بے ترتیب، مکروح ترقی کھا گئی ہے۔
اس دن میں نے کسی سے ذکر نہ کیا۔ کرتا بھی کس سے، پورے گھر میں، مدتوں سے جمع کیا سامان تھا جسے دیکھتے دیکھتے عمر گزر گئی تھی۔ یہاں تک کے شام نے پورے گھر کو یوں سمیٹ لیا کہ دھندھلاہٹ بڑھ گئی تو میں انہیں راستوں پر نکل گیا جہاں وہ جایا کرتے تھے۔ یہ گھنے درختوں کے درمیانی راستے تھے جن کے بارے، وہ کہا کرتے تھے کہ وہاں کچھ ان کے دوست، انہیں مل جاتے ہیں۔ ایک راستہ ڈھلوان بنا نیچے اترتا تھا۔ دونوں جانب جھاڑیاں تھیں جن میں کچھ خاص پرندے چہچہاتے تھے۔ پھر ایک قدیم باغ تھا جس کے بیچوں بیچ سوکھا، ویران سا نظر آتا فوارہ تھا۔ میں جب سیڑھیاں اتر رہا تھا مجھے کچھ لوگ نظر آئے جو باتیں کرتے تھے۔ اپنے اپنے انداز میں بیٹھے لیکن جوں جوں قریب گیا وہ ویسے ہی غائب ہوتے گئے جیسا دوپہر میں نے انہیں غائب ہوتے دیکھا تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا سوائے گھانس، درختوں اور مالی کے، جو کھرپے سے زمین کو تکلیف دے دہا تھا پھر کچھ سرسراہٹ سنائی دی جو گرے ہوئے پتوں سے آ رہی تھی۔ یہ خوابوں میں سنائی دیتی اہٹ سی، کتنا فریب پیدا کر رہی تھی۔ اسی فریب میں اب مالی بھی موجود نہیں تھا۔
میں نے محسوس کیا کہ کئی دنوں سے کچھ ایسے مناظر دیکھتا ہوں جن کا وجود نہیں اور مجھے کسی ایسے جہان میں رہنا پڑتا ہے جس کا کوئی امکان نہیں ہے میں خود بھی بڑھاپے کی دہلیز پر برہنہ پا کھڑا گہرے گہرے سانس لیتا ہوں بالکل اس کی طرح جسے میں نے آج بند کمرے میں دیکھا تھا جو بہت دنوں بعد کھولا گیا تھا۔
میں نے باغ کو اسی حالت میں چھوڑا اور بل کھاتے راستے سے واپس ہوا جو گھنے درختوں سے ڈھکا، بہت سے راستوں سے ملتا تھا۔ میرے راستے پر جو مکانوں کی قطار تھی، اندھیرے میں ڈوبی تھی تبھی مجھے دیکھنے میں کچھ دشواری ہو رہی تھی محض اندازے سے میں نے راستہ تلاش کیا جو وہیں کہیں موجود تھا۔
رات بہتر نہیں تھی۔ وہ نیند کے بغیر آ گئی تھی۔ بے ترتیب خیالوں کا انبار لگا تھا جیسے نو مولود سنپولیوں کا گچھا، کنواں کی منڈیر پر رکھا، ایک دوسرے کو ڈستا ہو لیکن زرا ٹہرئیے میں کچھ اپنے بارے میں بتا دوں میری بیوی بہت عرصہ ہوا اپنے بیٹوں کے پاس بدیس سدھار چکی ہے اور میرے بستر سے جڑی دراز، مختلف رنگ برنگی دوائیوں سے بھری ہے جو میرے طبیب نے مجھے لکھ کر دی ہیں اسکا خیال ہے اب میں رشتہ داروں کے بغیر تو رہ سکتا ہوں، ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ابھی کچھ دنوں پہلے میری بیوی کا فون آیا تھا کہ مجھے، اسکے پاس آ جانا چاہیے اور میں یہ ضد چھوڑ دوں لیکن میں نے اسے بتایا نہیں کہ کچھ لوگ میرے ساتھ یہاں رہتے ہیں اور میرے وہاں آ جانے سے وہ اکیلے رہ جائیں گے۔
مجھے معلوم نہیں یا ہو سکتا ہے بہت زیادہ خواب آور گولیوں کا اثر ہے کہ میں اپنے ماں باپ کو اکثر دیکھتا ہوں۔ اکثر وہ مجھے اپنے اپنے کمروں میں انہیں کاموں میں مشغول نظر اتے ہیں جن میں وہ مشغول رہا کرتے تھے۔
