1. ہوم
  2. کالمز
  3. سعدیہ بشیر
  4. اک عمر سے دشمن کو تنہا گھیر رکھا ہے

اک عمر سے دشمن کو تنہا گھیر رکھا ہے

دکھ، جدائی، غم اور اداسی سے بھرا دسمبر دبے پاؤں نئے سال کی طرف بڑھ رہا ہے اور پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے۔ جہاں ہر ادارے، ہر فرد اور ہر سوچ کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ معاشی دباؤ، سیاسی عدم استحکام، سماجی تقسیم اور بیرونی چیلنجز نے ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے نازک وقت میں قوم کی نظریں ایک بار پھر پاکستان کی فوج پر مرکوز ہیں۔ نہ صرف بطور دفاعی قوت بلکہ ایک منظم، باصلاحیت اور باوقار ادارے کے طور پر۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فوج نے ہمیشہ مشکل اوقات میں ملک کا دفاع کیا۔ قربانیاں دیں اور دشمن کے عزائم خاک میں ملائے، مگر آج کا چیلنج روایتی جنگ سے مختلف ہے۔ آج کی جنگ بے اعتمادی، بد خواہی، نفاق و گروہ بندی اور پروپیگنڈہ کے مقابل اعتماد، اتحاد اور سچائی کی بھی ہے اور ریاست، طاقت اور ضمیر کا امتحان بھی۔ تاریخ کے کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو نعرے نہیں مانگتے۔ وہ فہم، ضبط اور اخلاقی جرأت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان بھی آج ایسے ہی ایک لمحے میں کھڑا ہے۔ جہاں سوال صرف یہ نہیں کہ اقتدار کس کے پاس ہے، بلکہ یہ ہے کہ ریاست کا اخلاقی وزن کہاں کھڑا ہے۔

ریاست محض سرحدوں کا نام نہیں ہوتی۔ ریاست ایک اجتماعی عہد ہوتی ہے۔ عوام اور اداروں کے درمیان۔ جب یہ عہد کمزور پڑنے لگے تو طاقتور ترین ادارہ بھی تنہا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں سب سے زیادہ جس ادارے کی طرف نگاہیں اٹھتی ہیں۔ وہ پاکستان فوج ہے۔ یہ نگاہیں امید کی بھی ہیں اور سوال کی بھی۔ فوج نے اس ملک کیلئے بیش قیمت جانیں دی ہیں۔ ہر بار کڑے امتحان سے گزری ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ قطرہ قطرہ قربانیوں کا یہ لہو رنگ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

پاکستان آج جس فکری انتشار کا شکار ہے۔ اس کی جڑیں صرف سیاست میں نہیں بلکہ معنوی خلا میں ہیں۔ اس خلا کو وسیع تر کرنے اور اس خلیج کو مزید گہرا کرنے میں سیاست ملوث ہے۔ آج کی جنگ سماجی و اخلاقی ڈھانچہ کے تحفظ پر بھی مبنی ہے۔ آج کا محاذ بندوق نہیں۔ اقدار کے خود ساختہ الاؤ کی تپش سے منسلک ہے۔ جسے سیاست میں بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ پاکستانی نوجوان وہ نسل ہے جو سوال کو بغاوت نہیں سمجھتی۔ وہ دلیل مانگتی ہے۔ شفافیت چاہتی ہے اور اداروں کو انسانوں کی طرح غلطی کے امکان کے ساتھ دیکھنا چاہتی ہے۔ اس خلیج کو بڑھانے میں سیاستدان اپنا حصہ بڑی فراغ دلی سے شامل کر رہے ہیں اور ریاستی توازن کو شدید بے توازن کر رہے ہیں۔

آج پاکستان کو کسی مسیحا کی نہیں، بلکہ ایک ایسے ادارہ جاتی رویے کی ضرورت ہے جو اجتماعیت کو مضبوط کرے۔ اختلاف کو غداری نہیں، فطری عمل جانے۔ یہ وقت سوال اٹھانے کا نہیں۔ خود کو سوال کے سامنے کھڑا کرنے کا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں سب سے بڑا بحران معیشت یا سیاست نہیں، بلکہ جواب دہی کا ہے۔ ہم ایک ایسی ریاست بن چکے ہیں جہاں ہر طبقہ احتساب کی بات کرتا ہے، مگر احتساب کی قطار میں کھڑا ہونا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ طاقت جہاں ہو، وہاں سوال ناگزیر ہوتا ہے، مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب سوال یک طرفہ ہو جائے۔ جب ریاست کے دوسرے طاقتور ستون خاص طور پر سیاست خود کو اس دائرے سے باہر سمجھنے لگیں۔