ایک دن میں نے ماں کو اپنے کمرے میں دیکھا۔ وہ انتہائی کمزور لگتی تھیں۔ میں نے محسوس کیا ان کی بینائی اور میرے درمیان کچھ حائل ہے اور وہ مجھے تلاش کر رہی ہیں۔ وہی جھریوں سے بوجھل چہرا، جن کی درزوں سے ممتائیت ہمکلام ہے۔ وہی آنکھیں، جہاں عمر کی رفتار، گرد کے جال بن گیی ہے۔ میں نے چاہا تھا ان سے بات نہ کروں بس دیکھے جاوں لیکن مجھے قرار نہ تھا تبھی جب میں ان سے مخاطب ہوا تو وہ وہاں نہیں تھیں، محض ایک ختم ہوا جاتا سایہ سا تھا جو کمرے کی بیکار فضاء میں تحلیل ہوتا گیا، جیسے کسی کام کی جلدی ہو۔ کوئی اور جہان انتظار میں ہو۔ جہان ان کا دل خوش اور تازہ ہو۔ وہ جہاں رہیں خوش رہیں کہ جب وہ زندہ تھیں، بیماریوں کی قطار، جیسے سیاہ چونٹیاں، ان کے تعاقب میں رہیں۔ مجھے وہ شدت سے یاد آئیں اور میں روتے روتے رہ گیا۔ مجھے ان کے لمس کی خواہش نے بے بس کر دیا۔
آج جب راستہ تلاش کرتے کرتے میں گھر پہنچا تو سنا فون کی گھنٹی بولتی ہے۔ مجھے معلوم تھا یہ بیوی ہے۔ وہ وہی کہہ رہی تھی، جسے میں متواتر منع کر رہا تھا۔
کافی بحث کے بعد بیوی نے فون رکھ دیا تھا۔ میں نے اسے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میرا دیار غیر میں آباد ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کچھ دنوں میں وہاں رہا بھی تھا جہاں تنہائی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک بے جان، گونگی، بہری سی زندگی، جس کی چاردیواری کے رنگ، تنگ اور بدنما زاویوں میں قید تھے۔
ایک دن تو عجیب واقعہ ہوا۔ میں ویران گھر کے کمرے میں کتاب پڑھ رہا تھا کہ کھڑکی سے نظر آتی چھت پر وہ نظر آئی۔ وہی کھلے بال، ہوا سے کھیلتے۔ وہی سوگوار سی انکھیں، کاجل میں چپھیں۔ وہی ستھرے ہاتھ، دیوار پر رکھے۔ وہی پیرہن، اسکے پسندیدہ رنگوں سے مزین۔ اسکے خطوط کو سمیٹے جیسے مٹی کے برتن میں چھپا پانی، پہلے تو میں سمجھا ہی نہیں تبھی بھاگ کر چھت تک پہچا کہ سانس سینے میں چبھنے لگا تو لگا یہ وہی وہم ہے جو حقیقت سے زیادہ روشن ہے۔ سامنے کی چھت، کسی محبوب کے بغیر، دل کی طرح خالی تھی۔ وہ مجھے شدت سے یاد آئی۔ وہی سانولی سی لڑکی، جس کی اداس، سیاہ آنکھیں آسمان سر پر اٹھا لیتی تھیں۔
آج کا آسمان کس قدر خاموش تھا۔ بادلوں کی ردا اوڑھے، جیسے کسی خیال میں گم، کچھ سوچتا تھا۔ شاید وہ بھی اسی کے بارے سوچتا ہو کہ میں نے اس کے ساتھ مل کر اسے ہر پل دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑی تھی۔ تبھی نوعمری میں ہی میں نے اسے عورت سا دیکھا تھا۔ ایک برہنہ تلوار سی، جس کی چمک زہر میں بجھی ہو۔ کسی تلاش کے فریب میں گرفتار چکوری سی، جو وقت سے پہلے اڑنا سیکھ لے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ لہراتی تھی، بارش سی برستی تھی۔ ایک خشک، مٹی سے بھرا دن تھا جب میں نے اسے بارش سا برستے دیکھا تھا۔ مٹی بھرے دنوں میں، جب درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔ جب خزاں انہیں کھاتی ہے۔ ان کی چرچراہٹ جگہ جگہ سنائی دیتی ہے۔ ہر شے، لگتا ہے مرتی جاتی ہے۔ ویسا ہی تو دن تھا، جسموں میں سوکھا پن بھرتا، تو وہ برسی تھی۔ تیز، دھواں دار بارش کی آوازیں لئیے، پورے کمرے کو جل تھل کرتی تھی۔ مجھے لگا وہ مر چکی ہے ورنہ یوں نظر نہ اتی، اپنی اسی حسن کے ساتھ، جہاں بہار ٹہری رہتی تھی۔
مجھے کچھ یاد آیا۔ بہت سی یادوں کے بوجھ تلے دبا ایک دن، جو بھلا بیٹھا تھا لیکن کہیں تلچھٹ میں زندہ تھا۔ یاد سا آتا ہے کہ ایک دن اسنے مجھے گھر آنے کا اشارہ کیا۔ میں گھر گیا تو دیکھتا ہوں وہ خزاں الودسی ہے۔ کچھ پھول اگر بدن کی کیاریوں سے جھانکتے بھی ہیں تو مر جھائے ہوئے، اسی کے بدن میں مٹی ہو رہے ہیں۔ میں حیران ہوا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر برآمدے سے جڑے کمرے میں لے آئی۔ مجھے بستر پر بٹھایا خود دیوار کی طرف منہ کئیے رونے لگی۔ اسکے بالوں کے سیاہ تار ایک دوسرے میں گتھے تھے یہاں تک کے باہر سے آتی روشنی نے ان میں چھپنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے اس سے اس کی اداسی کا سبب پوچھا۔ اس نے بتایا اسکی شادی ہو رہی ہے۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ لپٹ گئی۔ اسکے سانسوں میں عجیب سی مہک تھی۔ بدن میں عجیب سا گوند تھا۔ مجھے سمجھ نہ آ سکا تھا کہ شادی ہونے پر وہ کیوں افسردہ ہے ورنہ تو اسکے بدن کے گھاو شادی کے مرہم سے ہی بھر سکتے ہیں۔
وہ دن مجھے اچھی طرح ایسا ہی یاد ہے جیسے اسکی ناف کے قریب کا تل، جو اسنے دیکھایا تھا۔ ٹارچ کی روشنی میں، وہ گندمی پیٹ پر چمک رہا تھا اور وہ بڑی بے شرمی سے قمیض اٹھائے یوں دیکھتی تھی جیسے گہرایی میں چھپا ہیرا دیکھاتی ہو۔ گہری حبس زدہ رات دم گھو ٹے دیتی تھی محض چاند تھا۔ ہو سکتا ہے تارے بھی ہوں لیکن آسمان انہیں چھپائے بیٹھا تھا۔
میں نے چھت سے ویسے ہی آسمان کو دیکھا جو میری حالت پر پریشان تھا۔ میں خود بھی، اسکے یوں نظر آنے پر حیران تھا اور یقین کر بیٹھا تھا وہ مر چکی ہے۔ مجھے کچھ ایسا یقین تھا کہ آج ہی اسکا انتقال ہوا ہے اور اسکا وہی بےباک سراپا مجھ سے ملنے آیا ہے جیسے وہ وقت بے وقت ملنے آتا رہا تھا۔ تپتی دوپہروں، حبس سے بھری شاموں اور اندھیری راتوں میں، جب اسکا پنڈا بخار اوڑھے، گہری گہری سانسیں بھرتا نظر آتا۔ کبھی کبھی میں ڈر جاتا۔ مجھے لگتا جیسے وہ، میری جان کے درپے ہے اور کسی بھی لمحے میرا لرزتا جسم آخری سانس لینے کو ہے۔
نیچے سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا میں چھوڑ کر اوپر گیا تھا لیکن باورچی خانے میں کوئی تھا۔ بیسن کی روٹیوں کی خوشبو، کبھی کبھی چلتی ہوا کیساتھ، کتاب کے صفحوں کو چھو رہی تھی۔ کوئی دوسری طرف منہ کئے کھڑا تھا۔ بالوں کی چھوٹی سی سکڑی ہوئی چوٹی، جمی ہوئی برف کیصورت موجود تھی۔ میں بالکل نہیں بولا کہ جو بھی ہے ایک دم غائب ہو جائے گا حالانکہ باورچی خانے سے نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا۔