فوج کے اندر نظم و ضبط، چین آف کمانڈ اور داخلی احتساب کا ایک واضح تصور موجود ہے۔ یہ نظام کامل نہیں، مگر یہ مانتا ہے کہ ادارہ فرد سے بڑا ہے۔ سیاست میں یہ تصور ناپید ہے۔ یہاں فرد جماعت سے بڑا ہے اور جماعت ریاست سے۔ سیاستدان اقتدار میں ہوں تو احتساب کو انتقام کہتے ہیں۔ اقتدار سے باہر ہوں تو یہی احتساب جمہوریت کی روح بن جاتا ہے۔ یہ دوغلا معیار صرف اداروں کو نہیں۔ ریاست کے اخلاقی وجود کو کمزور کرتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ سیاستدان غلطیاں کرتے ہیں۔ غلطی انسانی فطرت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

اگر بدعنوانی کو کسی ایک شعبے میں دیکھنا ہو تو تعلیم ہی کافی ہے۔ تعلیم وہ میدان ہے جہاں جرم خاموش ہوتا ہے، مگر اثر نسلوں تک جاتا ہے۔ گھوسٹ اسکول، غیر حاضر اساتذہ، سفارش پر بھرتیاں، نصاب میں سیاسی مداخلت اور ترقی و تبادلوں کی کھلی منڈیاں۔ یہ سب کسی خفیہ سازش کا حصہ نہیں۔ یہ روزمرہ کی حقیقت ہے اور پھر تمام سکول بیچ باچ کر انٹر نیشنل تعلیمی کانفرنسز کیلئے کروڑوں کے فنڈز کی غیر قانونی فراہمی۔

یہ سب فیصلے کون کرتا ہے۔ وہ چوہے کہاں سے آتے ہیں جو اناج کی بوریوں میں سوراخ کرنے کے ماہر ہیں۔ یہ فوج کا دائرہ نہیں۔ یہ عدلیہ کی انتظامی ذمہ داری نہیں۔ یہ براہِ راست سیاست اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کا اختیار ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ احتساب وہی کرے گا جو خود اسی نظام سے فائدہ اٹھا رہا ہو۔ یوں احتساب ایک اصول نہیں رہتا۔ ایک تماشہ بن جاتا ہے۔ عوام کو دکھایا جاتا ہے کہ کارروائی ہو رہی ہے، مگر نظام جوں کا توں رہتا ہے۔

ریاست وہاں کمزور نہیں ہوتی جہاں اختلاف ہو، ریاست وہاں ٹوٹتی ہے جہاں جواب دہی ختم ہو جائے۔ جب طاقتور قانون سے اوپر کھڑا ہو جائے اور کمزور صرف قانون کے نیچے دب جائے، تو انصاف محض ایک لفظ رہ جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت کے سوال کا سامنا ہے، مگر اس سوال کی اخلاقی طاقت تبھی قائم رہ سکتی ہے جب سیاست خود کو شفاف بنانے پر آمادہ ہو۔ ایک بدعنوان سیاست، غیر جانبدار ریاست پیدا نہیں کر سکتی۔

فوج کی اصل طاقت اس کا اسلحہ نہیں بلکہ قوم کا اعتماد ہے۔ جب قوم اور فوج ایک صفحے پر ہوں تو کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ذہن سازی کا تقاضا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ ریاست کے تمام ستون ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر سیاست کمزور ہوگی تو معیشت لڑکھڑائے گی اور اگر معیشت کمزور ہوگی تو دفاعی صلاحیت بھی دباؤ میں آئے گی۔ قوم کو کسی مسیحا کی ضرورت نہیں۔

قوم کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں طاقت اختیار نہ بنے۔ عہدہ استثنا نہ ہو اور احتساب صرف مخالف کے لیے مخصوص نہ رہے۔ جب سیاست دان خود کو اسی معیار پر پرکھنے کے لئے تیار ہوں گے جس معیار پر وہ دوسرے اداروں کو پرکھتے ہیں۔ تب ریاست میں توازن پیدا ہوگا۔ ورنہ ہم یونہی اداروں کو آمنے سامنے لا کر اصل سوال سے بھاگتے رہیں گے۔ ریاست بندوق یا بیانیے سے نہیں ٹوٹتی۔ ریاست انصاف کے تسلسل کے ٹوٹنے سے بکھرتی ہے اور جب احتساب سب کے لئے ایک جیسا نہ ہو۔ تو پھر خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔

پاک فوج زندہ باد