دوسری طرف گندی گلی میں راستہ بناتی کھڑکی تھی جسے سلیٹی سے جنگلے نے بند کر رکھا تھا۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا اور ڈر تھا کہ میری موجودگی سے غائب نہ ہو جایئں کہ کسی نے زور زور سے بڑا دروازہ کھٹکھٹایا، وہی ہوا ان کی چٹیا جو برف سی جمی تھی پگھلنے لگی اور انہیں بہا کر لے گئی۔ میں دروازے تک گیا وہ دور کا رشتہ دار تھا۔ کسی کے انتقال کے بارے بتا رہا تھا۔ میں سمجھ گیا وہاں وہی تھیں۔ وہ بضد تھا کہ تدفین میں چلوں کہ ہمارے خاندان کی آخری فرد تھیں۔ مجھے جانا ہی پڑا۔ راستے گرد اور لوگوں سے بھرے ویسے ہی تھے۔ قبرستان اندھیرے میں ڈوبا، انتظار کرتا نظر اتا تھا۔ قبریں زمین دوز تھیں اور شہری جانور غراتے تھے۔
کوئی انجان سی، ختم ہوئی جاتی فصیل تھی جو درمیان میں کھڑی آتے جاتے اجسام کو دیکھتی تھی تدفین کے بعد گھر پہنچا تو دیکھتا ہوں، شدید تنہائی اوڑھے کمرہ، میرے انتظار میں ہے۔ میں سو جانا چاہتا ہوں۔ تنہائی بھی سو جائے گی کہ وہ بھی میری طرح تھکی باریک ہوتی جاتی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ گہری نیند ہم دونوں کو اپنی پناہ میں لے سکتی ہے۔ اس کی نرم چھاتیوں میں چھپ کر ہم دونوں بہل سکتے ہیں۔ فون مسلسل بج رہا ہے۔۔ میں کریڈل اٹھاتا ہوں، پھر رکھ دیتا ہوں۔ اندر کوئی دنیا دار آواز ہے۔ جس کی مجھے ضرورت نہیں رہی۔ ویسے بھی جس مخصوص زمین پر ہم دونوں موجود رہے وہاں، ہر مقام پر، بےشمار وسوسوں کا بسیرا رہا۔ ہم لاعلم سے، ان میں پیروں کی انگلیاں پھنسائے، ہاتھوں سے دور اگی گھانس نو چتے رہے یہی ہماری دنیا تھی۔
بے رحم جسمانی تعلق سے، ٹھٹرے ہوے حسیاتی بہرے پن تک، جس سے اب میں اوب چکا ہوں۔ مجھے مرے ہوئے لوگوں کیساتھ رہنا اچھا لگتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں اکتاہت نہیں ہوتی۔ وہ بے مقصد زبان نہیں چلاتے۔ وہ کتنی خاموشی سے، کسی بغیر وزن کی ہوا سے، پاس سے گزرتے ہیں۔ کتنے انہماک سے، اپنے کاموں میں مصروف نظر آتےہیں۔ سونے سے پہلے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا، جس کے ساتھ بہت سے عیب کیے۔ کتنی بدنامی اوڑھی پھر وہ کسی انجان شکل کی جلدی بیماری کا شکار ہوا لال دھبوں نے اسکے بدن پر ایسا بسیرا کیا، کہ اسکے اعضاء چاٹتے رہے۔ یہاں تک کہ اسے قریبی قبرستان کے ایک حصے تک لیجانا پڑا جسے بہت پرانے، بھوت سی شکل والے درخت نے ڈھانپ رکھا تھا۔
بہت دنوں بعد وہ کھڑکی کے چٹخے شیشے سے اس طرف موجود تھا۔ اسکے گھنے بال جڑھ چکے تھے۔ وہ انتہائی عمر رسیدہ دکھتا تھا۔ ویسے بھی بیماری کے ہولناک آسیب نے اسے وقت سے پہلے ہی بڑھیا دیا تھا۔ میں نے دکھ بھرا منہ موڑ لیا۔ روز کی طرح دراز کھولی، جہاں رنگ برنگی گولیاں دیکھتا ہوں۔ وہ میرے انتظار میں ہیں۔ ایک نیند کی چھوٹی سی گلابی گولی ہے جس میں سب کچھ چپھا ہے جس کی مجھے حاجت ہے۔ اس میں آدھی موت چپھی میرے انتظار میں ہے۔۔ میں گہری نیند سونا چاہتا ہوں۔۔